خوبصورت قطعات و اشعار

صائمہ شاہ

محفلین
واہ بہت ہی خوبصورت قطعات ہیں

یہ مجھے بہت پسند آیا

یہ شرط ہے دستک ہو اگر دستِ یقیں سے
در چھوڑ کہ دیوار بھی کُھل جائے کہیں سے
لگتا ہے کہ سچ مچ کہیں موجود ہے دُنیا
ہم وہم بھی کرتے ہیں تو کرتے ہیں یقیں سے
شکریہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں نے بھی ایک دفعہ قطعات پوسٹ کئے لیکن وہ لوگوں کی نظروں سے گزرے نہیں۔
لہٰذا وہ بھی یہیں پوسٹ کر دیتا ہوں کیونکہ پوسٹ کرنے کی اجازت تو مل ہی چکی ہے۔


محسن نقوی کے چند قطعات و اشعار:
چاندنی کارگر نہیں ہوتی
تیرگی مختصر نہیں ہوتی
اس کی زلفیں اگر بکھر جائیں
احترامن سحر نہیں ہوتی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
مخلوق تو فنکار ہے اس درجہ کہ پل میں
سنگِ درِ کعبہ سے بھی اصنام تراشے
تو کون ہے اور کیا ہے، ترا داغِ قبا بھی
دنیا نے تو مریم پہ الزام تراشے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
نوجوانی غمِ پندار سے جل سکتی ہے
آرزو کاسہ افلاک میں ڈھل سکتی ہے
راس آ جائے اگر فصلِ برہنہ پائی
زندگی خارِ مغیلاں پہ بھی چل سکتی ہے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
جسے قبائے امارت سمجھ رہے ہیں جناب
کسی کے جسم سے چھینا ہوا کفن تو نہیں
امیرِ شہر کی مسند کو غور سے دیکھو
کسی غریب کی بیٹی کا پیرہن تو نہیں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
تو نے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا۔!
کیسے رشتے تری خاطر یونہی توڑ آ یا ہوں
کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے
کیسی اجلی تھی وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آ یا ہوں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
آ جا کہ ابھی ضبط کا موسم نہیں گزرا
آ جا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے
خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اس شہر میں سب کچھ ہے بس اک تری کمی ہے
چل مرے ساتھ تُو کبھی کسی ویرانے میں
میں تجھے شہر کے ماحول سے ہٹ کر دیکھوں
مجھ کو ضد ہے کہ میری بینائی رہے یا نہ رہے
تیرے چہرے کی نقابیں تو الٹ کر دیکھوں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ہر گھڑی وقفِ طرف صبحِ ازل کی صورت
ہر نفس گرمِ جنوں تھا دمِ عیسیٰ کی طرح
میں نے اس مریمِ معصوم کی خاطر محسن
دل کو سو بار سجایا ہے کلیسا کی طرح
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
چل مرے ساتھ تُو کبھی کسی ویرانے میں
میں تجھے شہر کے ماحول سے ہٹ کر دیکھوں
مجھ کو ضد ہے کہ میری بینائی رہے یا نہ رہے
تیرے چہرے کی نقابیں تو الٹ کر دیکھوں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ہر گھڑی وقفِ طرف صبحِ ازل کی صورت
ہر نفس گرمِ جنوں تھا دمِ عیسیٰ کی طرح
میں نے اس مریمِ معصوم کی خاطر محسن
دل کو سو بار سجایا ہے کلیسا کی طرح
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جون ایلیا کے قطعات
جون ایلیا اردو شاعری کا ایک بہت بڑا نام اور ان کے قطعات اردو اپنی مثال آپ ہیں۔
ان کے قطعات سے میرا انتخاب آپ سب کی سماعتوں کی نذر:
اپنی انگڑائیوں پہ جبر نہ کر
مجھ پہ یہ قہر ٹوٹ جانے دے
ہوش میری خوشی کا دشمن ہےتو
مجھے ہوش میں نہ آنے دے
-------------------------
نشہ ناز نے بے حال کیا ہے تم کو
اپنے ہے زور میں کم زور ہوئی جاتی ہو
میں کوئی آگ نہیں، آنچ نہیں، دھوپ نہیں
کیوں پسینہ میں شرابور ہوئی جاتی ہو
-------------------------

بات ہی کب کسی کی مانی ہے
اپنی ہٹ پوری کر کے چھوڑو گی
یہ کلائی یہ جسم اور یہ کمر
تم صراحی ضرور توڑو گی
-------------------------

تم ہو جاناں شباب و حسن کی آگ
آگ کی طرح اپنی آنچ میں گم
پھر مرے بازوؤں پہ جھک آئیں
لو اب مجھے جلا ہی ڈالو تم
-------------------------
آپ کی تلخ نوائی کی ضرورت ہی نہیں
میں تو ہر وقت ہی مایوسِ کرم رہتا ہوں
آپ سے مجھ کو ہے اک نسبتِ احساسِ لطیف
لوگ کہتے ہیں ، مگر میں تو نہیں کہتا ہوں

-------------------------
چڑھ گیا سانس جھک گئیں نطریں
رنگ رخسار میں سمٹ آیا
زکر سن کر مری محبت کا
اتنے بیٹھے تھے ، کون شرمایا ؟

-------------------------
تم زمانے سے لڑ نہیں سکتیں
خیر یہ راز آج کھول دیا
وہ اجازت کہ جا رہو ہوں میں
تم نے باتوں میں زہر کھول دیا

-------------------------
دور نظروں سے خلوتِ دل میں
اس طرح آج اُن کی یاد آئی
ایک بستی کے پار شام کا وقت
جیسے بجتی ہو شہنائی

-------------------------
ہیں بے طور یہ لوگ تمام
ان کے سانچہ میں نہ ڈھلو
میں بھی یہاں سے بھاگ چلوں
تم بھی یہاں سے بھاگ چلو

-------------------------

عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اُس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ
-------------------------

ہے یہ بازار جھوٹ کا بازار
پھر یہی جنس کیوں نہ تولیں ہم
کر کے اک دوسرے سے عہدِ وفا
آؤ کچھ دیر جھوٹ بولیں ہم
-------------------------

کون سود و زیاں کی دنیا میں
دردِ غربت کا ساتھ دیتا ہے
جب مقابل ہوں عشق اور دولت
حُسن دولت کا ساتھ دیتا ہے
-------------------------
یہ تیرے خط تیری خوشبو یہ تیری خواب و خیال
متاعِ جاں ہیں ترے قول و قسم کی طرح
گزشتہ سال انہیں میں نے گِن کے رکھا تھا
کسی غریب کی جوڑی ہوئی رقم کی طرح
-------------------------

ہر بار تجھ سے ملتے وقت
تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے
تیرے جانے کے بعد بھی میں نے
تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے
-------------------------
سال ہا سال اور اِک لمحہ
کوئی بھی تو نہ اِن میں بل آیا
خود ہی اِک در پہ میں نے دستک دی
خود ہی لڑکا سا میں نکل آیا
-------------------------


میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
تم نے سانچے میں جنوں کے ڈھال دیں
کر لیا تھا میں نے عہدِ ترکِ عشق
تم نے پھر بانہیں گلے میں ڈال دیں
-------------------------

تم جب آؤ گی کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
-------------------------
جو رعنائی نگاہوں کے لئے فردوسِ جلوہ ہے
لباس مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بدصورت نظر آتی
-------------------------

شرم ، دہشت ، جھجک ، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ،وہ،جی،مگر ’’یہ سب کیا ہے‘‘
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں
-------------------------

عجب تھا اس کی دلداری کا انداز
وہ برسوں بعد جب مجھ سے مِلا ہے
بَھلا میں پوچھتا اس سے تو کیسے
متاعِ جاں! تمہارا نام کیا ہے
-------------------------

تیری یادوں کے راستے کی طرف
اک قدم بھی نہیں بڑھوں گا میں
دل تڑپتا ہے تیرے خط پڑھ کر
اب ترے خط نہیں پڑھوں گا میں
-------------------------

لہو روتے نہ اگر ہم دمِ رخصت یاراں
کیا عجب تھا کہ کوئی اور تماشہ کرتے
چلو اچھا ہے کہ وہ بھی نہیں نزدیک اپنے
وہ جو ہوتا تو اُسے بھی نہ گوارا کرتے
-------------------------

نشۂ ناز نے بے حال کیا ہے تم کو
اپنے ہی زور میں کمزور ہوئی جاتی ہو
میں کوئی آگ نہیں، آنچ نہیں، دھوپ نہیں
کیوں پسینہ میں شرابور ہوئی جاتی ہو
 

صائمہ شاہ

محفلین
میں نے بھی ایک دفعہ قطعات پوسٹ کئے لیکن وہ لوگوں کی نظروں سے گزرے نہیں۔
لہٰذا وہ بھی یہیں پوسٹ کر دیتا ہوں کیونکہ پوسٹ کرنے کی اجازت تو مل ہی چکی ہے۔


محسن نقوی کے چند قطعات و اشعار:

چاندنی کارگر نہیں ہوتی

تیرگی مختصر نہیں ہوتی

اس کی زلفیں اگر بکھر جائیں

احترامن سحر نہیں ہوتی

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

مخلوق تو فنکار ہے اس درجہ کہ پل میں

سنگِ درِ کعبہ سے بھی اصنام تراشے

تو کون ہے اور کیا ہے، ترا داغِ قبا بھی

دنیا نے تو مریم پہ الزام تراشے

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

نوجوانی غمِ پندار سے جل سکتی ہے

آرزو کاسہ افلاک میں ڈھل سکتی ہے

راس آ جائے اگر فصلِ برہنہ پائی

زندگی خارِ مغیلاں پہ بھی چل سکتی ہے

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

جسے قبائے امارت سمجھ رہے ہیں جناب

کسی کے جسم سے چھینا ہوا کفن تو نہیں

امیرِ شہر کی مسند کو غور سے دیکھو

کسی غریب کی بیٹی کا پیرہن تو نہیں

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

تو نے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا۔!

کیسے رشتے تری خاطر یونہی توڑ آ یا ہوں

کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے

کیسی اجلی تھی وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آ یا ہوں

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

آ جا کہ ابھی ضبط کا موسم نہیں گزرا

آ جا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے

خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک

اس شہر میں سب کچھ ہے بس اک تری کمی ہے

چل مرے ساتھ تُو کبھی کسی ویرانے میں

میں تجھے شہر کے ماحول سے ہٹ کر دیکھوں

مجھ کو ضد ہے کہ میری بینائی رہے یا نہ رہے

تیرے چہرے کی نقابیں تو الٹ کر دیکھوں

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

ہر گھڑی وقفِ طرف صبحِ ازل کی صورت

ہر نفس گرمِ جنوں تھا دمِ عیسیٰ کی طرح

میں نے اس مریمِ معصوم کی خاطر محسن

دل کو سو بار سجایا ہے کلیسا کی طرح

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
چل مرے ساتھ تُو کبھی کسی ویرانے میں

میں تجھے شہر کے ماحول سے ہٹ کر دیکھوں
مجھ کو ضد ہے کہ میری بینائی رہے یا نہ رہے

تیرے چہرے کی نقابیں تو الٹ کر دیکھوں

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

ہر گھڑی وقفِ طرف صبحِ ازل کی صورت

ہر نفس گرمِ جنوں تھا دمِ عیسیٰ کی طرح

میں نے اس مریمِ معصوم کی خاطر محسن

دل کو سو بار سجایا ہے کلیسا کی طرح

شکریہ اس خوبصورت شراکت کیلیے
 

پپو

محفلین
یہ شرط ہے دستک ہو اگر دستِ یقیں سے​
در چھوڑ کہ دیوار بھی کُھل جائے کہیں سے​
لگتا ہے کہ سچ مچ کہیں موجود ہے دُنیا​
ہم وہم بھی کرتے ہیں تو کرتے ہیں یقیں سے​
 

صائمہ شاہ

محفلین
چھوڑ کر یوں درِ محبوب چلا صحرا کو؟
ہوش میں آئے ذرا قیس نہ دیوانہ بنے

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے
اصغر گونڈوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے​
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے​

جس کی آواز میں سِلوٹ ہو، نگاہوں میں شکن​
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے​
گلزار

۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی​
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ھونے تک​

میں اس کو بھولنا چاھوں تو کیا کروں عادل​
جو مجھ میں زندہ ھے خود میری ذات ھونے تک​


تاجدارعادل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں

بتوں سےمجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
راحت اندوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے​
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے​

جس کی آواز میں سِلوٹ ہو، نگاہوں میں شکن​
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے​
گلزار

واہ واہ
گلزار صاحب کی کیا بات ہے!
 
تجھے بھی شوق نئے تجربات کا ہو گا
ہمیں بھی شوق تھا کچھ بخت آزمائی کا
ملے تو ایسے رگِ جاں کو جیسے چھو آئے
جدا ہوئے تو وہی کرب نارسائی کا

بهت خوب جي مزه آگيا هے
 

صائمہ شاہ

محفلین
سکوتِ شہر تیرے پہلو سے اب کہاں جائیں
قلندروں کا کہیں اور بندوبست نہیں

میں اس یقین سے تعبیر کی تلاش میں ہوں
یہ حادثات میرے خواب کی شکست نہیں
عزیز نبیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوچ کر میں پھینک آیا آج اس سینے سے دل
ایک کانٹا چبھ رہا تھا اس میں تیری یاد کا

روح جیسے ایک رقاصہ ہو قصرِ جسم میں
اور سارا جسم قیدی عمر کے جلاد کا

عزیز نبیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے نہ اپنی زلف کی زنجیر کر مجھے
میں آسماں کا چاند ہوں تسخیر کر مجھے

تُو شاعری کے سارے ہُنر جانتا تو ہے
میں حرف حرف زخم ہوں تحریر کر مجھے

راشد ترین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
خوب اشعار کا انتخاب ہے۔ لیکن عزیزہ، کسی بھی غزل کے دو اشعار ملا دینے سے قطعہ نہیں بن جاتا۔ ماڈرن قطعے میں دو غزل نما اشعار ضرور ہوتے ہیں، لیکن ان میں موضوع کی وحدت ہوتی ہے۔ یہاں زیادہ تر غزلوں کے دو الگ الگ اشعار کو پوسٹ کیا گیا ہے۔
غبارے کی ہوا نکالنے کے لئے معذرت۔ میں ایسے ہی کاموں کے لئے بد نام ہوں!!
 
خوب اشعار کا انتخاب ہے۔ لیکن عزیزہ، کسی بھی غزل کے دو اشعار ملا دینے سے قطعہ نہیں بن جاتا۔ ماڈرن قطعے میں دو غزل نما اشعار ضرور ہوتے ہیں، لیکن ان میں موضوع کی وحدت ہوتی ہے۔ یہاں زیادہ تر غزلوں کے دو الگ الگ اشعار کو پوسٹ کیا گیا ہے۔
غبارے کی ہوا نکالنے کے لئے معذرت۔ میں ایسے ہی کاموں کے لئے بد نام ہوں!!
شکریہ نشاندہی فرمانے کا آئندہ خیال رکھوں گی :)
ہمارا خیال ہے کہ اس دھاگے میں زیادہ تر قطعات ہی ہیں لیکن وہیں چاچو جانی کی بات بھی درست ہے کہ بعض اشعار قطعات کے زمرے میں نہیں آتے اس لیے ہم نے دھاگے کا عنوان قدرے وسیع کر دیا ہے کہ ان کا احاطہ ہو سکے۔ :) :) :)
 

صائمہ شاہ

محفلین
ہمارا خیال ہے کہ اس دھاگے میں زیادہ تر قطعات ہی ہیں لیکن وہیں چاچو جانی کی بات بھی درست ہے کہ بعض اشعار قطعات کے زمرے میں نہیں آتے اس لیے ہم نے دھاگے کا عنوان قدرے وسیع کر دیا ہے کہ ان کا احاطہ ہو سکے۔ :) :) :)
شکریہ بھیا
 
Top