مہوش بہن ، بہت شکریہ ، ان بہترین معلومات کا۔
--- یقین رکھئے کہ اس پیغام میں اشارہ آپ کی طرف کہیںبھی نہیں ہے ---
ایک گروہ منکر الحدیث اور منکرِ صل۔ٰوۃ کا ایسا بھی ہے جو کہ صل۔ٰوۃ کو نماز مانتا ہی نہیںہے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ صل۔ٰوۃ اصل میںاس مشاورتی محفل کا نام ہے جو رسول اکرم منعقد فرماتے تھے اور اس کے آخر میں کچھ دعا وغیرہ ہوجاتی تھی جو آگے بڑھ کر نماز بن گئی - نعوذ باللہ
پھر ایک نئے قسم کے لوگ بھی ہیںجو منکر الحدیث ہی نہیں بلکہ منکر القرآن بھی ہیں۔ وہ اس طرح کہ یہ لوگ ان روایات کو جو قرآن سے واضح متصادم ہیں، قرآن کے مخالف ہیں اور غیر موافق القرآن ہیں، --- یہ لوگ موضوع قرار نہیں دیتے --- بلکہ ان غیر موافق القرآن روایات کو کسی نہ کسی دوسری قسم کی وحی قرار دیتے ہیں، کہ اللہ تعالی نے اپنے قرآن کی مخالفت خود اپنی خفیہ وحی سے ہی کردی تھی۔ نعوذباللہ --- اس طرحقرآن کو باطل قرار دینے میں بہت پیش پیش ہیں۔ یہ خفیہ وحی چھپا کر رکھی گئی ورنہ خلفائے راشدین اس کو ضائع کرا دیتے ۔ اس لئے یہ 200 سال کے لگ بھگ تک منظر عام پر نہیں آئی۔
ان لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے بہت زیادہ لاپرواہی کا مظاہرہ کیا - نعوذباللہ - اور قران کے علاوہ بہت ساری وحی کی تدوین کوئی 200 سال ہو ہی نہیں پائی۔ کہ اللہ تعالی اتنا لاپرواہ تھا ---- نعوذباللہ --- کہ اس نے اپنے دین کو خطبۃ الوداع کے موقع پر ہی مکمل قرار دے دیا۔ یہ تو بہت بعد میں جا کر پتہ چلا کہ اللہ تعالی کچھ غیر موافق القرآن وحی بھول ہی گیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت بعد کے --- "انبیاء " نے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر مکمل کی ۔۔۔
ان لوگوں کا مؤقف ہے کہ --- نعوذ باللہ --- اللہ کا دین خطبۃ الوداع کے دن مکمل نہیںہوا تھا، رسول کی گواہی جھوٹی تھی -- نعوذ باللہ --- اور اتنی وحی بکھری ہونے کا اللہ تعالی کو علم نہیں تھا - لہذا بہت جلدی میں اپنے دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا۔ نعوذ باللہ -- یہ لوگ قرآن کو حق و باطل کے لئے الفرقان بھی تسلیم نہیں کرتے اور اس طرح کم از کم قرآن کی 3 عدد آیات کے اس طرح انکاری ہیں کہ صاف چھپتے بھی نہیں - سامنے آتے بھی نہیں ۔
خدارا یہ نہیں کہئیے گا کہ ایسے لوگوں کا وجود نہیں ہے۔ کہ
محفل پر بھی چند لوگ اس قسم کے پائے جاتے ہیں - اشارہ آپ کی طرف نہیں ہے --- ان لوگوں کے نزدیک انسانوں کی گواہی، اللہ کی کتاب سے بھی بڑھ کر ہے۔ نعوذباللہ ۔ اللہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور ہم سب کو قرآن اور سنت کی مدد سے ہدایت عطا فرمائے۔
منکرینِ حدیث کے سب سے پہلے گروہ یعنی "خوارج" پر امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے جو تبصرہ کیا ہے ، وہ واقعی ہر دور کے منکرینِ حدیث پر سو فیصد صادق آ سکتا ہے !!
امام ابن حزم ، خوارج کے بارے میں اپنی کتاب "الفصل فی الملل و النحل" میں فرماتے ہیں :
[arabic]كانوا أعراباً قرؤا القرآن قبل أن يتفقهوا في السنن[/arabic]
یہ دیہاتی لوگ تھے جنہوں نے قرآن تو پڑھا مگر سنت میں تفقہ حاصل نہ کیا !!
اس کے معانی یہ ہوئے کہ سنت کو یہ دیہاتی کبھی سمجھے ہی نہیں ---- کہ صاحب القرآن کی کوئی سنت صحیح ، خلاف قرآن ہوہی نہیں سکتی اور اگر غیر موافق القرآن ہے تو سنت ہی نہیں ہے
والسلام
آپ کے جواب میں جو سوالات ہیں وہ تشنہ ہیں اور ان سوالات کو کھل کر بیان فرما دیں تو جواب دینے میں آسانی ہو گی۔ شکریہ۔
//////////////////////////////////
از فاروق صاحب:
ان لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالی نے بہت زیادہ لاپرواہی کا مظاہرہ کیا - نعوذباللہ - اور قران کے علاوہ بہت ساری وحی کی تدوین کوئی 200 سال ہو ہی نہیں پائی۔ کہ اللہ تعالی اتنا لاپرواہ تھا ---- نعوذباللہ ---
حجت الوداع کو اللہ نے اتمام نعمت اور دین مکمل ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اگرچہ کہ اسکے بعد رسول ص کی وفات تک قران کی وحی نازل ہونے اور خود رسول ص کے احکامات جاری کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
بہرحال رسول ص کی وفات پر وحی کا سلسلہ مکمل ہو چکا ہے [دونوں قران اور رسول ص کے اقوال، اعمال اور تقریر کی صورت میں]
مگر جب آپ الزام لگاتے ہیں کہ 200 سال تک صرف قران تھا اور حدیث نہ تھی، تو یہ بالکل غلط الزام ہے۔ قران کی طرح حدیث پہلے دن سے موجود تھی اور کسی چیز کا کتابی شکل میں تدوین نہ ہونا اسکے موجود نہ ہونے کی دلیل نہیں۔
تو یاد رکھئیے حدیث ان 200 سالوں میں مکمل طور پر موجود تھی اور کتابی شکل میں تدوین یہ ہونا اسکے غیر اللہ کی طرف سے ہونے کی نشانی نہیں۔ اس طرح تو قران بھی رسول ص کی وفات پر کتابی شکل میں مدون نہ تھا بلکہ بعد میں کیا گیا۔
//////////////////////////
احادیث میں اختلاف کیوں؟ [سمجھنے کی بہت بنیادی بات]
اللہ تعالی نے انسان کو کیوں پیدا کیا؟ اور پھر پیدا کر ہی دیا تھا تو شیطان کو کیوں بہکانے کا اختیار دیا؟ ۔۔۔۔۔۔ ایسے تمام سوالات کا جواب اللہ کی وہ سنت ہے کہ جس کے مطابق اللہ انسان کو ہمیشہ "ایک امتحان" میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے۔
اور اللہ قران میں ایک اور وعدہ کرتا ہے کہ اسکی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
غیر مسلم مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیا اللہ اس بات پر قادر نہ تھا [نعوذ باللہ] کہ وہ قران کی طرح پہلے دن ہی ایک صحیفہ نازل کر دیتا اور اسکی حفاظت قران کی طرح ہی کرتا؟ مثلا اگر اللہ نے توریت و انجیل کی بھی قران کی طرح حفاظت کی ہوتی اور ان کتابوں میں محمد ص کا ذکر بالکل صحیح نام، تاریخ پیدائش، قبیلے وغیرہ کے ساتھ محفوظ ہوتا تو لاکھوں یہود و نصاری ان نشانیوں کے موجود ہونے پر آسانی سے ایمان لے آتے۔ مگر چونکہ یہ نشانیاں توریت و انجیل میں موجود نہیں اس لیے لاکھوں یہود و نصاری گمراہ ہو گئے۔
تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ انکا یہ اعتراض بالکل درست ہے کہ اگر توریت و انجیل میں موجود ان نشانیوں کی اللہ قران کی طرح حفاظت کر لیتا تو لاکھوں اہل کتاب گمراہ ہونے کی بجائے راہ ہدایت پا جاتے؟
مگر اللہ نے ان نشانیوں کی حفاظت نہ کی۔ تو وجہ کیا تھی؟ جی ہاں وجہ
اللہ کی وہ سنت تھی کہ جس کی بنا پر اللہ انسان کو ہمیشہ امتحان میں متبلا دیکھنا چاہتا ہے۔ [اور اللہ قران میں فرماتا ہے کہ تم اللہ کی سنت میں کبھی تبدیلی نہ پاو گے]
اسی طرح اللہ چاہتا تو نماز کا طریقہ، اور ہر ہر سنت رسول کو بھی قران میں داخل کر دیتا اور اسکی قران کی طرح ہی حفاظت کرتا۔ مگر چونکہ اللہ کی سنت ہے کہ انسان کو امتحان میں مبتلا رکھنا ہے، اس لیے حدیث رسول کی تاریخی طور پر وہی حیثیت ہوئی جو انجیل و زبور کی ہوئی اور اس میں سچ کے ساتھ لوگ جھوٹ شامل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔
لیکن ٹہریئے، حدیث رسول سے قبل توریت و انجیل میں بھی تو تحریف ہوئی، تو کیا عیسی و موسی علیھم السلام کے سچے ساتھیوں کو توریت و انجیل کو مکمل طور پر ٹھکرا دینا چاہیے تھا؟ نہیں، بلکہ انکا امتحان یہ پایا کہ وہ اس کتب سے سچ کو جھوٹ سے تمیز کر کے اصل ہدایت پائیں۔
/////////////////////////////
موضوع بہت لمبا ہو گیا ہے اور فاروق صاحب ہمارے اصل ٹاپک سے موضوع کو یہ سوالات کر کے دوسری طرف لے گئے ہیں۔
چنانچہ مختصرا عرض کرتی ہوں کہ:
1۔ حدیث ماننے والے تقریبا تمام فرقوں کا یہ ماننا ہے کہ: " جو روایت بھی قران کے موافق نہیں، وہ قابل قبول نہیں"۔
2۔ خلفائے راشدین کی ابتدا میں حدیث پر پابندی کے متعلق دیگر برادران یہاں پر آپ کو مجھ سے زیادہ اچھا جواب دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اگر آپ اسکی بنیاد پر یہ دعوی کر رہے ہیں کہ خلفائے راشدین [معاذ اللہ] بھی "منکرین حدیث" تھے تو یہ انتہائی غلط دعوی ہے۔
اپنی ذاتی رائے سے قران کی کتابی تدوین تک قران و حدیث کے خلط ملط ہو جانے کے اندیشے سے عارضی طور پر کیے جانے والے کسی انتظام کی بنیاد پر ایسا دعوی کرنا بالکل غلط ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو پہلے دو خلفاء راشدین کے بعد تیسرے اور چوتھے خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کبھی ایک حدیث روایت نہ کرتے۔ مگر آپکے "منکر حدیث" کے دعوے کے برعکس تواتر سے یہ ثابت ہے کہ بقیہ تمام صحابہ تا حیات کھل کر حدیث رسول بیان کرتے رہے اور اس پر عمل کرتے رہے۔
3۔ اللہ کے متعلق کچھ بھول جانے کا عقیدہ کسی کا بھی نہیں۔
4۔ اگر کچھ گھڑی ہوئی روایات قران کے مخالف ہیں تو آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان سے کہیں زیادہ تعداد میں اور کہیں زیادہ مضبوط روایات خود انکا رد کر رہی ہوتی ہیں اور قران کے موافق ہیں۔
5۔ اور سب سے آخر میں۔۔۔ آپ نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ کچھ طبقات ایسے ہیں جو حدیث کو تو مانتے ہیں لیکن قران میں تحریف کے قائل ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے گمراہ ہونا کیا اس بات کے لیے کافی ہے کہ صحیح حدیث کا انکار کر دیا جائے اور منکرین حدیث والے اختلافات کے گڑھے میں چھلانگ لگا دی جائے؟ ان لوگوں نے حدیث کو صحیح طرح نہ سمجھا اور صحیح کو غلط سے تمیز نہ کر سکے اور یہ اللہ کی طرف سے امتحان میں مبتلا ہیں۔
آخر میں، آپ کھل کر اپنے اعتراضات کیجئے۔ اور جن 3 آیات کی طرف آپ نے اشارہ کیا وہ بھی اپنے مکمل موقف کے ساتھ بیان فرمائیے۔