طالوت
محفلین
تاریخ اسلام کا جائزہ قران کی روشنی میں از حافظ اسلام جیراج پوری
کلمہ حق
مورخوں کا بیان ہے کہ جب حضرت علی نے ان کے نعرہ "لا حکم الا اللہ" کو سنا تو فرمایا "کلمتہ حق ارید بہا الباطل " یعنی بات تو سچی ہے لیکن اس کا جو مطلب لیا گیا ہے وہ باطل ہے یہ سمجھتے ہیں کہ سوائے اللہ کے کوئی امیر نہیں حالانکہ انسانوں پر کسی کا امیر ہونا لازم ہےجو نظام کو قائم رکھے۔
میرے(اسلم جیراج پوری) نزدیک اس قول کی نسبت حضرت علی سے صحیح نہیں ہے کیونکہ خوارج خود ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے۔ اس لیے وہ جانتے تھے کہ یہ انسان کی امارت کے منکر نہیں ہیں بشرطیکہ اس کی امارت قران کے مطابق ہو۔ لہذا ان کے کلمہ کی تاویل جو بداہتاً غلط تھی حضرت علی کر ہی نہیں سکتے تھے۔ اصلیت یہ ہے کہ خوارج کی جماعت کل امت کے خلاف تھی اس لیے مخالف فرقوں نے ان کو بدنام کرنے کے لیے جہاں جہاں موقع پایا جھوٹی روایتیں گھڑیں۔ ان کا سب سے بڑا حریف مہلب بن ابی صفرہ تھا وہ تلوار سے بھی لڑتا تھا اور ان کی مذمت میں جھوٹی حدیثیں بھی گھڑتا تھا۔ اس کے کذب کی شہرت اس قدر تھی کہ بنی ازد کے لوگ جب اسے دیکھتے تو کہتے "تو بہادر ، بڑا بہادر جو تیری باتیں بھی سچی ہوتیں"
علاوہ بریں خود حضرت علی نے اپنے آخری ایام میں وصیت فرمائی:
"لا تقاتلو الخوارج بعدی فلیس من طلب الحق فاخطالا کمن طلب الباطل فادرکہ"
یعنی میرے بعد خوارج سے جنگ نہ کرنا کیونکہ جو حق کا طالب ہو گا ۔ اس کو حاصل نہ کر سکے اس سے بہتر ہے جو باطل کا طلبگار ہو اور اس کو حاصل کر لے۔ اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ حضرت علی خوارج کو حق کا طالب سمجھتے تھے اور شامیوں کو باطل پرست۔
خوارج کے فرقے
اس جماعت کی ابتدائی مخالفت مسئلہ خلافت تک ہی محدود تھی مگر بعد میں بعض دیگر مسائل کا اضافہ ہوا جن میں جزوی اختلاف کے باعث اس کے بیس فرقے ہو گئے۔ سب سے بڑا فرقہ نافع بن ارزق کا تھا جو اس نام کی نسبت سے ازراقہ مشہور ہوا یہ لوگ شرعی اعمال نماز روزہ صدق اور عدل وغیرہ کو بھی ایمان کا جزو قرار دیتے تھے ان کے نزدیک کوئی شخص اللہ اور رسول کو دل سے مان کر اور زبان سے اقرار کر لینے پر بھی کافر ہے اگر ان کےاحکام پر عمل نہ کرے گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر مطلق سمجھتے تھے نیز اپنے سوا تمام مسلمانوں کو جو انسانی حکومت پر راضی ہو گئے تھےکافر قرار دیتے تھے جن کے ساتھ نہ مناکحت جائز تھی نہ ان کے ہاتھ کا ذبیح حلال ۔ ظالم سلاطین کے مقابلے میں قوت کا اندازہ کیے بغیر تلوار لے کر اٹھ جانا فرض سمجھتے تھے جو کوئی باوجود قدرت کے ایسا نہ کرے خواہ انھی کی جماعت کا کیوں نہ ہو کافر سمجھتے تھے۔
دوسرا گروہ نجدہ بن عامر کا تھا یہ جہالت کو عذر قرار دیتا تھا اور اجتہاد میں کسی سے غلطی ہو جائے اس کو معذور سمجھتا تھا ان امور میں نافع کے ساتھ اس کے مناظرے بھی ہوئے۔
تیسری جماعت اباضیہ تھی جو عبداللہ بن اباض تمیمی کی پیرو تھی یہ لوگ ازراقہ کے مقابلے میں بہت نرم تھے دعوت و اتمام حجت کے بغیر مخالفوں پر اچانک حملہ جائز نہیں سمجھتے تھے نہ دیگر مسلمانوں کو مرب جاہلیت کے بت پرستوں کی طرح قرار دیتے تھے۔ غالباً اسی صلح پسندی کی وجہ سے ان کے نام لیوا آج بھی شمالی افریقہ ، سواحل عمان ، حضر موت اور زنجبار میں پائے جاتے ہیں۔ اس نرمی کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابن اباض عباسی عہد میں پیدا ہوا تھا جب کہ خوارج کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور مذبوجی حرکت باقی رہ گئی تھی۔ عبداللہ بن صفا رئیس خوارج کے پیرو جو صفریہ کہلاتے تھے۔ ان لوگوں کو بھی برا نہیں سمجھتے تھے جو فتنہ سے الگ ہو کر بیٹھ جائیں۔ چناچہ یہ ساری جماعت خانہ نشین ہو کر امت میں جذب ہو گئی ۔
خوارج کی صفات
خوارج عقائد و فرائض دونوں میں متشدد تھے اور عبادت میں سخت انہماک رکھتے تھے ۔ شہرستانی نے ان کی جماعت کے متعلق لکھا ہے کہ اہل صوم و صلوۃ ہیں شب بیداری ان میں عام تھی۔ زیادہ نے ایک خارجی کو قتل کیا پھر اس کے غلام سے اس کی کیفیت پوچھی۔ اس نے کہا کہ میں نے اس کے لیے نہ کبھی رات میں بستر بچھایا نہ کبھی دن میں کھانا لگایا۔ یعنی وہ "قائم اللیل اور صائم النہار" تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس کو جب حجرت علی نے خوارج کے ساتھ مناظرے کے لیے بھیجا تو وہ ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے داغ اور ان چہروں پر عبادت کا نور دیکھ کر بہت متاثر ہو گئے تھے۔جھوٹ کو ان کا ہر فرقہ زنا و شراب سے بھی بد تر جانتا تھا۔ اور تقیہ بحز اس خاص صورت کے جس میں قران نے اس کو مباح کیا ہے حرام سمجھتا تھا۔ بغدادی نے اپنی کتاب "اصول الدین" میں لکھا ہے کہ "خوارج کے ایمان و عمل کی بنیاد خالص قران پر تھی۔ روایات کو دین نہیں مانتے تھے۔ " ان کے نزدیک مخالفوں سے جہاد کرنا نجات کا بہترین ذریعہ اور دین کا اہم فریضہ تھا جس میں ان کی عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ وہ غیر قرانی حکومت کو مٹانا لازم سمجھتے تھے اور اس میں جانی و مالی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے ۔ دشمن کے مقابلے میں سے روگردانی ان کے نزدیک کفر تھی۔ لہو ولعب کو کسی حالت میں جائز نہیں رکھتے تھے اور نہ تمسخرہ و مذاق کو۔ یہاں تک کہ ان کے اشعار اور غزلوں میں بھی وہی دینی حمیت اور جہاد کے حماسی جذبات ہیں جن میں وہ پرورش پاتے تھے۔ ان کی نگاہوں میں صرف تقوٰی تھا اور دین اور انھیں کی مدافعت میں سربکف رہتے تھے۔ ان لوگوں کو انسانیت سے گرا ہوا سمجھتے تھے جنہوں نے دنیاوی مال و جاہ کے لیے اپنی حریت ضمیر کو نام نہاد خلفاء کے ہاتھوں فروخت کر رکھا تھا اور انسانی حکومت پر راضی ہو گئے تھے۔ خلفاء اور امراء کے درباروں میں بھی دعوت و تبلیغ کے لیے برابر اپنے وفود بھیجتے تھے۔ اور ان کی دولت و حشمت سے ذرا بھی متاثر نہ تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان کی گفتگو سن کر فرمایا "میں جانتا ہوں کہ تم دنیا یا دولت کی طلب کے لیے نہیں نکلے ہو ۔ تمھارا مقصود آخرت ہے مگر تم نے غلط راستہ اختیار کیا ہے"
ان کی ساری تاریخ شجاعت سے مزین ہے اور ان کے جنگی کارنامے بے نظیر ہیں۔ شبیب خارجی ایک ہزار آدمیوں سے کوفہ کی پچاس ہزار فوج کو شکست دے کر شہر میں داخل ہو گیا تھا۔ ابن زیادہ نے ابو بلال خارجی کے مقابلے کے لیے ابن زرعہ کو دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ بھیجا تھا مقام آسک پر جنگ ہوئی جس میں صرف چالیس خارجیوں نے ان دو ہزار کو مار بھگایا۔ اس پر ایک خارجی شاعر نے کہا "تمھارے گمان کے مطابق وہ دو ہزار مومن تھے جن کو آسک میں چالیس آدمیوں نے شکست دے دی دراصل تمھارا گمان ہی غلط ہے خوارج ہی مومن ہیں"
اس واقعہ کے بعد ابن زرعہ جب کوفہ کے بازاروں یا سڑکوں پر نکلتا تو بچے اس کا مذاق اڑانے کے لیے اس پر آوازے کستے "اہ تمھارے پیچھے ابو بلال آ رہا ہے"
خوارج کے دلوں میں خلوص تھا اور زبانوں میں صداقت اسی وجہ سے ان کی باتیں صاف ، بے لاگ اور پر اثر ہوتی تھیں۔ اور ان کے فقرے دلوں تک نفوذ کر جاتے تھے۔ ابن زیاد نے ان سے قید خانے بھر رکھے تھےاور کسی کو چھوڑتا نہ تھا ۔ کہتا تھا ان کے خطبے ان آتشیں شعلوں کی مانند ہیں جو نیستان میں آگ لگا دیتے ہیں۔ عبدالملک بن مروان کے سامنے ایک خارجی لایا گیا گفتگو سے معلوم ہوا کہ اس میں عقل و فہم ہے۔ سمجھانے لگا کہ خروج سے باز آ جاؤ۔ خارجی نے اپنے عقائد و خیالات اس فصاحت و خوبی سے بیان کیے کہ عبدالملک نے کہا کہ میں یہ خیال کرنے لگا کہ جنت انھی لوگوں کے لیے بنائی گئی ہے اور جو یہ جہاد کرتے ہیں خود ہمارا فریضہ ہے۔
ابو حمزہ خارجی نے اپنی جماعت کے وصف میں لکھا ہے "وہ جوانی میں بزرگانہ صفات رکھتے ہیں برائی کی طرف سے ان کی آنکھیں بند ہیں باطل کی سمت قدم نہیں اٹھتے عبادت گزار اور شب زندہ دار راتوں کی تاریکی میں اللہ ان کو دیکھتا ہے کہ سر نیچا کیے ہوئے اس کے کلام کی تلاوت کر رہے ہیں جنت کا بیان آتا ہے تو شوق سے رو پڑتے ہیں اور جہنم کے ذکر پر خوف سے کانپنے لگتے ہیں گویا اس کو دیکھ رہے ہیں سجدوں کی کثرت سے ان کے گھٹنوں ، ناکوں اور پیشانیوں میں گھڑے پڑ گئے ہیں ، پھر جب کمانیں کھنچتی ہیں نیزے نکلتے ہیں تلواریں چمکتی ہیں اور میدان جنگ میں سپاہیوں کے نعروں سے موت کی آوازیں آنے لگتی ہیں اس وقت بلا خطر آگے بڑھتے ہیں مارتے ہیں اور مرتے ہیں گھوڑوں سے گرتے ہیں خون میں لتھڑے ہوئے درندے ان کی کلائیاں چباتے ہیں جن پر ٹیکے لگا کر مدتوں وہ اپنے رب کو سجدہ کرتے رہے اور پرندے ان کی وہ آنکھیں نکالتے ہیں جو شب بائے دراز کی تاریکیوں میں اللہ کے خوف سے آنسو بہایا کرتی تھیں"
جماعت خوارج
خوارج جو دعوٰی لے کر کھڑے ہوئے تھے یعنی "لا حکم الاللہ" وہ قران کی کھلی ہوئی تعلیم ہے اور جس زمانے میں ان کا ظہور ہوا اس زمانہ میں صحابہ اچھی تعداد میں مدینہ میں موجود تھے۔ مگر بحز حضرت انس بن مالک کے جو مدینہ میں رسول اللہ کے خادم تھے اور بصرہ آباد ہونے کے بعد اس میں سکونت اختیار کر لی تھی اور کسی صحابی کا نام ان کی جماعت میں نہیں ملتا۔ میرے خیال میں اس کے حسب ذیل وجوہ ہو سکتے ہیں
1.ان کا خروج سب سے پہلے حضرت علی کے مقابلے پر ہوا جن کے عالیشان رتبے سے سب واقف تھے ۔ ان کو چھوڑ کر خوارج کا ساتھ کیسے دیتے۔
2. صحابہ جماعت کا ساتھ چھوڑنا جائز بھی نہیں سمجھتے تھے ۔ چناچہ جب یزید کی بیعت ہوئی اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ ابن عباس نے جو باوجود اس کے کہ پہلے سے اس کے خلاف تھے بیعت کر لی اور جماعت سے الگ ہونا گوارہ نہ کیا۔
3. خوارج میں انھوں نے بدویت قسادت اور کوتاہ نظری دیکھی اسلیے ان کے ساتھ شامل ہونا پسند نہ کیا۔
4. خوارج فنا ہو گئے اور ان کی تاریخ مکمل نہ ہو سکی۔ ادباء میں سے مبرد نے "الکامل" میں اور ابن ابی الحدید شیعی نے "شرح نہج البلاغہ" میں اگر ان کے کچھ حالات نہ لکھ دئیے ہوتے تو ہم تک سرف ان کا نام ہی پہنچتا اسلیے خوارج کی جماعت کے متعلق ہمارا علم بھی محدود ہے۔ شروع میں اس جماعت میں زیادہ تر وہ عرب شریک ہوئے جو کوفہ و بصرہ کی چھاؤنیوں میں موجود تھے۔ ان میں بھی بنی تمیم کی تعداد زیادہ تھی جو سخت جنگجو تھے اور جن پر سادگی اور بدویت غالب تھی بعد میں اور لوگ بھی شامل ہوتے گئے خاص کر "موالی" (عجمی نو مسلم) جو بنی امیہ کے مظالم سے تنگ تھے۔ انھوں نے خوارج میں آغاز اسلام کی سادگی اخوت و مساوات اور جمہوریت دیکھی اور اس وجہ سے ساتھ دیا۔
تابعین میں عکرمہ مولٰی ابن عباس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ خوارج کے ہم خیال تھے ۔ حسن بصری بھی تحکیم کے معاملے میں خوارج کی رائے کو صحیح مانتے تھے۔وہ جب مسجد میں بیٹھتے اور حضرت علی کا ذکر کرتے تو افسوس سے کہتے:"فتح و ظفر برابر امیر المومنین کا ساتھ دے رہی تھی یہاں تک کہ انھوں نے ثالث مان لیا۔ ثالث کیوں مانا تم تو حق پر تھے۔ آگے کیوں نہ بڑھے حق تو تمھارے ساتھ تھا"
عہد عباسی میں بھی بعض نامور علماء بھی ان کے ہم خیال ملتے ہیں ابن خلکان نے ابو عبیدہ بن مثنٰی کے متعلق لکھا ہے کہ خارجیوں کے موافق تھے ایسی ہی روایتیں ابو حاتم سبحستانی اور ہثیم بن عدی کے بارے میں ہیں لیکن یہ لوگ صرف نظری حیثیت سے ان کی بعض باتوں صحیح سمجھتے تھے عملی طور پر کبھی ان میں شریک نہیں ہوتے تھے بلکہ خلفاء و امراء کی تابعداری کرتے رہے عقائد نگاروں نے بیشتر انھیں لوگوں کے خیالات کو خارجیوں کی طرف سے منسوب کیا ہے محض اس وجہ سے کہ وہ اس نام سے مشہور ہو گئے تھے حالانکہ خوارج کی نظر میں یہ سب کافر تھے۔
تباہی کے اسباب
خوارج کی تاریخ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ نہیں لکھی گئی۔ جو کچھ ان کے بارے میں ملتا ہے علاوہ اس کے کہ بہت تھوڑا ہےغیروں کی زبان سے ہے اور یکطرفہ ہےاس لیے ان کی تباہی کے صحیح اسباب کا پتا لگانا مشکل ہے میرے قیاس کے مطابق حسب ذیل وجوہ ہیں:
1. خوارج اپنے عقیدے اور عمل میں نہایت متشدد تھے ذرا ذرا سی بات پر ان میں مخالفت ہو جاتی اور اپنے اپنے جھنڈے کھڑے کر کے آپس میں لڑنے لگتے ۔ 75 ہجری میں جبکہ ازراقہ کے مقابلے میں مہلب پوری طاقت سے سابور میں جما ہوا تھا ۔ خوارج میں سے ایک نامی شہسوار مقعطر نے کسی جھگڑے کی بنیاد پر اپنی ہی جماعت کے ایک آدمی کو مار ڈالا۔ مقتول کے ورثا اپنے امیر قطری کے پاس گئےاور کہا قاتل کو قصاص کے لیے ہمارے حوالے کر دو۔اس نے انکار کیا اور کہا مقعطر فاضل اور دیندار شخص ہے اس نے شرعی تاویل کی بنا پر قتل کیا ہے اگر اس کا جرم ثابت ہو سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ اس نے تاویل میں غلطی کی ہو ایسی حالت میں ، میں قصاص کو لازم نہیں سمجھتا۔ اس مسئلہ کو مدعیوں نے نہیں مانااور قطری کی بیعت کو فسخ کر کے عبد ربہ الکبیر کو اپنا امیر بنا لیا بہت سے لوگ ان کے ساتھ ہو گئے دونوں جماعتوں میں لڑائی ہونے لگیجو تقریباً ایک مہینہ تک جاری رہی آخر میں قطری شکست کھا کر اپنے ساتھیوں کو لیے ہوئے طبرستان کی طرف چلا گیا۔ مہلب نے جو سالہاسال کی کوشش کے باوجود ان کو شکست دینے میں ناکام رہا اب موقع پا کر پہلے عبد ربہ کی جماعت کو قتل کر دیا ۔ پھر قطری کے پیچھے فوجیں بھیجیں۔ جنھوں نے ان کا اور ان کے ساتھیوں کا خاتمہ کر ڈالا۔ایک آدمی کے خون کے جھگڑے میں یہ پوری جماعت جو عظیم الشان طاقت تھی بالکل تباہ ہو گئی۔ اس سے پہلے نجدہ بن عامر بعض معمولی اختلاف پر ان سے الگ ہو کر یمامہ اور حضر موت کی طرف چلی گئی تھی اسلیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کو قیادت اچھی نہ ملی یا یہ کہ غیر معمولی دینی حمیت اور جوش تہور کے باعث افراد میں اطاعت کامل نہ تھی ورنہ اگر اس جماعت نے مل کر ہم آہنگی سے کام کیا ہوتا تو بنی امیہ کی خلافت کا قائم رہنا مشکل تھا۔
2. ان کی طبعیتوں میں بدویت اور قسادت اس قدر تھی کہ مخالفوں کے بوڑھوں بچوں اور عورتوں کے قتل کو بھی جائز رکھتے تھےاور ان کو مرب جاہلیت کے بت پرستوں کے برابر قرار دیتے تھے جن کے ساتھ کسی قسم کا تعلق حرام تھا جب تک اسلام نہ لائیں۔ جو غیر کارجی ان کو مل جاتا اس کو جان سے مار دیتے ایک بار واصل بن عطاء معتزلہ کا مشہور امام اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ان کے ہاتھ میں پڑ گیا جان بچنے کی کوئی صورت نہ تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ ان کا عمل ظاہر نصوص پر ہے جس سے بال برابر بھی ہٹنا کفر سمجھتے ہیں اس وجہ سے اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میں سے کوئی ایک حرف نہ بولے جو کچھ وہ والات کریں گے ان کے جوابات میں ہی دوں گا ۔ جب خارجیوں نے کہا تم کون لوگ ہو ؟ اس نے کہا کہ ہم مشرک ہیں آپ کے پاس پناہ لینے آئے ہیں کہ قران سنیں انھوں نے قرانی آیات سنائیں اس نے کہا اب ہم کو ہمارے گھر بھی پہنچا دیجیے کیونکہ قران میں ہے کہ
"اگر کوئی مشرک تیرے پاس پناہ لینے آئے تو اسے پناہ دے تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اس کو اس کے ٹھکانے پر پہنچا دے" (9/6)
انھوں نے آدمی ساتھ کر دئیے جنھوں نے انھیں آبادی تک پہنچا دیا۔
ان کے عدم تفقہ کی بابت مورخین لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک کسی یتیم کا یاک پیسہ بھی ناجائز طریقے سے کھا لے تو جہنمی ہے کیونکہ یہ قران میں ہے لیکن اگر اس کو مار ڈالے یا اس کا پیٹ چاک کر ڈالے تو جہنمی نہیں اسلیے کہ کوئی آیت اس کی تصریح نہیں کرتی اسی طرح کسی مشرک کے ایک درخت کا پھل بھی بلا قیمت کھانا حرام ہے مگر اس کو قتل کر دینا حلال۔
3. انھوں نے اپنے سوا تمام امت کو کافر اور مشرک اور سارے اسلامی خطوں کو دارلحرب قرار دیا۔ اور س کے مقابلے میں جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے۔ دین و دنیا کی اصلاح کا مدار صرف تلوار پر رکھا اور اسی سے سارے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کیاس لیے ان کی تھریک تعمیری سے زیادہ تخریبی تھی جو کمتر کامیاب ہوا کرتی ہے ۔ امت پوری قوت سے ان کو مٹانے پر آمادہ ہو گئی اور بالآخر کم و بیش دیڑھ سو سال تک لڑتے بھڑتے اور اسلام کی قوت کو کمزور کرتے ہوئے فنا ہو گئے۔ اور افسوس یہ ہے کہ ان تمام خونریزیوں سے حکومت الہٰی کا عنوان جس کے لیے وہ اٹھے تھے ذرا سا بھی رنگین نہ ہو سکا بلکہ نگاہوں سے اور بھی اوجھل ہو گیا یہاں تک کہ ساری امت کے دل و دماغ پر استبداد ایک حقیقت مسلمہ بن کر چھا گیا۔
وسلام
خوارج
اس جماعت کی پیدائش کا بنیادی نقطہ "لا حکم الا اللہ" ہے ۔ یعنی کسی کی حکومت نہیں سوائے اللہ کے۔ صفین کے میدان میں ثالثی نامے کی مخالفت ہونے لگی اس وقت کسی نے یہی نعرہ لگا دیا جو بجلی کی سرعت سے پھیل گیا کیونکہ اس میں ان کے مافی الضمیر کی پوری ترجمانی تھی۔ چناچہ یہی کلمہ ان کا شعار ہو گیا۔ وہ جب کوئی مجمع کرتے یا ان کے جلسوں میں کوئی تقریر ہوتی تو آخر میں یہی نعرہ لگاتے اس لیے یہ فرقہ خالص سیاسی ہے۔ عام مسلمانوں سے اس کا اختلاف صرف خلافت کے چند مسائل میں ہےان کے نزدیک صحت خلافت کی شرط جمہور مسلمانوں کا انتخاب ہے قریشیت کی کوئی قید نہیں۔ حبشی غلام بھی اگر منتخب ہو جائے تو اس اطاعت واجب ہے۔ حضرت ابوبکر و عمر کے انتخاب کو جمہوری اور ان کی خلافتوں کو صحیح سمجھتے تھے نیز حضرت عثمان کی خلافت کو بھی ابتدائی چھ سال تک مگر جب سے وہ بنی امیہ کی رائے میں آ گئے اور شیخین کے طریقے پر نہیں رہے ان کا عزل واجب تھا۔ حضرت علی کی خلافت کو بھی صحیح مانتے تھے مگر جب ثالثی نامہ لکھا اس وقت ان کی رائے میں کافر ہو گئے۔ اصحاب جمل حضرت طلحہ و زبیر وغیرہ کو اس بنا پر کہ خلیفہ برحق حجرت علی سے لڑے نیز ابو موسٰی اشعری اور عمروبن العاص کو بھی کافر قرار دیتے تھے۔ غرض ان کا سارا اختلاف "حکومت الٰہی" کے محور پر گھومتا تھا۔ اور اسی نقطہ پر وہ تمام امت سے الگ ہو گئے تھے۔کلمہ حق
مورخوں کا بیان ہے کہ جب حضرت علی نے ان کے نعرہ "لا حکم الا اللہ" کو سنا تو فرمایا "کلمتہ حق ارید بہا الباطل " یعنی بات تو سچی ہے لیکن اس کا جو مطلب لیا گیا ہے وہ باطل ہے یہ سمجھتے ہیں کہ سوائے اللہ کے کوئی امیر نہیں حالانکہ انسانوں پر کسی کا امیر ہونا لازم ہےجو نظام کو قائم رکھے۔
میرے(اسلم جیراج پوری) نزدیک اس قول کی نسبت حضرت علی سے صحیح نہیں ہے کیونکہ خوارج خود ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے۔ اس لیے وہ جانتے تھے کہ یہ انسان کی امارت کے منکر نہیں ہیں بشرطیکہ اس کی امارت قران کے مطابق ہو۔ لہذا ان کے کلمہ کی تاویل جو بداہتاً غلط تھی حضرت علی کر ہی نہیں سکتے تھے۔ اصلیت یہ ہے کہ خوارج کی جماعت کل امت کے خلاف تھی اس لیے مخالف فرقوں نے ان کو بدنام کرنے کے لیے جہاں جہاں موقع پایا جھوٹی روایتیں گھڑیں۔ ان کا سب سے بڑا حریف مہلب بن ابی صفرہ تھا وہ تلوار سے بھی لڑتا تھا اور ان کی مذمت میں جھوٹی حدیثیں بھی گھڑتا تھا۔ اس کے کذب کی شہرت اس قدر تھی کہ بنی ازد کے لوگ جب اسے دیکھتے تو کہتے "تو بہادر ، بڑا بہادر جو تیری باتیں بھی سچی ہوتیں"
علاوہ بریں خود حضرت علی نے اپنے آخری ایام میں وصیت فرمائی:
"لا تقاتلو الخوارج بعدی فلیس من طلب الحق فاخطالا کمن طلب الباطل فادرکہ"
یعنی میرے بعد خوارج سے جنگ نہ کرنا کیونکہ جو حق کا طالب ہو گا ۔ اس کو حاصل نہ کر سکے اس سے بہتر ہے جو باطل کا طلبگار ہو اور اس کو حاصل کر لے۔ اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ حضرت علی خوارج کو حق کا طالب سمجھتے تھے اور شامیوں کو باطل پرست۔
خوارج کے فرقے
اس جماعت کی ابتدائی مخالفت مسئلہ خلافت تک ہی محدود تھی مگر بعد میں بعض دیگر مسائل کا اضافہ ہوا جن میں جزوی اختلاف کے باعث اس کے بیس فرقے ہو گئے۔ سب سے بڑا فرقہ نافع بن ارزق کا تھا جو اس نام کی نسبت سے ازراقہ مشہور ہوا یہ لوگ شرعی اعمال نماز روزہ صدق اور عدل وغیرہ کو بھی ایمان کا جزو قرار دیتے تھے ان کے نزدیک کوئی شخص اللہ اور رسول کو دل سے مان کر اور زبان سے اقرار کر لینے پر بھی کافر ہے اگر ان کےاحکام پر عمل نہ کرے گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر مطلق سمجھتے تھے نیز اپنے سوا تمام مسلمانوں کو جو انسانی حکومت پر راضی ہو گئے تھےکافر قرار دیتے تھے جن کے ساتھ نہ مناکحت جائز تھی نہ ان کے ہاتھ کا ذبیح حلال ۔ ظالم سلاطین کے مقابلے میں قوت کا اندازہ کیے بغیر تلوار لے کر اٹھ جانا فرض سمجھتے تھے جو کوئی باوجود قدرت کے ایسا نہ کرے خواہ انھی کی جماعت کا کیوں نہ ہو کافر سمجھتے تھے۔
دوسرا گروہ نجدہ بن عامر کا تھا یہ جہالت کو عذر قرار دیتا تھا اور اجتہاد میں کسی سے غلطی ہو جائے اس کو معذور سمجھتا تھا ان امور میں نافع کے ساتھ اس کے مناظرے بھی ہوئے۔
تیسری جماعت اباضیہ تھی جو عبداللہ بن اباض تمیمی کی پیرو تھی یہ لوگ ازراقہ کے مقابلے میں بہت نرم تھے دعوت و اتمام حجت کے بغیر مخالفوں پر اچانک حملہ جائز نہیں سمجھتے تھے نہ دیگر مسلمانوں کو مرب جاہلیت کے بت پرستوں کی طرح قرار دیتے تھے۔ غالباً اسی صلح پسندی کی وجہ سے ان کے نام لیوا آج بھی شمالی افریقہ ، سواحل عمان ، حضر موت اور زنجبار میں پائے جاتے ہیں۔ اس نرمی کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابن اباض عباسی عہد میں پیدا ہوا تھا جب کہ خوارج کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور مذبوجی حرکت باقی رہ گئی تھی۔ عبداللہ بن صفا رئیس خوارج کے پیرو جو صفریہ کہلاتے تھے۔ ان لوگوں کو بھی برا نہیں سمجھتے تھے جو فتنہ سے الگ ہو کر بیٹھ جائیں۔ چناچہ یہ ساری جماعت خانہ نشین ہو کر امت میں جذب ہو گئی ۔
خوارج کی صفات
خوارج عقائد و فرائض دونوں میں متشدد تھے اور عبادت میں سخت انہماک رکھتے تھے ۔ شہرستانی نے ان کی جماعت کے متعلق لکھا ہے کہ اہل صوم و صلوۃ ہیں شب بیداری ان میں عام تھی۔ زیادہ نے ایک خارجی کو قتل کیا پھر اس کے غلام سے اس کی کیفیت پوچھی۔ اس نے کہا کہ میں نے اس کے لیے نہ کبھی رات میں بستر بچھایا نہ کبھی دن میں کھانا لگایا۔ یعنی وہ "قائم اللیل اور صائم النہار" تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس کو جب حجرت علی نے خوارج کے ساتھ مناظرے کے لیے بھیجا تو وہ ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے داغ اور ان چہروں پر عبادت کا نور دیکھ کر بہت متاثر ہو گئے تھے۔جھوٹ کو ان کا ہر فرقہ زنا و شراب سے بھی بد تر جانتا تھا۔ اور تقیہ بحز اس خاص صورت کے جس میں قران نے اس کو مباح کیا ہے حرام سمجھتا تھا۔ بغدادی نے اپنی کتاب "اصول الدین" میں لکھا ہے کہ "خوارج کے ایمان و عمل کی بنیاد خالص قران پر تھی۔ روایات کو دین نہیں مانتے تھے۔ " ان کے نزدیک مخالفوں سے جہاد کرنا نجات کا بہترین ذریعہ اور دین کا اہم فریضہ تھا جس میں ان کی عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ وہ غیر قرانی حکومت کو مٹانا لازم سمجھتے تھے اور اس میں جانی و مالی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے ۔ دشمن کے مقابلے میں سے روگردانی ان کے نزدیک کفر تھی۔ لہو ولعب کو کسی حالت میں جائز نہیں رکھتے تھے اور نہ تمسخرہ و مذاق کو۔ یہاں تک کہ ان کے اشعار اور غزلوں میں بھی وہی دینی حمیت اور جہاد کے حماسی جذبات ہیں جن میں وہ پرورش پاتے تھے۔ ان کی نگاہوں میں صرف تقوٰی تھا اور دین اور انھیں کی مدافعت میں سربکف رہتے تھے۔ ان لوگوں کو انسانیت سے گرا ہوا سمجھتے تھے جنہوں نے دنیاوی مال و جاہ کے لیے اپنی حریت ضمیر کو نام نہاد خلفاء کے ہاتھوں فروخت کر رکھا تھا اور انسانی حکومت پر راضی ہو گئے تھے۔ خلفاء اور امراء کے درباروں میں بھی دعوت و تبلیغ کے لیے برابر اپنے وفود بھیجتے تھے۔ اور ان کی دولت و حشمت سے ذرا بھی متاثر نہ تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان کی گفتگو سن کر فرمایا "میں جانتا ہوں کہ تم دنیا یا دولت کی طلب کے لیے نہیں نکلے ہو ۔ تمھارا مقصود آخرت ہے مگر تم نے غلط راستہ اختیار کیا ہے"
ان کی ساری تاریخ شجاعت سے مزین ہے اور ان کے جنگی کارنامے بے نظیر ہیں۔ شبیب خارجی ایک ہزار آدمیوں سے کوفہ کی پچاس ہزار فوج کو شکست دے کر شہر میں داخل ہو گیا تھا۔ ابن زیادہ نے ابو بلال خارجی کے مقابلے کے لیے ابن زرعہ کو دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ بھیجا تھا مقام آسک پر جنگ ہوئی جس میں صرف چالیس خارجیوں نے ان دو ہزار کو مار بھگایا۔ اس پر ایک خارجی شاعر نے کہا "تمھارے گمان کے مطابق وہ دو ہزار مومن تھے جن کو آسک میں چالیس آدمیوں نے شکست دے دی دراصل تمھارا گمان ہی غلط ہے خوارج ہی مومن ہیں"
اس واقعہ کے بعد ابن زرعہ جب کوفہ کے بازاروں یا سڑکوں پر نکلتا تو بچے اس کا مذاق اڑانے کے لیے اس پر آوازے کستے "اہ تمھارے پیچھے ابو بلال آ رہا ہے"
خوارج کے دلوں میں خلوص تھا اور زبانوں میں صداقت اسی وجہ سے ان کی باتیں صاف ، بے لاگ اور پر اثر ہوتی تھیں۔ اور ان کے فقرے دلوں تک نفوذ کر جاتے تھے۔ ابن زیاد نے ان سے قید خانے بھر رکھے تھےاور کسی کو چھوڑتا نہ تھا ۔ کہتا تھا ان کے خطبے ان آتشیں شعلوں کی مانند ہیں جو نیستان میں آگ لگا دیتے ہیں۔ عبدالملک بن مروان کے سامنے ایک خارجی لایا گیا گفتگو سے معلوم ہوا کہ اس میں عقل و فہم ہے۔ سمجھانے لگا کہ خروج سے باز آ جاؤ۔ خارجی نے اپنے عقائد و خیالات اس فصاحت و خوبی سے بیان کیے کہ عبدالملک نے کہا کہ میں یہ خیال کرنے لگا کہ جنت انھی لوگوں کے لیے بنائی گئی ہے اور جو یہ جہاد کرتے ہیں خود ہمارا فریضہ ہے۔
ابو حمزہ خارجی نے اپنی جماعت کے وصف میں لکھا ہے "وہ جوانی میں بزرگانہ صفات رکھتے ہیں برائی کی طرف سے ان کی آنکھیں بند ہیں باطل کی سمت قدم نہیں اٹھتے عبادت گزار اور شب زندہ دار راتوں کی تاریکی میں اللہ ان کو دیکھتا ہے کہ سر نیچا کیے ہوئے اس کے کلام کی تلاوت کر رہے ہیں جنت کا بیان آتا ہے تو شوق سے رو پڑتے ہیں اور جہنم کے ذکر پر خوف سے کانپنے لگتے ہیں گویا اس کو دیکھ رہے ہیں سجدوں کی کثرت سے ان کے گھٹنوں ، ناکوں اور پیشانیوں میں گھڑے پڑ گئے ہیں ، پھر جب کمانیں کھنچتی ہیں نیزے نکلتے ہیں تلواریں چمکتی ہیں اور میدان جنگ میں سپاہیوں کے نعروں سے موت کی آوازیں آنے لگتی ہیں اس وقت بلا خطر آگے بڑھتے ہیں مارتے ہیں اور مرتے ہیں گھوڑوں سے گرتے ہیں خون میں لتھڑے ہوئے درندے ان کی کلائیاں چباتے ہیں جن پر ٹیکے لگا کر مدتوں وہ اپنے رب کو سجدہ کرتے رہے اور پرندے ان کی وہ آنکھیں نکالتے ہیں جو شب بائے دراز کی تاریکیوں میں اللہ کے خوف سے آنسو بہایا کرتی تھیں"
جماعت خوارج
خوارج جو دعوٰی لے کر کھڑے ہوئے تھے یعنی "لا حکم الاللہ" وہ قران کی کھلی ہوئی تعلیم ہے اور جس زمانے میں ان کا ظہور ہوا اس زمانہ میں صحابہ اچھی تعداد میں مدینہ میں موجود تھے۔ مگر بحز حضرت انس بن مالک کے جو مدینہ میں رسول اللہ کے خادم تھے اور بصرہ آباد ہونے کے بعد اس میں سکونت اختیار کر لی تھی اور کسی صحابی کا نام ان کی جماعت میں نہیں ملتا۔ میرے خیال میں اس کے حسب ذیل وجوہ ہو سکتے ہیں
1.ان کا خروج سب سے پہلے حضرت علی کے مقابلے پر ہوا جن کے عالیشان رتبے سے سب واقف تھے ۔ ان کو چھوڑ کر خوارج کا ساتھ کیسے دیتے۔
2. صحابہ جماعت کا ساتھ چھوڑنا جائز بھی نہیں سمجھتے تھے ۔ چناچہ جب یزید کی بیعت ہوئی اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ ابن عباس نے جو باوجود اس کے کہ پہلے سے اس کے خلاف تھے بیعت کر لی اور جماعت سے الگ ہونا گوارہ نہ کیا۔
3. خوارج میں انھوں نے بدویت قسادت اور کوتاہ نظری دیکھی اسلیے ان کے ساتھ شامل ہونا پسند نہ کیا۔
4. خوارج فنا ہو گئے اور ان کی تاریخ مکمل نہ ہو سکی۔ ادباء میں سے مبرد نے "الکامل" میں اور ابن ابی الحدید شیعی نے "شرح نہج البلاغہ" میں اگر ان کے کچھ حالات نہ لکھ دئیے ہوتے تو ہم تک سرف ان کا نام ہی پہنچتا اسلیے خوارج کی جماعت کے متعلق ہمارا علم بھی محدود ہے۔ شروع میں اس جماعت میں زیادہ تر وہ عرب شریک ہوئے جو کوفہ و بصرہ کی چھاؤنیوں میں موجود تھے۔ ان میں بھی بنی تمیم کی تعداد زیادہ تھی جو سخت جنگجو تھے اور جن پر سادگی اور بدویت غالب تھی بعد میں اور لوگ بھی شامل ہوتے گئے خاص کر "موالی" (عجمی نو مسلم) جو بنی امیہ کے مظالم سے تنگ تھے۔ انھوں نے خوارج میں آغاز اسلام کی سادگی اخوت و مساوات اور جمہوریت دیکھی اور اس وجہ سے ساتھ دیا۔
تابعین میں عکرمہ مولٰی ابن عباس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ خوارج کے ہم خیال تھے ۔ حسن بصری بھی تحکیم کے معاملے میں خوارج کی رائے کو صحیح مانتے تھے۔وہ جب مسجد میں بیٹھتے اور حضرت علی کا ذکر کرتے تو افسوس سے کہتے:"فتح و ظفر برابر امیر المومنین کا ساتھ دے رہی تھی یہاں تک کہ انھوں نے ثالث مان لیا۔ ثالث کیوں مانا تم تو حق پر تھے۔ آگے کیوں نہ بڑھے حق تو تمھارے ساتھ تھا"
عہد عباسی میں بھی بعض نامور علماء بھی ان کے ہم خیال ملتے ہیں ابن خلکان نے ابو عبیدہ بن مثنٰی کے متعلق لکھا ہے کہ خارجیوں کے موافق تھے ایسی ہی روایتیں ابو حاتم سبحستانی اور ہثیم بن عدی کے بارے میں ہیں لیکن یہ لوگ صرف نظری حیثیت سے ان کی بعض باتوں صحیح سمجھتے تھے عملی طور پر کبھی ان میں شریک نہیں ہوتے تھے بلکہ خلفاء و امراء کی تابعداری کرتے رہے عقائد نگاروں نے بیشتر انھیں لوگوں کے خیالات کو خارجیوں کی طرف سے منسوب کیا ہے محض اس وجہ سے کہ وہ اس نام سے مشہور ہو گئے تھے حالانکہ خوارج کی نظر میں یہ سب کافر تھے۔
تباہی کے اسباب
خوارج کی تاریخ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ نہیں لکھی گئی۔ جو کچھ ان کے بارے میں ملتا ہے علاوہ اس کے کہ بہت تھوڑا ہےغیروں کی زبان سے ہے اور یکطرفہ ہےاس لیے ان کی تباہی کے صحیح اسباب کا پتا لگانا مشکل ہے میرے قیاس کے مطابق حسب ذیل وجوہ ہیں:
1. خوارج اپنے عقیدے اور عمل میں نہایت متشدد تھے ذرا ذرا سی بات پر ان میں مخالفت ہو جاتی اور اپنے اپنے جھنڈے کھڑے کر کے آپس میں لڑنے لگتے ۔ 75 ہجری میں جبکہ ازراقہ کے مقابلے میں مہلب پوری طاقت سے سابور میں جما ہوا تھا ۔ خوارج میں سے ایک نامی شہسوار مقعطر نے کسی جھگڑے کی بنیاد پر اپنی ہی جماعت کے ایک آدمی کو مار ڈالا۔ مقتول کے ورثا اپنے امیر قطری کے پاس گئےاور کہا قاتل کو قصاص کے لیے ہمارے حوالے کر دو۔اس نے انکار کیا اور کہا مقعطر فاضل اور دیندار شخص ہے اس نے شرعی تاویل کی بنا پر قتل کیا ہے اگر اس کا جرم ثابت ہو سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ اس نے تاویل میں غلطی کی ہو ایسی حالت میں ، میں قصاص کو لازم نہیں سمجھتا۔ اس مسئلہ کو مدعیوں نے نہیں مانااور قطری کی بیعت کو فسخ کر کے عبد ربہ الکبیر کو اپنا امیر بنا لیا بہت سے لوگ ان کے ساتھ ہو گئے دونوں جماعتوں میں لڑائی ہونے لگیجو تقریباً ایک مہینہ تک جاری رہی آخر میں قطری شکست کھا کر اپنے ساتھیوں کو لیے ہوئے طبرستان کی طرف چلا گیا۔ مہلب نے جو سالہاسال کی کوشش کے باوجود ان کو شکست دینے میں ناکام رہا اب موقع پا کر پہلے عبد ربہ کی جماعت کو قتل کر دیا ۔ پھر قطری کے پیچھے فوجیں بھیجیں۔ جنھوں نے ان کا اور ان کے ساتھیوں کا خاتمہ کر ڈالا۔ایک آدمی کے خون کے جھگڑے میں یہ پوری جماعت جو عظیم الشان طاقت تھی بالکل تباہ ہو گئی۔ اس سے پہلے نجدہ بن عامر بعض معمولی اختلاف پر ان سے الگ ہو کر یمامہ اور حضر موت کی طرف چلی گئی تھی اسلیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کو قیادت اچھی نہ ملی یا یہ کہ غیر معمولی دینی حمیت اور جوش تہور کے باعث افراد میں اطاعت کامل نہ تھی ورنہ اگر اس جماعت نے مل کر ہم آہنگی سے کام کیا ہوتا تو بنی امیہ کی خلافت کا قائم رہنا مشکل تھا۔
2. ان کی طبعیتوں میں بدویت اور قسادت اس قدر تھی کہ مخالفوں کے بوڑھوں بچوں اور عورتوں کے قتل کو بھی جائز رکھتے تھےاور ان کو مرب جاہلیت کے بت پرستوں کے برابر قرار دیتے تھے جن کے ساتھ کسی قسم کا تعلق حرام تھا جب تک اسلام نہ لائیں۔ جو غیر کارجی ان کو مل جاتا اس کو جان سے مار دیتے ایک بار واصل بن عطاء معتزلہ کا مشہور امام اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ان کے ہاتھ میں پڑ گیا جان بچنے کی کوئی صورت نہ تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ ان کا عمل ظاہر نصوص پر ہے جس سے بال برابر بھی ہٹنا کفر سمجھتے ہیں اس وجہ سے اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میں سے کوئی ایک حرف نہ بولے جو کچھ وہ والات کریں گے ان کے جوابات میں ہی دوں گا ۔ جب خارجیوں نے کہا تم کون لوگ ہو ؟ اس نے کہا کہ ہم مشرک ہیں آپ کے پاس پناہ لینے آئے ہیں کہ قران سنیں انھوں نے قرانی آیات سنائیں اس نے کہا اب ہم کو ہمارے گھر بھی پہنچا دیجیے کیونکہ قران میں ہے کہ
"اگر کوئی مشرک تیرے پاس پناہ لینے آئے تو اسے پناہ دے تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اس کو اس کے ٹھکانے پر پہنچا دے" (9/6)
انھوں نے آدمی ساتھ کر دئیے جنھوں نے انھیں آبادی تک پہنچا دیا۔
ان کے عدم تفقہ کی بابت مورخین لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک کسی یتیم کا یاک پیسہ بھی ناجائز طریقے سے کھا لے تو جہنمی ہے کیونکہ یہ قران میں ہے لیکن اگر اس کو مار ڈالے یا اس کا پیٹ چاک کر ڈالے تو جہنمی نہیں اسلیے کہ کوئی آیت اس کی تصریح نہیں کرتی اسی طرح کسی مشرک کے ایک درخت کا پھل بھی بلا قیمت کھانا حرام ہے مگر اس کو قتل کر دینا حلال۔
3. انھوں نے اپنے سوا تمام امت کو کافر اور مشرک اور سارے اسلامی خطوں کو دارلحرب قرار دیا۔ اور س کے مقابلے میں جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے۔ دین و دنیا کی اصلاح کا مدار صرف تلوار پر رکھا اور اسی سے سارے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کیاس لیے ان کی تھریک تعمیری سے زیادہ تخریبی تھی جو کمتر کامیاب ہوا کرتی ہے ۔ امت پوری قوت سے ان کو مٹانے پر آمادہ ہو گئی اور بالآخر کم و بیش دیڑھ سو سال تک لڑتے بھڑتے اور اسلام کی قوت کو کمزور کرتے ہوئے فنا ہو گئے۔ اور افسوس یہ ہے کہ ان تمام خونریزیوں سے حکومت الہٰی کا عنوان جس کے لیے وہ اٹھے تھے ذرا سا بھی رنگین نہ ہو سکا بلکہ نگاہوں سے اور بھی اوجھل ہو گیا یہاں تک کہ ساری امت کے دل و دماغ پر استبداد ایک حقیقت مسلمہ بن کر چھا گیا۔
وسلام