یاسر شاہ
محفلین
غزل
(مفتی تقی عثمانی)
معصوم تھا نہ وقفِ سجود و دعا تھا میں
خوبی مری یہی تھی کہ اہلِ خطا تھا میں
اب تک میں اپنی ذات کے پنجرے میں بند ہوں
پل بھر کو تیری یاد سے غافل ہوا تھا میں
ابلیس ہے مرے لئے اک امتحاں تو کیا
ابلیس کے لئے بھی تو ایک ابتلا تھا میں
چل چل کے تھک چکے ہیں قدم پھر بھی اب تلک
ٹھیک اس جگہ کھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا میں
حیرت نہ کر بدن کو مرے چور دیکھ کر
ان چوٹیوں کو دیکھ جہاں سے گرا تھا میں
(مفتی تقی عثمانی)
معصوم تھا نہ وقفِ سجود و دعا تھا میں
خوبی مری یہی تھی کہ اہلِ خطا تھا میں
اب تک میں اپنی ذات کے پنجرے میں بند ہوں
پل بھر کو تیری یاد سے غافل ہوا تھا میں
ابلیس ہے مرے لئے اک امتحاں تو کیا
ابلیس کے لئے بھی تو ایک ابتلا تھا میں
چل چل کے تھک چکے ہیں قدم پھر بھی اب تلک
ٹھیک اس جگہ کھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا میں
حیرت نہ کر بدن کو مرے چور دیکھ کر
ان چوٹیوں کو دیکھ جہاں سے گرا تھا میں
اس لغزشِ حسیں پہ فدا لاکھ منزلیں
اپنا وجود کھو کے تمھیں پا گیا تھا میں
اپنا وجود کھو کے تمھیں پا گیا تھا میں