طارق شاہ
محفلین
غزل
خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے
اُن سے کیا کیا چُھپائے رکّھا ہے
ڈر نے ہَوّا بنائے رکّھا ہے
کہنا کل پر اُٹھائے رکھا ہے
مُضطرب دِل نے آج پہلے سے
کُچھ زیادہ ستائے رکّھا ہے
مِل کے یادوں سے تیری، دِل نے مِرے
اِک قیامت اُٹھائے رکّھا ہے
تیری آمد کے اِشتیاق نے پِھر
دِیدۂ دِل بچھائے رکّھا ہے
از سَرِ نَو تُمھارے وعدے نے
میرے دِل کو لُبھائے رکّھا ہے
ولوَلہ دِل میں اُن کو پانے کا
مُفلسی نے دبائے رکّھا ہے
دردِ فُرقت پہ اِختیار کہاں
صُبح ہی سے رُلائے رکّھا ہے
جان لَیوا سی یاسیّت نے،خَلِشؔ!
خُونِ دِل تک سُکھائے رکّھا ہے
شفیق خلشؔ