خواتین و حضرات متوجہ ہوں ۔ مدد درکار ہے ۔

ناعمہ عزیز

لائبریرین
السلام علیکم سب کو ۔
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہم اپنے پیپرز کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ آج ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت پڑ گئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ آپ ہمیں مایوس ہرگز نہیں کریں گے ۔ دراصل آج صبح ہماری ٹیچر کا پیغام ہمیں موصول ہوا کہ ان کو ایز سون ایز پاسبل ایک ٹاپک پر ڈیبیٹ چاہئے ۔ اور میں ان کو لکھ کر دوں ۔
لیکن میں پیپرز کی وجہ سے اتنا مصروف ہوں کہ بالکل نہیں لکھ سکتی اور ویسے بھی میں اتنا قابل بندہ نہیں ہوں نا :(
ٹاپک ہے

عشق کہتے ہیں جسے ۔ خلل ہے دماغ کا ۔
ابن سعید
شمشاد چاچو
الف عین انکل
محمد وارث لالہ
یوسف ثانی انکل
سارے جلدی جلدی سے میری پریشانی کو حل کرنے کا کوئی سامان کر دیں کیونکہ ہم اپنی ٹیچر کو انکار کرنے کے حق میں بالکل نہیں ہیں۔
منفی اور مثبت آپ دونوں پوائنٹس دے سکتے ہیں ۔ اگر آپ ساری ڈیبیٹ نہیں لکھ سکتے تو کم سے کم ایک ایک پوائٹ ضرورد دیں ۔ شام تک مجھے چاہئے ہے :( پلیززززززززززززززززززز
ویٹینگ فار یور ہیلپ ۔ واسلام
 

عدیل منا

محفلین
پسند تو محبوب کی کوئی اک ادا ہی آتی ہے مگر اسے شادی پورے محبوب سے کرنی پڑتی ہے۔ دماغ کے خلل کیلئے یہ بھی دلیل دی جاسکتی ہے۔:)
(بہنا! مذاق سے لکھا ہے، سچ مچ نا شامل کردینا)
 

یوسف-2

محفلین
  • عشق اور مشک چھپائے نہیں چھُپتے
  • عشق، حقیقی بھی ہوتا ہے (جو اللہ کی ذات سے ہوتا ہے) اور مجازی بھی (جو اللہ کے کسی بندے یا بندی سے ہوتا ہے)
  • عشق نے غالب نکما کردیا ؛ ورنہ آدمی تھے ہم بھی کام کے
  • پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں؛اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی (میر تقی میر)
  • بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندا ہائے گل؛ کہتے ہیں جسے عشق وہ خلل ہے دماغ کا (غالب)
  • عشق اور محبت میں فرق ہے۔ عشق اگر سچا ہے تو یہ ایک ”غیر ارادی فعل ہے“، جو کسی کو بھی، کسی سے بھی اور کبھی بھی ”ہو جاتا ہے“ عاشق کا اپنے عشق پر کوئی ”کنٹرول“ نہیں ہوتا۔ عشق انسان سے بھی ہوسکتا ہے، کسی چیز سے بھی اور کسی مخصوص فعل سے بھی۔ پھر عاشق کی زندگی معشوق (فرد، چیز یا فعل) کے گرد ہی گھومتی ہے۔باقی ساری باتیں، اس کی زندگی میں ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہیں۔ جبکہ محبت دیدہ و دانستہ، سوچ سمجھ کر اور ”ضرورتاً“ کی جاتی ہے۔ جیسے ہم اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے والدین یا بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ مثبت اقدار سے، یا دیگر اچھی یا پسندیدہ چیزوں سے محبت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ
  • عشق، محبت کی ”معراج“ بھی کہلاتی ہے۔ کسی سے محبت کرتے کرتے اسی سے پھر عشق بھی ہوسکتا ہے۔ اور عشق براہ راست یعنی محبت کی سیڑھی سے گذرے بغیر بھی ہوسکتا ہے، بلکہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ محبت پروان چڑھتی ہے۔ اس جذبہ میں کمی بیشی بھی ممکن ہے جبکہ عشق ایک لامحدود جذبہ ہے۔ اس کی کوئی انتہا نہیں بقول اقبال : ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں ؛ مِری سادگی دیکھ،کیا چاہتا ہوں
  • عشق ایک انتہائی ”خطرناک جذبہ “ ہے۔ اگر یہ حقیقی ہے تو انسان کو براہ راست جنت میں لے جانے کا سبب بنتا ہے۔ عشق اگر ملک و قوم سے ہے تو ایسا عاشق ملک و قوم کے لئے بہت کچھ کرجاتا ہے۔ جیسے سقوط مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر کو ملک سے عشق ہوا تو انہوں نے اپنا کیریئر، آرام و آسائش، مال و دولت، آزادی سب کچھ ترک کرکے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا۔ یہ کام صرف ملک سے محبت کے جذبہ سے سرشار کوئی شخص نہیں کرسکتا۔ آئین اسٹائن کو سائنس سے عشق ہوا تو ۔۔۔ تان سین کو موسیقی سے عشق ہوا تو ۔۔۔ پکاسو کو مصوری سے عشق ہوا تو ۔۔۔ غرضیکہ جس جس فرد کو کسی مشن، مثبت اقدار، ملک و قوم وغیرہ سے عشق ہوا تو وہ ”کامیاب و کامران“ ہوگیا۔ لیکن اگر کسی کو معمولی اشیا یا فرد سے عشق ہوا تو ۔۔۔ قارون کو دولت سے عشق ہوا تو، کسی بدمعاش کو ”ڈان “ بننے کا عشق ہوا تو، کسی سیاستدان کو ”اقتدار“ سے عشق ہوا تو ۔۔۔ اس قسم کے عشق نے اپنے عاشق کو بھی تباہ و برباد کیا اور ”معشوق“ اور معشوق سے منسلک دیگر ز کو بھی تباہ و برباد کیا۔ اسی لئے اکثر دانشور شعرا نے عشق کے اسی منفی پہلو کو نمایاں کیا ہے۔ جبکہ اردو شاعری میں صرف علامہ اقبال ایسے شاعر ہیں جنہوں نے روایت سے ہٹ کر عشق کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔
 
یہ ٹاپک ہی غلط ہے۔۔۔:D کیونکہ عشق کا تعلق دماغ کی بجائے دل سے ہے۔ البتہ اس اعتبار سے درست ہے کہ حضرتِ دل جنابِ دماغ کو ایک عضوِ معطّل بنا کر رکھ دیتے ہیں۔۔ آخر کار دماغ صاحب چاروناچار دل کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اور یوں حضرتِ عشق دل و دماغ ہی نہیں بلکہ بندے کے گٹّوں گوڈوں تک میں بیٹھ جاتے ہیں:D
 

یوسف-2

محفلین
(×) ”ہمارے“ مطلب ؟ ایک تو ہوئے آپ، یہ دوسری اور تیسری کون ہے :)
تجربے،
(×) کس کس پر، کب کب اور کہاں کہاں تجربات کئے ہیں، اسی کے بارے میں کچھ بتلا دیجئے :)

مشاہدے :
(×) اگر مناسب سمجھیں تو اپنے مشاہدات سے بھی آگاہ کریں :)

اور مطالعے کے دائرے
(×) یہ دائرہ تو یقیناً بہت وسیع ہوگا :) اسے رہنے ہی دیں:)

سے باہر کا موضوع ہے۔ :) :) :)
(×) باہر کے موضوع کو اب اندر کیا لانا :):):)

(بچپن سے شوق تھا کہ” سرجن“ بن کر زندوں اور مُردوں کا پری اور پوسٹ مارٹم کیا کروں :) اب یہی شوق یہاں پورا کر رہا ہوں :) )
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
السلام علیکم اور سب کا بہت بہت شکریہ کچھ ہم نے اپنی ٹیچر کی مدد کر دی کچھ آپ سب سے لے کر کام ہو گیا ، نایاب لالہ ۔ محمد وارث لالہ ۔ محمد بلال اعظم لالہ ۔ ابن سعید سعو دلالہ ۔ عدیل منا لالہ ۔ محمود احمد غزنوی لالہ ۔ اور یوسف ثانی انکل آپ کا بہت سااااااااااااارا تھینکس :)
اور وارث لالہ ذرا یہ میرے دستخط میں موجود شعر کا ترجمہ تو کر دیں پلیزززززززز:rolleyes:
 

عدیل منا

محفلین
بادشاہ نے دنیا کو چھوڑ دیا عالم گیری حاصل کرنے کے لئے (گیرتا کا مطلب عالم گیری یا پھر پاک صاف ہونا، ملوث ہوناہے)
یہ لفظ ہمچو نہیں "ہمجو" ہے دوست کے معنی میں آتا ہے۔ دوسرا مصرع واضح تو ہو رہا ہے مگر بیان کرنا نہیں آرہا۔۔یوں سمجھ لیں کہ وہ یہ کہنا چاہ رہا ہے "آدمی کو اس کی صحبت خراب کیئے رکھتی ہے"
پورے شعر کی تشریح کچھ یوں ہوگی " کوئی سیدھی راہ اپنا نا چاہتا ہے مگر اس کی صحبت اس کی راہ میں رکاوٹ ہے"
(میری "ناقص العقل" کے مطابق ایسا ہے، اس سے بہتر اگر کوئی اور صاحب وضاحت کردیں تو سر تسلیمِ خم)
 

محمد وارث

لائبریرین
اور وارث لالہ ذرا یہ میرے دستخط میں موجود شعر کا ترجمہ تو کر دیں پلیزززززززز:rolleyes:

آپ نے جو شعر لکھا ہے اس کا دوسرا مصرع درست نہیں ہے، تلاش کرنے پر مجھے یہ شعر اس طرح سے ملا ہے اور یہ مولانا رومی کی مثنوی کا شعر ہے

ترکِ دنیا گیر تا سلطاں شَوَی
ورنہ گر چرخے تو، سرگرداں شوی

مفہوم کچھ یوں ہے کہ ترکِ دنیا اختیار کر تا کہ تو سلطان یا بادشاہ بن جائے وگرنہ تیرا آسمان یعنی تو ہمیشہ سرگرداں ہی رہے گا یعنی دنیا کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہی رہے گا۔
 

تعبیر

محفلین
وعلیکم السلام
ناعمہ چلاکو ٹاپک کے عنوان میں صرف خواتین کا ذکر کر کے انہیں خوش کیا ہے اور ٹیگ اور مدد صرف مرد حضرات سے
:p ویسے صحیح بھی ہے
 
Top