سید لبید غزنوی
محفلین
خودکشیاں یا غیرت کے نام پر قتل
خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے دور افتادہ گاؤں پرون سے تعلق رکھنی والی حسن گوہر ایک دکھی ماں ہیں۔ چند ماہ پہلے ان کی اکلوتی شادی شدہ بیٹی شازیمہ کو ان کے شوہر نے غیرت کے نام پر مبینہ طور پر زہر دے کر قتل کر دیا تاہم بعد میں اس واقعے کو خودکشی کا رنگ دے دیا گیا۔
پولیس نے شازیمہ کی موت کو ان کے شوہر کے بیان کے مطابق خودکشی کا معاملہ قرار دے کر داخل دفتر کر دیا۔ لیکن چند ہفتوں بعد جب شازیمہ کے والدین پر حقیقت کھلی اور انھوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے دوبارہ تفتیش کی اور ایک ماہ کی تاخیر سے شازیمہ کے شوہر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
٭ قتل و غیرت: بی بی سی کی خصوصی سیریز
حسن گوہر کا کہنا ہے کہ 'ظالموں نے میری بیٹی کو بغیر کسی وجہ کے زہر دے کر قتل کر دیا حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔'
انھوں نے الزام لگایا کہ شازیمہ کے شوہر نے اپنی بیوی کو راستے سے ہٹانے کے لیے اسے زہر دے دیا اور بعد میں الزام لگایا کہ اس کی اس نے خودکشی کی ہے۔
شازیمہ کے والد کریم جان نے بتایا کہ 'ہم غریب لوگ ہیں ہمیں انصاف چاہیے اور ان ظالموں کو کڑی سزا ملنی چاہیے جنھوں نے ہماری اکلوتی بیٹی کو قتل کیا ہے۔'
شانگلہ
خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے
پرون کے علاقے چاوگاہ پولیس کے انچارج عثمان منیر کا کہنا ہے کہ شازیمہ قتل کیس میں پولیس کی طرف سے دو افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں شازیمہ کے شوہر امجد اور ان کی چچی شامل تھیں۔ تاہم ایک ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد عدالت کی طرف سے ان دونوں ملزمان کو اب ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ابتدا میں شازیمہ کے والد نے کسی پر قتل کا الزام نہیں لگایا تھا اسی وجہ سے پولیس کی طرف سے صرف روزنامچہ رپورٹ درج کی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ بعد میں جب الزام سامنے آیا تو پولیس کی طرف سے باقاعدہ ایف آئی آر درج کرائی گئی اور دو افراد کا چالان کیا گیا۔
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ تاہم اب ان ہلاکتوں میں ایک نیا رحجان سامنے آرہا ہے جس کے مطابق خواتین کو قتل کرنے کے بعد اسے مبینہ طور پر خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے۔
اس معاملہ پر تحقیق کرنے والے غیر سرکاری اداروں کا کہنا ہے کہ صرف سوات میں 2015 میں 18 خواتین کے خودکشی کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2014 میں یہ تعداد 27 تھی۔ اس ادارے کے تحقیق کاروں کے مطابق ان میں سے 60 فیصد سے زائد کیسوں میں اصل معاملہ غیرت کے نام پر قتل کا تھا جسے خودکشی کا رنگ دیا گیا۔
حسن گوہر
خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے دور افتادہ گاؤں پرون سے تعلق رکھنی والی حسن گوہر ایک دکھی ماں ہیں
ملاکنڈ ڈویژن میں اب تک سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات چترال میں رونما ہوئے ہیں جہاں گذشتہ چھ سالوں کے دوران 90 سے زیادہ خواتین نے خودکشی کرکے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا ہے۔
خواتین کے حقوق کےلیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن چترال کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ تمام واقعات غیرت کے معاملے پر ہی ہوئے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ چترال میں یہ رحجان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ کسی قتل کو خودکشی کا نام دینے کے بعد پولیس ایسے واقعات کی تفتیش نہیں کرتی اور اس طرح سارا معاملہ دب جاتا ہے۔
حکومت نےغیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے واقعات کو روکنے کے لیے ایک قانون بھی منظور کیا ہے تاہم ماہرین کے مطابق اس قانون میں پیچیدگیوں اور اس پر عمل درامد کے فقدان کے باعث اس کی حیثیت ایک برائے نام قانون کی رہ گئی ہے۔
عورت فاؤنڈیشن پشاور کی ایک اہلکار صائمہ منیر کا کہنا ہے کہ غیرت کے معاملے پر قتل کے واقعات میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ پولیس کی جانب سے تفتیش میں عدم دلچسپی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'جب کسی خاتون کا قتل ہوتا ہے تو سب سے پہلے ذمہ داری پولیس اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کی بنتی ہے کہ وہ اس واقعے کی ہر زاویے سے تفتیش کرے اور قاتلوں کا پتہ لگائے لیکن اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے ایسے کیسوں میں کوئی دلچپسپی نہیں لی جاتی۔'
شازیمہ کے قتل کا مقدمہ ایک ماہ کی تاخیر سے درج ہوا
صائمہ منیر نے کہا کہ غیرت کے واقعات روکنے کے لیے جو قانون پاس کیا گیا ہے اس کے تحت بعض علاقوں میں ابھی تک ایک کیس بھی درج نہیں ہوا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ قانون کتنا کمزور ہے۔
ان کے مطابق 'گذشتہ سال ہم نے ضلع نوشہرہ میں خواتین کے قتل کے واقعات کے ضمن میں ایک سروے کیا تھا جس کے تحت تمام تھانوں کا ریکارڈ جمع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ غیرت کے نام پر قتل کے قانون کے تحت پورے ضلعے میں ایک رپورٹ بھی درج نہیں ہوئی ہے۔'
صائمہ منیر نے مزید کہا کہ جب تک حکومت کی طرف سے موثر تفتیشی نظام اور قانون سازی نہیں کی جاتی خواتین کو غیرت کے نام پر اس طرح قتل اور خودکشی کے نام پر دفن کیا جاتا رہے گا۔
خودکشیاں یا غیرت کے نام پر قتل - BBC Urdu
خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے دور افتادہ گاؤں پرون سے تعلق رکھنی والی حسن گوہر ایک دکھی ماں ہیں۔ چند ماہ پہلے ان کی اکلوتی شادی شدہ بیٹی شازیمہ کو ان کے شوہر نے غیرت کے نام پر مبینہ طور پر زہر دے کر قتل کر دیا تاہم بعد میں اس واقعے کو خودکشی کا رنگ دے دیا گیا۔
پولیس نے شازیمہ کی موت کو ان کے شوہر کے بیان کے مطابق خودکشی کا معاملہ قرار دے کر داخل دفتر کر دیا۔ لیکن چند ہفتوں بعد جب شازیمہ کے والدین پر حقیقت کھلی اور انھوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے دوبارہ تفتیش کی اور ایک ماہ کی تاخیر سے شازیمہ کے شوہر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
٭ قتل و غیرت: بی بی سی کی خصوصی سیریز
حسن گوہر کا کہنا ہے کہ 'ظالموں نے میری بیٹی کو بغیر کسی وجہ کے زہر دے کر قتل کر دیا حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔'
انھوں نے الزام لگایا کہ شازیمہ کے شوہر نے اپنی بیوی کو راستے سے ہٹانے کے لیے اسے زہر دے دیا اور بعد میں الزام لگایا کہ اس کی اس نے خودکشی کی ہے۔
شازیمہ کے والد کریم جان نے بتایا کہ 'ہم غریب لوگ ہیں ہمیں انصاف چاہیے اور ان ظالموں کو کڑی سزا ملنی چاہیے جنھوں نے ہماری اکلوتی بیٹی کو قتل کیا ہے۔'
شانگلہ
خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے
پرون کے علاقے چاوگاہ پولیس کے انچارج عثمان منیر کا کہنا ہے کہ شازیمہ قتل کیس میں پولیس کی طرف سے دو افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں شازیمہ کے شوہر امجد اور ان کی چچی شامل تھیں۔ تاہم ایک ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد عدالت کی طرف سے ان دونوں ملزمان کو اب ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ابتدا میں شازیمہ کے والد نے کسی پر قتل کا الزام نہیں لگایا تھا اسی وجہ سے پولیس کی طرف سے صرف روزنامچہ رپورٹ درج کی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ بعد میں جب الزام سامنے آیا تو پولیس کی طرف سے باقاعدہ ایف آئی آر درج کرائی گئی اور دو افراد کا چالان کیا گیا۔
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ تاہم اب ان ہلاکتوں میں ایک نیا رحجان سامنے آرہا ہے جس کے مطابق خواتین کو قتل کرنے کے بعد اسے مبینہ طور پر خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے۔
اس معاملہ پر تحقیق کرنے والے غیر سرکاری اداروں کا کہنا ہے کہ صرف سوات میں 2015 میں 18 خواتین کے خودکشی کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2014 میں یہ تعداد 27 تھی۔ اس ادارے کے تحقیق کاروں کے مطابق ان میں سے 60 فیصد سے زائد کیسوں میں اصل معاملہ غیرت کے نام پر قتل کا تھا جسے خودکشی کا رنگ دیا گیا۔
حسن گوہر
خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے دور افتادہ گاؤں پرون سے تعلق رکھنی والی حسن گوہر ایک دکھی ماں ہیں
ملاکنڈ ڈویژن میں اب تک سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات چترال میں رونما ہوئے ہیں جہاں گذشتہ چھ سالوں کے دوران 90 سے زیادہ خواتین نے خودکشی کرکے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا ہے۔
خواتین کے حقوق کےلیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن چترال کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ تمام واقعات غیرت کے معاملے پر ہی ہوئے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ چترال میں یہ رحجان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ کسی قتل کو خودکشی کا نام دینے کے بعد پولیس ایسے واقعات کی تفتیش نہیں کرتی اور اس طرح سارا معاملہ دب جاتا ہے۔
حکومت نےغیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے واقعات کو روکنے کے لیے ایک قانون بھی منظور کیا ہے تاہم ماہرین کے مطابق اس قانون میں پیچیدگیوں اور اس پر عمل درامد کے فقدان کے باعث اس کی حیثیت ایک برائے نام قانون کی رہ گئی ہے۔
عورت فاؤنڈیشن پشاور کی ایک اہلکار صائمہ منیر کا کہنا ہے کہ غیرت کے معاملے پر قتل کے واقعات میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ پولیس کی جانب سے تفتیش میں عدم دلچسپی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'جب کسی خاتون کا قتل ہوتا ہے تو سب سے پہلے ذمہ داری پولیس اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کی بنتی ہے کہ وہ اس واقعے کی ہر زاویے سے تفتیش کرے اور قاتلوں کا پتہ لگائے لیکن اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے ایسے کیسوں میں کوئی دلچپسپی نہیں لی جاتی۔'
شازیمہ کے قتل کا مقدمہ ایک ماہ کی تاخیر سے درج ہوا
صائمہ منیر نے کہا کہ غیرت کے واقعات روکنے کے لیے جو قانون پاس کیا گیا ہے اس کے تحت بعض علاقوں میں ابھی تک ایک کیس بھی درج نہیں ہوا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ قانون کتنا کمزور ہے۔
ان کے مطابق 'گذشتہ سال ہم نے ضلع نوشہرہ میں خواتین کے قتل کے واقعات کے ضمن میں ایک سروے کیا تھا جس کے تحت تمام تھانوں کا ریکارڈ جمع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ غیرت کے نام پر قتل کے قانون کے تحت پورے ضلعے میں ایک رپورٹ بھی درج نہیں ہوئی ہے۔'
صائمہ منیر نے مزید کہا کہ جب تک حکومت کی طرف سے موثر تفتیشی نظام اور قانون سازی نہیں کی جاتی خواتین کو غیرت کے نام پر اس طرح قتل اور خودکشی کے نام پر دفن کیا جاتا رہے گا۔
خودکشیاں یا غیرت کے نام پر قتل - BBC Urdu