خودکش حملہ آور کی پیشگی اطلاع دینے والا آلہ

فخرنوید

محفلین
امریکہ میں طالب علموں کے ایک گروپ نے چھوٹے سائز کا ایک ایسا ایجاد کیا ہے جو خودکش حملہ آوروں کے استعمال میں آنے والے ہتھیاروں کا کھوج لگا سکتا ہے۔

عراق اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کی ایک بڑی وجہ خودکش حملہ آوروں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ایسے دھماکا خیز آلات ہیں جو عام طور پر نظروں میں نہیں آتے۔

ایم ای ڈی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی کے انجنیئرنگ کے طالب علموں کی ایک ٹیم نے ایک ایسا آلہ بنانے میں کام یابی حاصل کرلی ہے جو ایک نئے طریقے سے دھماکا خیر مواد کا کھوج لگا سکتا ہے۔

طالب علموں نےہتھیلی میں آجانے والا چھوٹے سائز کا ایک ایسا میٹل ڈیٹیکٹر تیار کیا ہےجسے عام جگہوں، مثلاً کوڑے دانوں یا گل دانوں کے اندر یا میز کے نیچے یا کسی اور جگہ پر چھپایا جاسکتاہے۔ یہ آلہ ایک وائرلیس نیٹ ورک سے منسلک ہے جو مشتبہ اشیا لائے جانے کی اطلاع فوری طورپر کنٹرول روم تک پہنچا دیتا ہے۔جس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ کس جگہ اور کس وقت کسی خفیہ ہتھیار کو لایا گیا ہے۔ اور اس سے یہ بھی جاننا آسان ہوجاتا ہے کہ اسے لانے والا کون تھا۔

خفیہ ہتھیاروں کا کھوج لگانے کے لیے اس وقت جو آلات استعمال کیے جارہے ہیں، یہ نیا آلہ ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سستا ہے،اسے استعمال کرنے کے لیے بہت کم توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ نسبتاً زیادہ بڑے علاقے میں ہلاکت خیر ہتھیاروں کی نشان دہی کر سکتا ہے۔اس آلے کا وزن تقریباً ایک کلوگرام ہے۔

مشنی گن یونیورسٹی کے فضا، سمندر اور خلائی سائنس سے متعلق شعبے کے پروفیسر نیلٹن رینو کا کہنا ہے کہ ان کے طالب علموں

کے تیار کیے جانے والے اس آلے کی کارکردگی ایسے تمام ہتھیاروں اور مواد کا کھوج لگانے میں بے مثال ہے جو آج کل استعمال ہورہے ہیں۔

یہ آلہ پروفیسر رینو کی سینئر کلاس کے طالب علموں نے ڈیزائن کرکے تیار کیا ہے۔

پروفیسر رینو کا کہنا ہے کہ ان کے طالب علموں کو اس مسئلے کا اچھی طرح ادارک تھا۔ انہوں نے اس آلے کی تیاری کے لیے فوجی حکمت عملی کے انداز میں سوچااور اس کا بہترین حل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔اس آلے کو وائرلیس نیٹ ورک کے ساتھ منسلک کرکے کھلے اور بڑے علاقوں اور مختلف مقامات پر پوشیدہ ہتھیاروں کا کھوج لگانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس مقصد کے لیے متحرک وائرلیس کنٹرول سینٹر بھی بنائے جاسکتے ہیں۔

اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک طالب علم ایشون لالنڈرین نے، جنہوں نے مئی میں اپنی گریجویشن مکمل کی ہے،اس نئی ایجاد کے بارے میں بتایا کہ اس آلے میں بنیادی طورپر مقناطیسی لہروں کی پیمائش کے اصول، یا دھاتوں کا پتہ چلانے کے طریقہ کار کو استعمال میں لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آلے میں استعمال ہونے والی ہر چیز، ہارڈویئر سے لے کر سافٹ ویئرتک، سب کچھ اپنی یونیورسٹی کی لیبارٹری میں تیار کیا ہے۔

بشکریہ: وائس آف پاکستان
 

فخرنوید

محفلین
وہ تو جیسے گھر سے خبر بنا کر لاتے ہیں۔ انہوں نے بھی تو کہیں نا کہیں سے حاصل ہی کی ہے نا اور خبر پر سب کا حق ہوتا ہے۔
 

مغزل

محفلین
قوسین میں‌حوالہ دیا جاتا ہے جناب ( ثنا نیوز) ۔ ( آن لائن) ( ڈیسک) ۔۔ (اسٹاف رپورٹر) ۔۔ جو کچھ آپ کررہے ہیں وہ بددیانتی ہے ۔، صحافت نہیں۔
 
Top