امکانات
محفلین
خودکش حملوں کا خاتمہ کیسے ہوگا؟(زبیر احمد ظہیر)
نظریاتی اور عسکری قوتوں میں تصادم کیوں ہوا ؟نظریاتی اور عسکری قوتوں کا تصادم کسی بھی ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہوتایہ دو طاقتیں ملک کی بقاءاور سلامتی کی ضامن ہوتی ہیں۔ فوج جغرافیائی سرحدوں جبکہ نظریاتی طاقت فکری سرحدوں کی نگہبانی کرتی ہے۔نظریاتی طاقت کسی بھی ملک کی وہ وحدت ہے جس کی انگلیوں میں پوری قوم کی نبض ہوتی ہے ظاہر ہے اتنی کشش صرف مذہب میں ہی ہوسکتی ہے ۔دنیا کا کوئی ملک ان دو طاقتوں سے خالی نہیں نظریاتی طاقت کی اہمیت فوجی طاقت سے کسی طور کم نہیں، نظریاتی سرحدوں کی تبدیلی ملک کی جغرافیائی سرحدیں بدل دیتی ہے جب ہندوستان کی نظریاتی سرحدوں میں دراڑ پڑی اور فکری طاقت ہندومسلم اختلافات میں تبدیل ہوگئی تو صدیوں سے قائم ہندوستان متحد نہ رہ سکا اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی تبدیلی نے بالآخر 565 ریاستوں کے متحدہ ہندوستان کوتقسیم کر ڈالا ،خود پاکستان نظریاتی تقسیم سے دولخت ہوا ،لسانی تعصب کی وجہ سے نظریاتی طاقت اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی، اس فکری تبدیلی نے جغرافیائی سرحدیں توڑ ڈالیں اور مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔ مذہبی افراداورفوج دونوں میںحب الوطنی کی قدر مشترک ہوتی ہے۔ ان دونوںکا یہ اشتراک ملک کی بقا اور سلامتی کاضامن ہوتا ہے اگر نظریاتی اور عسکری طاقت میں تصادم ہوجائے تو ملک داخلی عدم استحکام کا شکارہوجایا کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کا پہلا مارشل لا ءایک فوجی جنرل اسکندر مرزا نے لاہور میں لگایا۔ یہ ختم نبوت جیسی حساس مذہبی تحریک کو کچلنے کےلئے تھا قیام پاکستان کے 6سال بعد 1953ءمیں یہ وہ پہلا موقع آیا جب نظریاتی اور عسکری قوتوں میں ٹکراو¿ پیدا ہوا، ختم نبوت کے دس ہزار کارکن شہید ہوئے ، ملک د اخلی عدم استحکام کا شکار ہو گیاپھروہ دن اور آج کا دن ہم اس انتشار سے باہر نہ نکل سکے۔ آج فوج اورمذہبی طاقت ایک دوسرے کے خلاف صف آراءہیں مذ ہبی لوگ انہیں افغانیوں ، پاکستانیوں کا قاتل سمجھتے ہیں ، انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں اور فوج ان عسکریت پسندوں کو پاکستان دشمن سمجھتی ہے حالانکہ پاکستان پر براوقت آئے تو انکی دشمنی اچانک ہمدردی میں بدل جائے گی اوریہ لوگ سب سے پہلے فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے ۔نظریاتی طاقت کی یہی حب الوطنی اسے ملک کی دوسری طاقت بنادیتی ہے۔
فوج اور مذہبی افراد کا یہ ٹکراو¿ ایک بار پھر 9/11سے شروع ہواجس نے افغانستان پر حملے سے شدت اختیار کرلی۔ امریکا کی دہشتگردی کے خلاف جنگ جب عملاً عالم اسلام کے خلاف جنگ بنی اور افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ پاکستان میں مذہبی قوتوں کے خلاف جنگ بن گئی توردعمل میں اسلام اور مذہب کو بچانے کی فکر نے دفاع کرنے کی ٹھان لی، امریکہ کے خلاف ساری دشمنی کا نزلہ پاکستان پر گر گیا پھر بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا،نہ جانے اس آڑ میں کس کس ملک نے گن گن کر بدلہ لیا اس کا نزلہ مذہبی افراد پر گرا جس نے مذہبی قوتوں سے حب الوطنی کی سندچھین لی اور ملزم بنا دیا ۔شک، الزام اور بیرونی دباﺅ سے شروع ہونے والے اس طوفان نے بے شمار شہریوں کی جان لے لی۔ طالبان کی کمر ٹوٹی نہ اتحادی افواج کو فتح ملی مگر پاکستان نقصان میںنیٹو اورافغانستان سے بڑھ گیا ،ہمیں بھارت جیسی دنیا کی تیسری ابھرتی طاقت کی دشمنی ورثے میں ملی مگر ہم نے خود مختاری پر آنچ نہ آنے دی۔ جب ہماری سب سے بڑی سرحد کو خطرہ لاحق ہوا ،ہم نے روس جیسے سپرپاور ملک سے ٹکر لے لی ،2ہزار 5سو کلومیٹر طویل وہ سرحد آج امریکہ کی وجہ سے ہمارے لیے غیر محفوظ ہوگئی ہے اب اس سرحد پر ہمیں 4خطروں کاسامنا ہے ۔ڈیورنڈ لائن کے اس پار بھارت کی مداخلت بڑھ گئی ہے۔ شمالی اتحاد اور افغان فوجی ریشہ درانیوں میں دن رات مصروف ہےں، نیٹو افواج کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی اور طالبان کی انتقامی کارروئیوں کاخوف ان 4خطرات نے ہمیں مسلسل گھیر رکھا ہے۔ جہاں ہم نے تین جنگوں میں ایک سپاہی کھڑانہ کیاتھا آج ہم نے وہاں 90ہزار فوج تعینات کردی ہے اس سرحد کے تحفظ کےلئے ہم نے 1ہزار سے زائدفوجیوں کی قربانی دی اورالقاعدہ،طالبان کے 7 سو72جنگجو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیے۔ جس سرحد نے روس توڑکر امریکا کو سپر پاور بننے میں مدد دی ،آج اسی سر حد کو امریکا نے ہماری کمزوری بنادیا ہے ۔ہم نے جانی، مالی اورنفسےاتی دہشت گردی کا جو نقصان اٹھاناتھا، اٹھا لیا مگر دن بدن بڑھتے امریکی مطالبات نے ہماری نظریاتی اور عسکری قوتوں کے درمیان جودیوار بنادی ہے اس سے ملک کی بقا اور سلامتی کو سخت خطرہ لاحق ہے اگر آج پھر مشرقی پاکستان کی طرح ہماری صوبائی نظریاتی سرحدیں تبدیل ہونے کو ہیں مگر ہم مزید کسی بنگلہ دیش کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہم مصر ،الجزائر، تیونس اور ترکی کی مثالوں کو فراموش نہیں کرسکتے جہان فوج توغالب آگئی لیکن داخلی استحکام آج تک واپس نہ لاسکی ۔ شاہ ایران نے مذہبی قوتوں کوکچلنے کے لیے فوج استعمال کی اورظلم کی انتہا کردی۔ عوام نے مظلوم کا ساتھ دیا اور مذہبی قوتوں نے غلبہ حاصل کرلیا ۔ایرانی انقلاب کی طرح آج پاکستان میںبھی مذہبی قوتیں مظلوم بنادی گئی ہیں ،پاکستان میں مذہبی قوتیں کمزور اور فوج غالب ہے یہاں عام حالات میںانقلاب نہیں آسکتا ۔ہوش ربا مہنگائی اور حکومت مخالف عوامی ا ضطراب کی اس نازک حالت میں اگر امریکا قبائلی علاقوں پربمباری کرتارہا تو انقلاب کی راہ ہموار ہونے میں دیر نہیں لگے گی ۔
عالمی استعماری قوتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک کی ان دوطاقتوں کو آپس میں لڑوا دیاجائے، مسلم ممالک میں مذہبی عنصر عوام پر غالب ہوتا ہے اس لیے ان دو طاقتوں کاٹکراو¿ خوفناک ہوتاہے، یہ تصادم مذہبی حلقوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ انہیںامریکا اور فوج دو محاذوں سے مخالفت کا سامنا ہے ،کوئی جنگ خواہ وہ فکری ہو یا فوجی دو محاذوں پر تنہا نہیں لڑی جاسکتی ۔امریکا کی جنگ بھی مذہبی عنصر سے خالی نہیں اس تاثر کو صدر بش کے صلیبی جنگ کے نعرے نے تقویت دی۔ امریکا کو کسی فوج سے خطرہ نہیں اسے خطرہ اگرہے تو اپنی نظریاتی طاقت کاہے جو مسلسل کمزور ہورہی ہے ، مذہب سے دوری نے اس فکری انتشار کو مزید گہرابنادیا ہے لہٰذا امریکا جب کبھی ٹوٹے گاکسی فوج سے نہیں بلکہ نظریاتی تقسیم سے ٹوٹے گا،امریکہ نے اس فکری انتشار کے خطرے کو قبل از وقت بھانپ لیا اوراس سے بچنے کے لیے اس نے دہشتگردی کے نام پر جنگ شروع کردی یوںنظریاتی انتشارکے شکار عوام کی توجہ جنگی محاذوں پر لگا دی جب یہ جنگ بے مقصد ہو کر ناکام ہونے لگی تو توہین آمیزخاکوں کا خالصتاًمذہبی مسئلہ اٹھایا گیا پھرپوپ بینی ڈیکٹ نے پیغمبر اسلام ﷺکی گستاخی کرڈالی اوریوں عیسائیت کھل کر مسلمانوں کے سامنے آگئی۔ امریکا نے اپنی عوام کو نظریاتی انتشار سے بچا لیا اورورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کوبیرونی قرار دیا جس نے قوم کے حب الوطنی کا جذبہ دوچند کردیا،امریکا نے اپنی نظریاتی سرحدیں محفوظ بناکر ہماری نظریاتی سرحدیں غیر محفوظ بنا دی ہیں ۔
سانحہ لال مسجد نظریاتی اور عسکری قوتو ں میں تصادم کی سنگین شکل بن کر سامنے آیا ۔ معمولی بات بگڑ کر بتنگڑبنی ۔مساجد کی شہادت نے مذہبی حلقوں کی نظر میںبابری مسجد کی یاد تازہ کر دی ۔ مولانا عبدالعزیز کی برقعے میں توہین ، سینکڑوںمعصوم طالبات کا قتل ، لال مسجد میں نماز کی بروقت اجازت نہ دینا ، سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجودجامعہ حفصہ اورجامعہ فریدیہ کو بحال نہ کرنے جیسی ان مسلسل غلطیوں نے رائے عامہ حکومت کے خلاف کردی۔ ان غلطیوں کا حکومت نے کوئی تدارک نہ کیا یہ عوامی غصہ الیکشن میں نکل گیا۔ نئی حکومت آئی اس کے آنے سے توقع کے برخلاف کوئی فرق نہ پڑا بلکہ فوجی آپریشن میںشدت آگئی،تب مزاحمت نے روایات توڑ ڈالیں اوراملاک ،تنصےبات کو نقصان پہچانا شروع کر دیا حالانکہ مزاحمت کی یہ کبھی روایت نہیں رہی ،یہ کام تو علیحدگی پسند بلوچستان میںکیا کر تے تھے۔ ان پانچ چھ سالوں میں عسکریت پسندوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیاتھا۔ محب وطن اور علیحدگی پسند مزاحمت میں یہ ہی فرق تھا۔
مشیر داخلہ رحمان ملک کی جانب سے قبائلی علا قوں میں احترام رمضان کےلیے فوجی آپریشن بند کر نے کا اعلان بھی خوش فہمی ثابت ہوا۔ اس اعلان کے بعد امریکی فوج نے پاکستانی حدود میں ازخود کاروایﺅں کانیا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ طاقت کا بے دریغ استعمال کمزور ردعمل کو بھی طاقتور بنا دیتا ہے، قبا ئلی علاقوں میں آپریشن کے دوران جدید اسلحہ کے بے دریغ استعمال اور گن شپ ہیلی کاپٹروں اور بمبار طیاروںکے مقابلے میں سستے خودکش بمبار کومزاحمت نے اپنی ڈھال بنا لیا ہے۔ جامعہ فریدیہ کی بحالی بھی درست قدم ہے۔القاعدہ او ر طالبان کے نام پر لا پتہ افراد اور ان کی عقوبت خانوں میں انسانیت سوز مظالم کی داستانیں جب قید خانوں سے باہر نکلیں تو ان کہانیوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ،قبائلی علاقوں میں لگی آگ نے پورے ملک کو بارود کے ڈھیر پر لا کھڑا کےا۔ ایسے وقت میںجب نظرےاتی حلقوںسے جاری تصادم رائے عامہ کی نظر میں عوام سے تصادم بن گیا ہے، سات سالوں کی جلتی پر تیل کامزیدچھرکاو¿نظریاتی اور عسکری قوتوں میں تصادم کی خودکش حملوںکی شکل میں ایسی راہ ہموارکر گیا ہے جو اب تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ سات سالہ دوطرفہ جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ طاقت کا بے دریغ استعمال خودکش حملہ آور پیدا کر تا ہے روک نہیں سکتا۔
email4zubair@gmail.com
[
نظریاتی اور عسکری قوتوں میں تصادم کیوں ہوا ؟نظریاتی اور عسکری قوتوں کا تصادم کسی بھی ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہوتایہ دو طاقتیں ملک کی بقاءاور سلامتی کی ضامن ہوتی ہیں۔ فوج جغرافیائی سرحدوں جبکہ نظریاتی طاقت فکری سرحدوں کی نگہبانی کرتی ہے۔نظریاتی طاقت کسی بھی ملک کی وہ وحدت ہے جس کی انگلیوں میں پوری قوم کی نبض ہوتی ہے ظاہر ہے اتنی کشش صرف مذہب میں ہی ہوسکتی ہے ۔دنیا کا کوئی ملک ان دو طاقتوں سے خالی نہیں نظریاتی طاقت کی اہمیت فوجی طاقت سے کسی طور کم نہیں، نظریاتی سرحدوں کی تبدیلی ملک کی جغرافیائی سرحدیں بدل دیتی ہے جب ہندوستان کی نظریاتی سرحدوں میں دراڑ پڑی اور فکری طاقت ہندومسلم اختلافات میں تبدیل ہوگئی تو صدیوں سے قائم ہندوستان متحد نہ رہ سکا اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی تبدیلی نے بالآخر 565 ریاستوں کے متحدہ ہندوستان کوتقسیم کر ڈالا ،خود پاکستان نظریاتی تقسیم سے دولخت ہوا ،لسانی تعصب کی وجہ سے نظریاتی طاقت اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی، اس فکری تبدیلی نے جغرافیائی سرحدیں توڑ ڈالیں اور مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔ مذہبی افراداورفوج دونوں میںحب الوطنی کی قدر مشترک ہوتی ہے۔ ان دونوںکا یہ اشتراک ملک کی بقا اور سلامتی کاضامن ہوتا ہے اگر نظریاتی اور عسکری طاقت میں تصادم ہوجائے تو ملک داخلی عدم استحکام کا شکارہوجایا کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کا پہلا مارشل لا ءایک فوجی جنرل اسکندر مرزا نے لاہور میں لگایا۔ یہ ختم نبوت جیسی حساس مذہبی تحریک کو کچلنے کےلئے تھا قیام پاکستان کے 6سال بعد 1953ءمیں یہ وہ پہلا موقع آیا جب نظریاتی اور عسکری قوتوں میں ٹکراو¿ پیدا ہوا، ختم نبوت کے دس ہزار کارکن شہید ہوئے ، ملک د اخلی عدم استحکام کا شکار ہو گیاپھروہ دن اور آج کا دن ہم اس انتشار سے باہر نہ نکل سکے۔ آج فوج اورمذہبی طاقت ایک دوسرے کے خلاف صف آراءہیں مذ ہبی لوگ انہیں افغانیوں ، پاکستانیوں کا قاتل سمجھتے ہیں ، انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں اور فوج ان عسکریت پسندوں کو پاکستان دشمن سمجھتی ہے حالانکہ پاکستان پر براوقت آئے تو انکی دشمنی اچانک ہمدردی میں بدل جائے گی اوریہ لوگ سب سے پہلے فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے ۔نظریاتی طاقت کی یہی حب الوطنی اسے ملک کی دوسری طاقت بنادیتی ہے۔
فوج اور مذہبی افراد کا یہ ٹکراو¿ ایک بار پھر 9/11سے شروع ہواجس نے افغانستان پر حملے سے شدت اختیار کرلی۔ امریکا کی دہشتگردی کے خلاف جنگ جب عملاً عالم اسلام کے خلاف جنگ بنی اور افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ پاکستان میں مذہبی قوتوں کے خلاف جنگ بن گئی توردعمل میں اسلام اور مذہب کو بچانے کی فکر نے دفاع کرنے کی ٹھان لی، امریکہ کے خلاف ساری دشمنی کا نزلہ پاکستان پر گر گیا پھر بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا،نہ جانے اس آڑ میں کس کس ملک نے گن گن کر بدلہ لیا اس کا نزلہ مذہبی افراد پر گرا جس نے مذہبی قوتوں سے حب الوطنی کی سندچھین لی اور ملزم بنا دیا ۔شک، الزام اور بیرونی دباﺅ سے شروع ہونے والے اس طوفان نے بے شمار شہریوں کی جان لے لی۔ طالبان کی کمر ٹوٹی نہ اتحادی افواج کو فتح ملی مگر پاکستان نقصان میںنیٹو اورافغانستان سے بڑھ گیا ،ہمیں بھارت جیسی دنیا کی تیسری ابھرتی طاقت کی دشمنی ورثے میں ملی مگر ہم نے خود مختاری پر آنچ نہ آنے دی۔ جب ہماری سب سے بڑی سرحد کو خطرہ لاحق ہوا ،ہم نے روس جیسے سپرپاور ملک سے ٹکر لے لی ،2ہزار 5سو کلومیٹر طویل وہ سرحد آج امریکہ کی وجہ سے ہمارے لیے غیر محفوظ ہوگئی ہے اب اس سرحد پر ہمیں 4خطروں کاسامنا ہے ۔ڈیورنڈ لائن کے اس پار بھارت کی مداخلت بڑھ گئی ہے۔ شمالی اتحاد اور افغان فوجی ریشہ درانیوں میں دن رات مصروف ہےں، نیٹو افواج کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی اور طالبان کی انتقامی کارروئیوں کاخوف ان 4خطرات نے ہمیں مسلسل گھیر رکھا ہے۔ جہاں ہم نے تین جنگوں میں ایک سپاہی کھڑانہ کیاتھا آج ہم نے وہاں 90ہزار فوج تعینات کردی ہے اس سرحد کے تحفظ کےلئے ہم نے 1ہزار سے زائدفوجیوں کی قربانی دی اورالقاعدہ،طالبان کے 7 سو72جنگجو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیے۔ جس سرحد نے روس توڑکر امریکا کو سپر پاور بننے میں مدد دی ،آج اسی سر حد کو امریکا نے ہماری کمزوری بنادیا ہے ۔ہم نے جانی، مالی اورنفسےاتی دہشت گردی کا جو نقصان اٹھاناتھا، اٹھا لیا مگر دن بدن بڑھتے امریکی مطالبات نے ہماری نظریاتی اور عسکری قوتوں کے درمیان جودیوار بنادی ہے اس سے ملک کی بقا اور سلامتی کو سخت خطرہ لاحق ہے اگر آج پھر مشرقی پاکستان کی طرح ہماری صوبائی نظریاتی سرحدیں تبدیل ہونے کو ہیں مگر ہم مزید کسی بنگلہ دیش کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہم مصر ،الجزائر، تیونس اور ترکی کی مثالوں کو فراموش نہیں کرسکتے جہان فوج توغالب آگئی لیکن داخلی استحکام آج تک واپس نہ لاسکی ۔ شاہ ایران نے مذہبی قوتوں کوکچلنے کے لیے فوج استعمال کی اورظلم کی انتہا کردی۔ عوام نے مظلوم کا ساتھ دیا اور مذہبی قوتوں نے غلبہ حاصل کرلیا ۔ایرانی انقلاب کی طرح آج پاکستان میںبھی مذہبی قوتیں مظلوم بنادی گئی ہیں ،پاکستان میں مذہبی قوتیں کمزور اور فوج غالب ہے یہاں عام حالات میںانقلاب نہیں آسکتا ۔ہوش ربا مہنگائی اور حکومت مخالف عوامی ا ضطراب کی اس نازک حالت میں اگر امریکا قبائلی علاقوں پربمباری کرتارہا تو انقلاب کی راہ ہموار ہونے میں دیر نہیں لگے گی ۔
عالمی استعماری قوتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک کی ان دوطاقتوں کو آپس میں لڑوا دیاجائے، مسلم ممالک میں مذہبی عنصر عوام پر غالب ہوتا ہے اس لیے ان دو طاقتوں کاٹکراو¿ خوفناک ہوتاہے، یہ تصادم مذہبی حلقوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ انہیںامریکا اور فوج دو محاذوں سے مخالفت کا سامنا ہے ،کوئی جنگ خواہ وہ فکری ہو یا فوجی دو محاذوں پر تنہا نہیں لڑی جاسکتی ۔امریکا کی جنگ بھی مذہبی عنصر سے خالی نہیں اس تاثر کو صدر بش کے صلیبی جنگ کے نعرے نے تقویت دی۔ امریکا کو کسی فوج سے خطرہ نہیں اسے خطرہ اگرہے تو اپنی نظریاتی طاقت کاہے جو مسلسل کمزور ہورہی ہے ، مذہب سے دوری نے اس فکری انتشار کو مزید گہرابنادیا ہے لہٰذا امریکا جب کبھی ٹوٹے گاکسی فوج سے نہیں بلکہ نظریاتی تقسیم سے ٹوٹے گا،امریکہ نے اس فکری انتشار کے خطرے کو قبل از وقت بھانپ لیا اوراس سے بچنے کے لیے اس نے دہشتگردی کے نام پر جنگ شروع کردی یوںنظریاتی انتشارکے شکار عوام کی توجہ جنگی محاذوں پر لگا دی جب یہ جنگ بے مقصد ہو کر ناکام ہونے لگی تو توہین آمیزخاکوں کا خالصتاًمذہبی مسئلہ اٹھایا گیا پھرپوپ بینی ڈیکٹ نے پیغمبر اسلام ﷺکی گستاخی کرڈالی اوریوں عیسائیت کھل کر مسلمانوں کے سامنے آگئی۔ امریکا نے اپنی عوام کو نظریاتی انتشار سے بچا لیا اورورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کوبیرونی قرار دیا جس نے قوم کے حب الوطنی کا جذبہ دوچند کردیا،امریکا نے اپنی نظریاتی سرحدیں محفوظ بناکر ہماری نظریاتی سرحدیں غیر محفوظ بنا دی ہیں ۔
سانحہ لال مسجد نظریاتی اور عسکری قوتو ں میں تصادم کی سنگین شکل بن کر سامنے آیا ۔ معمولی بات بگڑ کر بتنگڑبنی ۔مساجد کی شہادت نے مذہبی حلقوں کی نظر میںبابری مسجد کی یاد تازہ کر دی ۔ مولانا عبدالعزیز کی برقعے میں توہین ، سینکڑوںمعصوم طالبات کا قتل ، لال مسجد میں نماز کی بروقت اجازت نہ دینا ، سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجودجامعہ حفصہ اورجامعہ فریدیہ کو بحال نہ کرنے جیسی ان مسلسل غلطیوں نے رائے عامہ حکومت کے خلاف کردی۔ ان غلطیوں کا حکومت نے کوئی تدارک نہ کیا یہ عوامی غصہ الیکشن میں نکل گیا۔ نئی حکومت آئی اس کے آنے سے توقع کے برخلاف کوئی فرق نہ پڑا بلکہ فوجی آپریشن میںشدت آگئی،تب مزاحمت نے روایات توڑ ڈالیں اوراملاک ،تنصےبات کو نقصان پہچانا شروع کر دیا حالانکہ مزاحمت کی یہ کبھی روایت نہیں رہی ،یہ کام تو علیحدگی پسند بلوچستان میںکیا کر تے تھے۔ ان پانچ چھ سالوں میں عسکریت پسندوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیاتھا۔ محب وطن اور علیحدگی پسند مزاحمت میں یہ ہی فرق تھا۔
مشیر داخلہ رحمان ملک کی جانب سے قبائلی علا قوں میں احترام رمضان کےلیے فوجی آپریشن بند کر نے کا اعلان بھی خوش فہمی ثابت ہوا۔ اس اعلان کے بعد امریکی فوج نے پاکستانی حدود میں ازخود کاروایﺅں کانیا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ طاقت کا بے دریغ استعمال کمزور ردعمل کو بھی طاقتور بنا دیتا ہے، قبا ئلی علاقوں میں آپریشن کے دوران جدید اسلحہ کے بے دریغ استعمال اور گن شپ ہیلی کاپٹروں اور بمبار طیاروںکے مقابلے میں سستے خودکش بمبار کومزاحمت نے اپنی ڈھال بنا لیا ہے۔ جامعہ فریدیہ کی بحالی بھی درست قدم ہے۔القاعدہ او ر طالبان کے نام پر لا پتہ افراد اور ان کی عقوبت خانوں میں انسانیت سوز مظالم کی داستانیں جب قید خانوں سے باہر نکلیں تو ان کہانیوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ،قبائلی علاقوں میں لگی آگ نے پورے ملک کو بارود کے ڈھیر پر لا کھڑا کےا۔ ایسے وقت میںجب نظرےاتی حلقوںسے جاری تصادم رائے عامہ کی نظر میں عوام سے تصادم بن گیا ہے، سات سالوں کی جلتی پر تیل کامزیدچھرکاو¿نظریاتی اور عسکری قوتوں میں تصادم کی خودکش حملوںکی شکل میں ایسی راہ ہموارکر گیا ہے جو اب تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ سات سالہ دوطرفہ جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ طاقت کا بے دریغ استعمال خودکش حملہ آور پیدا کر تا ہے روک نہیں سکتا۔
email4zubair@gmail.com
[