جاسم محمد
محفلین
خواجہ صاحب! مبارک ہو
DECEMBER 31, 2020
حاسد میر
ادارتی صفحہ
خواجہ محمد آصف کو اِس صاحبِ اقتدار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے اُن کی گرفتاری کیلئے بار بار فریاد کی تھی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ صاحبِ اقتدار تو گرفتاری کیلئے حکم دیتا ہے، فریاد تو مظلوم لوگ کرتے ہیں تو پھر میں نے فریاد کا لفظ کیوں استعمال کیا؟ آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں لیکن اِس پہلو کو نظرانداز نہ کریں کہ ہر صاحبِ اقتدار بااختیار نہیں ہوتا۔ اقتدار اور اختیار میں فرق سامنے آ جائے تو کٹھ پتلی کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔
خواجہ محمد آصف کو ہمارے صاحبِ اقتدار دو سال پہلے گرفتار کروانا چاہتے تھے۔ صاحبِ اقتدار کے دل میں مچلتی یہ خواہش اُن کا حکم بن کر نیب کے پاس پہنچی تو متعلقہ حکام نے خواجہ آصف کے بارے میں تحقیقات شروع کر دیں۔ خواجہ صاحب کے معاملے میں نیب بہت محتاط تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بھی خواجہ محمد آصف کو آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
خواجہ صاحب کو لمبا عرصہ اٹک قلعے میں قید رکھا گیا۔ نیب حکام کبھی اُن سے سوٹ اور ٹائیوں کی انکوائری کرتے، کبھی گھر میں لگی ٹائلوں کے متعلق پوچھتے۔ اخبارات میں خواجہ صاحب کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں شائع کرائی گئیں۔ نیب کے سربراہ ایک حاضر سروس فوجی افسر لیفٹیننٹ جنرل محمد امجد تھے۔
انہوں نے خواجہ محمد آصف کے خلاف تحقیقات کی خود نگرانی کی لیکن جب کچھ نہ ملا تو انہوں نے خواجہ صاحب سے معذرت کی۔ خواجہ آصف کے سیاسی مخالفین کو یہ معذرت بھول چکی ہے لیکن نیب کو یہ معذرت یاد تھی لہٰذا خواجہ صاحب کو انکوائری کیلئے کئی مرتبہ بلایا گیا لیکن انہیں گرفتار کرنے سے گریز کیا گیا۔
صاحبِ اقتدار خواجہ صاحب کو ہر صورت میں سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے تھے اور اُنہوں نے اپنی اِس خواہش کو کابینہ کے اجلاس کی کارروائی کا حصہ بنا کر میٹنگ منٹس ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن کو بھجوائے۔ اُن سے کہا گیا کہ خواجہ محمد آصف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا جائے کیونکہ انہوں نے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے طور پر ایک غیرملکی کمپنی کا اقامہ رکھا۔
بشیر میمن نے غداری کا مقدمہ بنانے سے گریز کیا تو صاحبِ اقتدار کی خواہش نے حکم کی بجائے فریاد کا رنگ اختیار کرنا شروع کر دیا اور پھر صاحبِ اقتدار کے کچھ مشیروں اور معاونین نے محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کے ذریعہ خواجہ محمد آصف سمیت مسلم لیگ (ن) کے پچاس سے زیادہ ارکانِ قومی اسمبلی کے خلاف انکوائریاں شروع کرا دیں۔
اُنہی دنوں خواجہ صاحب کو کہا گیا کہ اگر آپ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ کے خلاف تمام انکوائریاں بند ہو جائیں گی۔ خواجہ صاحب نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
اِس گزرتے سال کے اکتوبر میں گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد صاحبِ اقتدار نے اپنے کچھ ساتھیوں سے مبینہ طور پر کہا کہ خواجہ آصف گرفتار نہیں ہو رہا تو اسے کہیں پھینٹی لگوا دو یا اس کے چہرے پر سیاہی پھینک دو۔ یہ وہ باتیں ہیں جو خواجہ صاحب نے خود میڈیا کو بتائیں اور تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے ان باتوں کی تردید بھی کردی۔ کچھ عرصے سے نیب نے خواجہ محمد آصف کو دوبارہ بلانا شروع کر دیا تھا۔
خواجہ صاحب کو یقین ہو چلا تھا کہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کر لیا جائے گا۔ کچھ دن پہلے بہت طویل عرصے کے بعد ان سے ایک لمبی نشست ہوئی جس میں پرویز رشید، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور مریم اورنگزیب بھی موجود تھیں اور خواجہ صاحب ہمیں بتا رہے تھے کہ صاحبِ اقتدار کی طرف سے میری گرفتاری کی خواہش اب ایک فریاد بن چکی ہے لہٰذا اس مظلوم صاحبِ اقتدار کی فریاد پر مجھے کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
خواجہ صاحب کو نیب نے جب بھی بلایا، وہ اپنا ضروری سامان اٹیچی کیس میں بند کرکے ساتھ لیجاتے تھے تاکہ اگر نیب انہیں گرفتار کر لے تو گھر والوں کو ضروری سامان بھجوانے کی تکلیف نہ کرنا پڑے۔ کچھ دنوں سے خواجہ صاحب صبح سے شام تک سوٹ پہنے رکھتے تھے تاکہ گرفتاری اچھے کپڑوں میں ہو اور صاحبِ اقتدار ان کی گرفتاری کی تصویر دیکھ کر اپنے بال نوچنے لگے۔
منگل کی شب خواجہ صاحب کو اسلام آباد میں احسن اقبال کے گھر کے باہر سے گرفتار کیا گیا تو وہاں کافی ٹی وی کیمرے موجود تھے۔ خواجہ صاحب نہ صرف ایک خوبصورت سوٹ میں ملبوس تھے بلکہ انہوں نے ماسک کے پیچھے سے خوب مسکرا مسکرا کر گرفتاری دی اور ہاتھ ہلاتے ہوئے نیب والوں کےساتھ روانہ ہو گئے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارے صاحبِ اقتدار نے خواجہ محمد آصف کو گرفتار کرانے کیلئے اتنے جتن کیوں کئے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خواجہ صاحب نے 2012میں یہ الزام لگایا تھا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کے نام پر اکٹھے کئے گئے فنڈز کی ایک بڑی رقم جوئے میں ہار دی گئی تھی اور یہیں سے خواجہ صاحب کا تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اختلاف ذاتی دشمنی میں بدل گیا۔
میری خبر کچھ مختلف ہے۔ خواجہ محمد آصف کچھ عرصے سے بار بار ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی بات کر رہے تھے جس کا مقصد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نہیں بلکہ اداروں کے درمیان ڈائیلاگ شروع کرانا تھا۔
ایک دفعہ سینیٹر اور چھ دفعہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہونے والے خواجہ محمد آصف وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بھی رہے۔ چاہتے تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے لیکن ان کی سیاست نواز شریف سے شروع ہو کر نواز شریف پر ختم ہوتی ہے، ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے روابط اور کچھ صاحبانِ اختیار کے ساتھ تعلقات کو ہمارا صاحبِ اقتدار ہمیشہ اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔
صاحبِ اقتدار کی سیاست صرف اور صرف محاذ آرائی ہے لہٰذا جو کوئی بھی ڈائیلاگ اور مفاہمت کی بات کرتا ہے اُسے صاحبِ اقتدار اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اسی لئے شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا اور اسی لئے خواجہ محمد آصف کو گرفتار کرانے کیلئے اِس قدر جتن کئے گئے۔
پچھلے دنوں مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جنرل گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز لے کر شہباز شریف سے ملنے جیل گئے تھے۔
خواجہ محمد آصف بھی اپنی پارٹی قیادت کی متعین کردہ حدود و قیود کے اندر رہ کر اپنے ایک دوست کے ذریعہ ایسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے لیکن اُن کی گرفتاری صاحبِ اقتدار کی طرف سے محمد علی درانی اور انہیں شہباز شریف کے پاس بھجوانے والوں کیلئے ایک پیغام ہے۔ جو بھی ڈائیلاگ کی بات کرے گا وہ سلاخوں کے پیچھے جائے گا خواہ اس کیلئے فریاد ہی کرنی پڑے۔
خواجہ محمد آصف کو اِس صاحبِ اقتدار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے اُنہیں گرفتار کرا کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ میں صاحبِ اختیار بھی ہوں۔ صاحبِ اقتدار جب صاحبِ اختیار بننے کیلئے آئین و قانون کو اپنے گھر کی لونڈی بنانے کی کوشش کرتا ہے تو غلطیاں کرتا ہے۔ خواجہ محمد آصف کی گرفتاری بھی ایک ایسی ہی غلطی ہے۔ اس گرفتاری سے خواجہ صاحب کے بارے میں ان تمام افواہوں کا خاتمہ ہوگیا جو ان کے کچھ اپنے ہی ساتھیوں نے پھیلائی تھیں۔
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کی توسیع کیلئے جب مسلم لیگ (ن)نے قانون سازی کی حمایت کی تو یہ حمایت نواز شریف کی بجائے خواجہ صاحب کے کھاتے میں ڈال کر انہیں مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی۔ وہ وزراء جو کل شام یہ ڈھول بجا رہے تھے کہ پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیگی اور پی ڈی ایم ٹوٹ گئی، اِن تمام وزراء کے بیانات اُس وقت پس منظر میں چلے گئے جب خواجہ صاحب کی گرفتاری کی خبر آئی۔
اِس گرفتاری نے ساری دنیا کو بتادیا کہ کوئی نہ کوئی، کہیں نہ کہیں سخت پریشان بیٹھا ہے کیونکہ اسے اصل خطرہ استعفوں سے نہیں اسلام آباد کی طرف متوقع لانگ مارچ سے ہے۔ خواجہ صاحب کو اس لئے بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ پہلے بھی نیب کی گرفتاری کے بعد ایک صاحبِ اختیار نے ان سے معذرت کی تھی، اس گرفتاری کے بعد بھی ایک معذرت اُن کا انتظار کر رہی ہے۔ خواجہ صاحب مبارک ہو!
DECEMBER 31, 2020
حاسد میر
ادارتی صفحہ
خواجہ محمد آصف کو اِس صاحبِ اقتدار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے اُن کی گرفتاری کیلئے بار بار فریاد کی تھی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ صاحبِ اقتدار تو گرفتاری کیلئے حکم دیتا ہے، فریاد تو مظلوم لوگ کرتے ہیں تو پھر میں نے فریاد کا لفظ کیوں استعمال کیا؟ آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں لیکن اِس پہلو کو نظرانداز نہ کریں کہ ہر صاحبِ اقتدار بااختیار نہیں ہوتا۔ اقتدار اور اختیار میں فرق سامنے آ جائے تو کٹھ پتلی کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔
خواجہ محمد آصف کو ہمارے صاحبِ اقتدار دو سال پہلے گرفتار کروانا چاہتے تھے۔ صاحبِ اقتدار کے دل میں مچلتی یہ خواہش اُن کا حکم بن کر نیب کے پاس پہنچی تو متعلقہ حکام نے خواجہ آصف کے بارے میں تحقیقات شروع کر دیں۔ خواجہ صاحب کے معاملے میں نیب بہت محتاط تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بھی خواجہ محمد آصف کو آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
خواجہ صاحب کو لمبا عرصہ اٹک قلعے میں قید رکھا گیا۔ نیب حکام کبھی اُن سے سوٹ اور ٹائیوں کی انکوائری کرتے، کبھی گھر میں لگی ٹائلوں کے متعلق پوچھتے۔ اخبارات میں خواجہ صاحب کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں شائع کرائی گئیں۔ نیب کے سربراہ ایک حاضر سروس فوجی افسر لیفٹیننٹ جنرل محمد امجد تھے۔
انہوں نے خواجہ محمد آصف کے خلاف تحقیقات کی خود نگرانی کی لیکن جب کچھ نہ ملا تو انہوں نے خواجہ صاحب سے معذرت کی۔ خواجہ آصف کے سیاسی مخالفین کو یہ معذرت بھول چکی ہے لیکن نیب کو یہ معذرت یاد تھی لہٰذا خواجہ صاحب کو انکوائری کیلئے کئی مرتبہ بلایا گیا لیکن انہیں گرفتار کرنے سے گریز کیا گیا۔
صاحبِ اقتدار خواجہ صاحب کو ہر صورت میں سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے تھے اور اُنہوں نے اپنی اِس خواہش کو کابینہ کے اجلاس کی کارروائی کا حصہ بنا کر میٹنگ منٹس ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن کو بھجوائے۔ اُن سے کہا گیا کہ خواجہ محمد آصف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا جائے کیونکہ انہوں نے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے طور پر ایک غیرملکی کمپنی کا اقامہ رکھا۔
بشیر میمن نے غداری کا مقدمہ بنانے سے گریز کیا تو صاحبِ اقتدار کی خواہش نے حکم کی بجائے فریاد کا رنگ اختیار کرنا شروع کر دیا اور پھر صاحبِ اقتدار کے کچھ مشیروں اور معاونین نے محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کے ذریعہ خواجہ محمد آصف سمیت مسلم لیگ (ن) کے پچاس سے زیادہ ارکانِ قومی اسمبلی کے خلاف انکوائریاں شروع کرا دیں۔
اُنہی دنوں خواجہ صاحب کو کہا گیا کہ اگر آپ نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ کے خلاف تمام انکوائریاں بند ہو جائیں گی۔ خواجہ صاحب نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
اِس گزرتے سال کے اکتوبر میں گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد صاحبِ اقتدار نے اپنے کچھ ساتھیوں سے مبینہ طور پر کہا کہ خواجہ آصف گرفتار نہیں ہو رہا تو اسے کہیں پھینٹی لگوا دو یا اس کے چہرے پر سیاہی پھینک دو۔ یہ وہ باتیں ہیں جو خواجہ صاحب نے خود میڈیا کو بتائیں اور تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے ان باتوں کی تردید بھی کردی۔ کچھ عرصے سے نیب نے خواجہ محمد آصف کو دوبارہ بلانا شروع کر دیا تھا۔
خواجہ صاحب کو یقین ہو چلا تھا کہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کر لیا جائے گا۔ کچھ دن پہلے بہت طویل عرصے کے بعد ان سے ایک لمبی نشست ہوئی جس میں پرویز رشید، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور مریم اورنگزیب بھی موجود تھیں اور خواجہ صاحب ہمیں بتا رہے تھے کہ صاحبِ اقتدار کی طرف سے میری گرفتاری کی خواہش اب ایک فریاد بن چکی ہے لہٰذا اس مظلوم صاحبِ اقتدار کی فریاد پر مجھے کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
خواجہ صاحب کو نیب نے جب بھی بلایا، وہ اپنا ضروری سامان اٹیچی کیس میں بند کرکے ساتھ لیجاتے تھے تاکہ اگر نیب انہیں گرفتار کر لے تو گھر والوں کو ضروری سامان بھجوانے کی تکلیف نہ کرنا پڑے۔ کچھ دنوں سے خواجہ صاحب صبح سے شام تک سوٹ پہنے رکھتے تھے تاکہ گرفتاری اچھے کپڑوں میں ہو اور صاحبِ اقتدار ان کی گرفتاری کی تصویر دیکھ کر اپنے بال نوچنے لگے۔
منگل کی شب خواجہ صاحب کو اسلام آباد میں احسن اقبال کے گھر کے باہر سے گرفتار کیا گیا تو وہاں کافی ٹی وی کیمرے موجود تھے۔ خواجہ صاحب نہ صرف ایک خوبصورت سوٹ میں ملبوس تھے بلکہ انہوں نے ماسک کے پیچھے سے خوب مسکرا مسکرا کر گرفتاری دی اور ہاتھ ہلاتے ہوئے نیب والوں کےساتھ روانہ ہو گئے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارے صاحبِ اقتدار نے خواجہ محمد آصف کو گرفتار کرانے کیلئے اتنے جتن کیوں کئے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خواجہ صاحب نے 2012میں یہ الزام لگایا تھا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کے نام پر اکٹھے کئے گئے فنڈز کی ایک بڑی رقم جوئے میں ہار دی گئی تھی اور یہیں سے خواجہ صاحب کا تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اختلاف ذاتی دشمنی میں بدل گیا۔
میری خبر کچھ مختلف ہے۔ خواجہ محمد آصف کچھ عرصے سے بار بار ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی بات کر رہے تھے جس کا مقصد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نہیں بلکہ اداروں کے درمیان ڈائیلاگ شروع کرانا تھا۔
ایک دفعہ سینیٹر اور چھ دفعہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہونے والے خواجہ محمد آصف وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بھی رہے۔ چاہتے تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے لیکن ان کی سیاست نواز شریف سے شروع ہو کر نواز شریف پر ختم ہوتی ہے، ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے روابط اور کچھ صاحبانِ اختیار کے ساتھ تعلقات کو ہمارا صاحبِ اقتدار ہمیشہ اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔
صاحبِ اقتدار کی سیاست صرف اور صرف محاذ آرائی ہے لہٰذا جو کوئی بھی ڈائیلاگ اور مفاہمت کی بات کرتا ہے اُسے صاحبِ اقتدار اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اسی لئے شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا اور اسی لئے خواجہ محمد آصف کو گرفتار کرانے کیلئے اِس قدر جتن کئے گئے۔
پچھلے دنوں مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جنرل گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز لے کر شہباز شریف سے ملنے جیل گئے تھے۔
خواجہ محمد آصف بھی اپنی پارٹی قیادت کی متعین کردہ حدود و قیود کے اندر رہ کر اپنے ایک دوست کے ذریعہ ایسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے لیکن اُن کی گرفتاری صاحبِ اقتدار کی طرف سے محمد علی درانی اور انہیں شہباز شریف کے پاس بھجوانے والوں کیلئے ایک پیغام ہے۔ جو بھی ڈائیلاگ کی بات کرے گا وہ سلاخوں کے پیچھے جائے گا خواہ اس کیلئے فریاد ہی کرنی پڑے۔
خواجہ محمد آصف کو اِس صاحبِ اقتدار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے اُنہیں گرفتار کرا کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ میں صاحبِ اختیار بھی ہوں۔ صاحبِ اقتدار جب صاحبِ اختیار بننے کیلئے آئین و قانون کو اپنے گھر کی لونڈی بنانے کی کوشش کرتا ہے تو غلطیاں کرتا ہے۔ خواجہ محمد آصف کی گرفتاری بھی ایک ایسی ہی غلطی ہے۔ اس گرفتاری سے خواجہ صاحب کے بارے میں ان تمام افواہوں کا خاتمہ ہوگیا جو ان کے کچھ اپنے ہی ساتھیوں نے پھیلائی تھیں۔
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کی توسیع کیلئے جب مسلم لیگ (ن)نے قانون سازی کی حمایت کی تو یہ حمایت نواز شریف کی بجائے خواجہ صاحب کے کھاتے میں ڈال کر انہیں مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی۔ وہ وزراء جو کل شام یہ ڈھول بجا رہے تھے کہ پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیگی اور پی ڈی ایم ٹوٹ گئی، اِن تمام وزراء کے بیانات اُس وقت پس منظر میں چلے گئے جب خواجہ صاحب کی گرفتاری کی خبر آئی۔
اِس گرفتاری نے ساری دنیا کو بتادیا کہ کوئی نہ کوئی، کہیں نہ کہیں سخت پریشان بیٹھا ہے کیونکہ اسے اصل خطرہ استعفوں سے نہیں اسلام آباد کی طرف متوقع لانگ مارچ سے ہے۔ خواجہ صاحب کو اس لئے بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ پہلے بھی نیب کی گرفتاری کے بعد ایک صاحبِ اختیار نے ان سے معذرت کی تھی، اس گرفتاری کے بعد بھی ایک معذرت اُن کا انتظار کر رہی ہے۔ خواجہ صاحب مبارک ہو!