الف نظامی
لائبریرین
خواجہ حسن نظامی رحمۃ اللہ علیہ کا طرزِ تبلیغِ اسلام
خواجہ صاحب نے اپنی زندگی میں قومی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تحریک خلافت ، حادثہ مسجد کانپور ، شدھی تحریک کی مخالفت اور تحریک پاکستان کیلیے ان کے مخلصانہ کارناموں پر ضخیم کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ تاہم میرے خیال میں ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ "شدھی تحریک" سے مقابلہ ہے۔ اپنی پر اثر تحریروں اور پرجوش تقریروں سے انہوں نے سوامی شردھانند کا ناطقہ بند کردیا تھا۔ ان کی شب و روز تبلیغی جدو جہد سے جہاں لاکھوں آدمی مرتد ہونے سے بچ گئے وہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریبا اسی ہزار کفار دائرہ اسلام میں شامل ہوئے۔ خواجہ صاحب نے شہروں میں اپنی خطابت کا جادو جگانے کے بجائے دور افتادہ دیہات میں اس کا تعاقب کیا اور نہ صرف اس کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا بلکہ ان پڑھ دیہاتیوں کے دلوں میں ایمان و ایقان کی ایسی شمعیں روشن کیں ، جنہیں بعد میں کفر و باطل کی تیز آندھیاں بھی نہ بجھا سکیں۔کاٹھیا وار کے علاقے میں ایک چھوٹٰ سے ریاست "وزیریہ" تھی۔ یہاں کے نومسلم راجہ ٹھاکر صاحب کہلاتے تھے۔ ٹھاکر صاحب اور ان کی ریاست کے چھ لاکھ ہم قوم ہندو ہونے پر تل گئے۔
خواجہ حسن نظامی رحمۃ اللہ علیہ نے ٹھاکر صاحب سے فرمایا
ٹھاکر صاحب! آپ کیوں ہندو ہونا چاہتے ہیں؟
ٹھاکر صاحب بولے:
"لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہی کہ کیسے راجپوت ہو کہ مسلمانوں کی تلوار سے ڈر کر تم نے اسلام قبول کرلیا؟"
خواجہ صاحب نے پوچھا:
"کیا تمہارے دادا نے واقعی تلوار کے خوف سے اسلام قبول کیا تھا؟"
ٹھاکر صاحب بولے:
"نہیں ، نہیں ۔ انہوں نے اسلام کو سچا دین جان کر اسے قبول کیا تھا۔"
خواجہ صاحب بولے:
"تو پھر آپ لوگوں سے کیوں نہیں کہتے کہ ہم بہادر راجپوت ہیں، اور ہم نے بہادروں کا دین قبول کیا ہے۔ بہادروں کے لیے بہادروں کا دین ہے اور بزدلوں کے لیے بزدلوں کا دین ہے۔ آپ کے دادا بہادر تھے، انہوں نے بہادروں کا دین قبول کیا تھا"
یہ کہہ کر خواجہ صاحب نے کچھ پڑھ کر ٹھاکر صاحب کے سینے پر دم کیا۔
ٹھاکر صاحب بولے:
"کچھ بھی ہو، اب میں بنیوں کا دین قبول نہیں کروں گا، اسلام واقعی بہادروں کا دین ہے"
خواجہ صاحب کا طرزِ تبلیغ بڑا موثر تھا۔ وہ ہر شخص سے اس کی ذہنی استعداد کے مطابق بات چیت کرتے اور اسلام کی حقانیت ذہن نشین کراتے تھے۔
شدھی تحریک کے زمانے میں انہوں نے لاکھوں کی تعداد میں ہینڈ بل ، پمفلٹ اور کتابیں شائع کیں۔ اس زمانے میں ان پر ہندوں کی طرف سے قاتلانہ حملے بھی ہوئے ، جھوٹے مقدمے بھی قائم ہوئے ،فحش گالیاں بھی دی گئیں ، لیکن وہ تبلیغ دین اور اشاعت اسلام سے باز نہیں آئے۔ گاندھی نے جب انہیں تبلیغی کاموں سے روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے صاف صاف کہا کہ "جب تک شردھانند کی تحریک ارتداد کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوجاتا ، میں چین سے نہیں بیٹھوں گا"
شردھانند کے فتنہ ارتداد کے بعد خواجہ صاحب نے جو کچھ بھی لکھا ، وہ انسدادِ ارتداد ہی کی خاطر لکھا۔ جو سفر یا تقریر کی ، اسی مقصد کے لیے کی۔ اس کی پانچ سو کتابوں میں سے نصف سے زیادہ انسدادِ ارتداد سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ اردو زبان کے بہت بڑے ادیب تھے، بلاشبہ انہوں نے اپنے قلم سے تبلیغ دین کا حق ادا کیا۔
ان کی قبر پر ہزاروں رحمتیں ہوں۔
تحریر از خواجہ عابد نظامی