جناب
محمد وارث آپ جیسے اہل علم کی بات رد نہیں کر سکتا مگر نمونے کے چند شعر ملاحظہ ہوں
جس کا خوباں خیال لیتے ہیں
دل کلیجا نکال لیتے ہیں
گزرے ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے
آنکھیں لگا کے اُن سے میں ترسوں ہوں خواب کو
ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
میر کو تم عبث اداس کیا
میر تقی میر
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
گوہر کو عقدِ گردنِ خوباں میں دیکھنا
کیا اوج پر ستارۀ گوہر فروش ہے
مرزا غالب
فکر ہي ٹھہري تو دل کو فکر ِ خوباں کيوں نہ ہو
خاک ہونا ہے تو خاک ِ کوئے جاناں کيوں نہ ہو
ادھر بھی نگاہِ کرم،میرِ خوباں
دو عالم ترے اک تبسم پہ قرباں
جوش ملیح آبادی
ان تمام اشعار میں "خوباں" ہے
کچھ اشعار جن میں "خوبان" لکھا گیا ہے
خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت
میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے
انور شعور
جہاں تک میرا خیال ہے فارسی میں نون غنہ نہیں ہوتا
محمد یعقوب آسی صاحب کیا فرماتے ہیں اس بارے میں