تُو نے جو نہ کہا ، میں وہ سُنتا رہا
خواہ مخواہ بے وجہ ، خواب بُنتا رہا
جانے کس کی ہمیں لگ گی ہے نظر
اس شہر نہ اپنا ٹھکانہ رہا
دور چاہت سے میں اپنی چلتا رہا
خواہ مخواہ ، بے وجہ خواب بُنتا ریا
درد پہلے سے ہے زیادہ
خود سے پھر یہ کیا وعدہ
خاموش نظریں رہیں بے زباں
نہ اب پہلی سی باتیں ہیں
بولیں تو لب تھرتھراتے ہیں
راز یہ دل کا نہ ہو بیاں
ہوگیا کہ اثر کوئی ہم پہ نہیں
ہم سفر میں تو ہیں ، ہمسفر ہے نہیں
دور جاتا رہا ، پاس آتا رہا
خواہ مخواہ ، بے وجہ خواب بُنتا رہا
آیا وہ پھر نظر ایسے
بات چھڑنے لگی پھر سے
آنکھوں میں چُھبتا ، کل کا دھواں
حال تیرا نہ ہم سا ہے
اس خوشی میں کیوں غم سا ہے
بسنے لگا کیوں پھر وہ جہاں
وہ جہاں دور جس سے گئے تھے نکل
پھر سے یادوں نے کردی ہے جیسے پہل
لمحہ بیتا ہوا ، دل دُکھاتا رہا
خواہ مخواہ بے وجہ ، خواب بُنتا رہا
تُو نے جو نہ کہا ، وہ سُنتا رہا
بجھ گئی آگ تھی ، داغ جلتا رہا
خواہ مخواہ بے وجہ ، خواب بُنتا رہا