شکریہبہت خوب ۔
شکریہبہت خوب ۔
شکریہواہ بہت ہی خوبصورت قطعات ہیں
یہ مجھے بہت پسند آیا
یہ شرط ہے دستک ہو اگر دستِ یقیں سے
در چھوڑ کہ دیوار بھی کُھل جائے کہیں سے
لگتا ہے کہ سچ مچ کہیں موجود ہے دُنیا
ہم وہم بھی کرتے ہیں تو کرتے ہیں یقیں سے
شکریہہم زمیں زادے ستاروں سے ہمیں کیا واسطہدل میں ناحق خواہشِ تسخیر لے کر کیا کریںعالموں سے زائچے بنوائیں کس اُمید پرخواب ہی اچھے نہ تھے تعبیر لے کر کیا کریںبہت خوب
مدیحہ آپکا حصہ کہاں گیا ؟؟؟؟؟بصد شوق
شکریہ اس خوبصورت شراکت کیلیےمیں نے بھی ایک دفعہ قطعات پوسٹ کئے لیکن وہ لوگوں کی نظروں سے گزرے نہیں۔
لہٰذا وہ بھی یہیں پوسٹ کر دیتا ہوں کیونکہ پوسٹ کرنے کی اجازت تو مل ہی چکی ہے۔
محسن نقوی کے چند قطعات و اشعار:
چاندنی کارگر نہیں ہوتی
تیرگی مختصر نہیں ہوتی
اس کی زلفیں اگر بکھر جائیں
احترامن سحر نہیں ہوتی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
مخلوق تو فنکار ہے اس درجہ کہ پل میں
سنگِ درِ کعبہ سے بھی اصنام تراشے
تو کون ہے اور کیا ہے، ترا داغِ قبا بھی
دنیا نے تو مریم پہ الزام تراشے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
نوجوانی غمِ پندار سے جل سکتی ہے
آرزو کاسہ افلاک میں ڈھل سکتی ہے
راس آ جائے اگر فصلِ برہنہ پائی
زندگی خارِ مغیلاں پہ بھی چل سکتی ہے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
جسے قبائے امارت سمجھ رہے ہیں جناب
کسی کے جسم سے چھینا ہوا کفن تو نہیں
امیرِ شہر کی مسند کو غور سے دیکھو
کسی غریب کی بیٹی کا پیرہن تو نہیں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
تو نے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا۔!
کیسے رشتے تری خاطر یونہی توڑ آ یا ہوں
کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے
کیسی اجلی تھی وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آ یا ہوں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
آ جا کہ ابھی ضبط کا موسم نہیں گزرا
آ جا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے
خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اس شہر میں سب کچھ ہے بس اک تری کمی ہے
چل مرے ساتھ تُو کبھی کسی ویرانے میں
میں تجھے شہر کے ماحول سے ہٹ کر دیکھوں
مجھ کو ضد ہے کہ میری بینائی رہے یا نہ رہے
تیرے چہرے کی نقابیں تو الٹ کر دیکھوں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ہر گھڑی وقفِ طرف صبحِ ازل کی صورت
ہر نفس گرمِ جنوں تھا دمِ عیسیٰ کی طرح
میں نے اس مریمِ معصوم کی خاطر محسن
دل کو سو بار سجایا ہے کلیسا کی طرح
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔چل مرے ساتھ تُو کبھی کسی ویرانے میں
میں تجھے شہر کے ماحول سے ہٹ کر دیکھوںمجھ کو ضد ہے کہ میری بینائی رہے یا نہ رہے
تیرے چہرے کی نقابیں تو الٹ کر دیکھوں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ہر گھڑی وقفِ طرف صبحِ ازل کی صورت
ہر نفس گرمِ جنوں تھا دمِ عیسیٰ کی طرح
میں نے اس مریمِ معصوم کی خاطر محسن
دل کو سو بار سجایا ہے کلیسا کی طرح
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتےوقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
جس کی آواز میں سِلوٹ ہو، نگاہوں میں شکنایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتےگلزار
اوہو صائمہ! ہمیں تو یاد ہی نہیں رہا تھا ۔ اچھا اب کرتے ہیں کچھ جلد ہیمدیحہ آپکا حصہ کہاں گیا ؟؟؟؟؟
خوب اشعار کا انتخاب ہے۔ لیکن عزیزہ، کسی بھی غزل کے دو اشعار ملا دینے سے قطعہ نہیں بن جاتا۔ ماڈرن قطعے میں دو غزل نما اشعار ضرور ہوتے ہیں، لیکن ان میں موضوع کی وحدت ہوتی ہے۔ یہاں زیادہ تر غزلوں کے دو الگ الگ اشعار کو پوسٹ کیا گیا ہے۔
غبارے کی ہوا نکالنے کے لئے معذرت۔ میں ایسے ہی کاموں کے لئے بد نام ہوں!!
ہمارا خیال ہے کہ اس دھاگے میں زیادہ تر قطعات ہی ہیں لیکن وہیں چاچو جانی کی بات بھی درست ہے کہ بعض اشعار قطعات کے زمرے میں نہیں آتے اس لیے ہم نے دھاگے کا عنوان قدرے وسیع کر دیا ہے کہ ان کا احاطہ ہو سکے۔شکریہ نشاندہی فرمانے کا آئندہ خیال رکھوں گی
شکریہ بھیاہمارا خیال ہے کہ اس دھاگے میں زیادہ تر قطعات ہی ہیں لیکن وہیں چاچو جانی کی بات بھی درست ہے کہ بعض اشعار قطعات کے زمرے میں نہیں آتے اس لیے ہم نے دھاگے کا عنوان قدرے وسیع کر دیا ہے کہ ان کا احاطہ ہو سکے۔
صائمہ بٹیا یہ دونوں الفاظ ایک ساتھ اچھے نہیں لگتے۔شکریہبھیا