خودکش حملے کیسے رکیں گے؟ ۔۔۔مشرفی نسخہ

ساجداقبال

محفلین
صدرجنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ عوام کی طاقت کے ساتھ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو شکست دی جائے گی اور عوام کے تعاون سے خود کش حملے کرنے والوں سے نمٹیں گے۔قوم متحد ہو کرانتہاپسندوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہواور ان مٹھی بھر افرادکو شکست دینے کا عزم کیا جائے جو ملک کے لئے خطرہ ہیں۔انھوں نے یہ بات کنونشن سینٹر اسلام آباد میں بیت المال کے زیر اہتمام ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کی تقریب کے دوران پنجاب کے ہزاروں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔صدر پرویز مشرف نے کہا کہ یہ اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کی جنگ ہے، عوام دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، چیلنج کا مقابلہ ہمت سے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے البتہ کوئی ایک شخص اکیلا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا، صدر نے کہا کہ عوام کی مدد کے بغیر وہ انتہا پسندوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور فوج یا پولیس بھی ایسا نہیں کرسکتی۔صدر مشرف نے کہا کہ صرف چند گمراہ عناصر خودکش حملوں اور دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑیوں کے ذریعے دہشت گردی کر کے اپنے ہی معصوم مسلمان بھائیوں کو قتل کررہے ہیں۔انھوں نے سوال کیا کہ یہ کس قسم کا اسلام ہے ، کون کہتاہے کہ اسلام کا مقصد مسلمانوں کو قتل کرنا ہے اور کیا ایسے عناصر اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔صدر مشرف نے عسکریت پسندی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے اور انتہا پسندوں کو شکست دینے کا عزم کیااور کہا کہ اللہ ان کی مدد کرے گا، کیونکہ یہ ملک اللہ ہی کی مدد سے برصغیر کے مسلمانوں نے قائم کیاتھا۔صدر مشرف نے کہا کہ انتہا پسندوں کے اقدامات ملک کی معیشت کیلئے نقصان دہ ہیں۔
--------------------------------
پتہ نہیں کس سے کہہ رہے تھے؟۔۔۔۔۔۔۔خاصا شکست خوردہ بیان ہے جرنیل جی کا۔ معیشت کو بھی بہت نقصان ہو رہا ہے، ہاں البتہ عوام کو بڑا فائدہ ہو رہا ہے ان حملوں سے۔:rolleyes:
 

ظفری

لائبریرین
ساجد بھائی ۔۔۔ اب حالات کسی اور رخ پر جا رہے ہیں ۔ اب ہمیں کنویں سے باہر نکل کر حالات کا صحیح تجزیہ کرنا پڑے گا ۔ یہاں امریکہ میں میڈیا کا وہی طرزِ عمل ہوگیا ہے جو ان کا عراق اور افغانستان پر حملے سے قبل تھا ۔ اب پاکستان کو غیر محسوس طریقے سے گھیرا جا رہا ہے ۔ مگر باریکی سے اگر دیکھا جائے تو یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ 911 کے بعد جو" کوشش " اور سازش پاکستان کے خلاف کی گئی تھی اب وہ ایک مختلف شکل میں ہمارے سامنے آرہی ہے ۔ او ر جو حکمتِ عملی امریکہ کو پاکستان سے دور رکھنے کے لیئے اختیار کی گئی تھی ۔ اس میں شگاف پڑتے نظر آرہے ہیں ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ہم خود ہیں ۔ ملک کے اندر جو حالات پیدا کیئے گئے ہیں ۔ ان کو روایتی سیاسی نگاہ سے دیکھا جائے تو حکومت ہی قصوروار نظر آتی ہے ۔ کیونکہ یہ ہمارا 60 سالہ پیچیدہ رویہ ہے ۔ جو ہماری عادت بن چکا ہے ۔ مگر جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر ہم ذرا کنویں سے باہر آکر دیکھیں تو یہ معاملہ لال مسجد اور نارتھ و ویسٹ پاکستان سے کہیں‌اور نکلتا ہوا نظر آئے گا ۔ پھر یہ بات باآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ ہم ایک بین القوامی سازش کا نشانہ بننے جا رہے ہیں ۔

خود کش دھماکوں‌کی نوعیت ، ان کے ماخذ ، وجوہات اور ان کے ٹارگٹ اسلامی احکام کی کسی بھی شق کو پورا نہیں کرتے تو پھر یہ کون لوگ جو یہ حملے کر رہے ہیں ۔ اس سے اسلام اور ملک کی کس قسم کی سالمیت اور فروغ کو تقویت پہنچ سکتی ہے ۔ عام اور معصوم شہریوں کو ان حملوں میں مار کر کس جذبے کی تسکین کی جارہی ہے ۔ عوام میں خوف وہراس اور انتشار پھیلا کر یہ لوگ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ عراق میں خود کش حملوں پر ہم نے شاید زیادہ غور نہیں کیا ہوگا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عراق پر قابض امریکن ہی ان کا نشانہ بن رہے ہیں مگر کبھی یہ بات زیرِ بحث نہیں آئی کہ ان خود کش حملوں میں 90 فیصد مسلم مارے جارہے ہیں ۔ ایسا کیوں ہورہا ہے ۔ اس کا ماخذ کیا ہے ۔ ؟

میں معافی چاہوں گا میں ہمیشہ ایسے ہی سوال یا تجزیے پیش کرتا ہوں کہ پچھلے دنوں بھی میں‌ نے " غلطی " سے 2 ایسے ٹاپک کھولے تھے جن پر ایسی بحث کی جاسکتی تھی کہ آج ملک و قوم کو جو صورتحال درپیش ہے اس کے بارے میں پہلے ہی سے کچھ اندازہ لگایا جاسکتا تھا مگر ہم سب سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پٹنے والے لوگ ہیں ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کا ذمہ دار ہمیشہ تخت نشین کو ہی ٹہراتے ہیں جبکہ یہ ہم جانتے ہیں کہ یہ تخت نشین ہم ہی میں سے ہیں اور ہم ہی ان کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر لائے ہیں ۔
 

سید ابرار

محفلین
ملاحظہ فرمائیے حضرات
یزید وقت پرویز مشرف کا تازہ ”اعلان“
musharraftb8.gif

یہ روزنامہ وقت سے ہم نے لیا ہے ،ویسے تو اس شاہی تقریر کو جناب ساجد صاحب نے لفظ بہ لفظ ذکر کردیا تھا اور ان کے ذکر کرنے کرنے کے بعد اس اخباری تراشہ کو نقل کرنے کی کوئی خاص ضرورت تھی بھی نھیں ؛ مگر ھم نے سوچا ، ممکن ہے بعد میں‌ آپ ہم پر یا جناب ساجد صاحب پر دروغ گوئی یا افترا پردازی کے الزامات لگانا شروع کردیں ، اس لئے ذکر کردیا ؛تاکہ ”سند “ رہے اور ”بوقت ضرورت“ کام آئے
 

ساجداقبال

محفلین
ظفری آپکی بات سے اتفاق کروں گا۔ ہمیں ضرور ایسے موضوعات پر بات کرنی چاہیے۔ لیکن یہاں تو لوگ سیاست کے زمرے کو پاکستانی سیاست سمجھ کر منہ نہیں لگاتے۔ انہیں ایک ہی شکوہ ہوتا ہے کہ یہاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ذاتی زندگی میں بھی کسی بات پر بحث طول پکڑ جائے تو بات کبھی کبھار ذاتیات پر آجاتی ہے؟ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، ہم اگر یکطرفہ طور پر مثبت رویوں کا مظاہرہ کریں تو کہیں نہ کہیں جاکر ذاتیات پر اُتر آنے والے کو اپنی غلطی کا احساس ضرور ہوگا۔
 

نوید

محفلین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

حکومت بوکھلاہٹ اور ضد کا شکار ہے اور وہ بھی بیک وقت
 

shahzadafzal

محفلین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

حکومت بوکھلاہٹ اور ضد کا شکار ہے اور وہ بھی بیک وقت
اور ان کی یہ بھوکھلاہٹ پاکستان کو لے ڈوبے گی!!!!!!!!!!!!!

میں سچ کہ رہا ہوں اس وقت پاکستان پر بہت کڑا وقت ہے اور اس کی ساری زمہ داری گورنمٹ پر جاتی ہے!!!!!!!!!
 

ساجداقبال

محفلین
شھزاد افضل بھائی صرف سرکار ہی ذمہ دار نہیں، ہم بھی چپ رہ کر انکو ان کے کیے گئے مضحکہ خیز فیصلوں کو سند بخشتے ہیں۔ خود ہمارا دین بھی یہ کہتا ہے کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں ویسے ہی ان پر حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔
 

رضوان

محفلین
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات اسی سمت لیجائے جارہے ہیں جیسے عراق میں امریکی حملے سے پہلے تھے اور ایسا وہی ایکشن ری پلے کرنے کیلیے کیا جارہا ہے جو عراق میں کیا گیا۔ ملا اور مزہبی ٹولہ سی آئے اے کے ہمیشہ بہت کام آیا ہے اسدفعہ تو حکمران بھی انہی کا ہے ظفری تمہاری اس بات سے کوئی ذی شعور پاکستانی متفق نہیں ہوگا
" اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کا ذمہ دار ہمیشہ تخت نشین کو ہی ٹہراتے ہیں جبکہ یہ ہم جانتے ہیں کہ یہ تخت نشین ہم ہی میں سے ہیں اور ہم ہی ان کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر لائے ہیں ۔"
" ہم "اگر عوام نہیں کوئی اور ہیں تو بات درست ہوسکتی ہے۔ حکمران ٹولے کا ایجنڈا پاکستانی عوام کو ٹکڑیوں میں بانٹ کر پاکستانی فوج ہی کیخلاف صف آرا کرنے کا ہی لگ رہا ہے اور حقیقی معنوں میں پاکستان اسوقت ایک جلتا ہوامکان ہے جسے اس کے چوکیداروں نے ہی آگ لگا دی ہے۔ انہی چوکیداروں نے یہ خودکش تیار کیے تھے اب یہ آگ پڑوسی کے گھر سے ہوتی ہوئی اپنے گھر کو بھی لگ گئی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری آپکی بات سے اتفاق کروں گا۔ ہمیں ضرور ایسے موضوعات پر بات کرنی چاہیے۔ لیکن یہاں تو لوگ سیاست کے زمرے کو پاکستانی سیاست سمجھ کر منہ نہیں لگاتے۔ انہیں ایک ہی شکوہ ہوتا ہے کہ یہاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ذاتی زندگی میں بھی کسی بات پر بحث طول پکڑ جائے تو بات کبھی کبھار ذاتیات پر آجاتی ہے؟ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، ہم اگر یکطرفہ طور پر مثبت رویوں کا مظاہرہ کریں تو کہیں نہ کہیں جاکر ذاتیات پر اُتر آنے والے کو اپنی غلطی کا احساس ضرور ہوگا۔

ساجد بھائی ۔۔۔ جس ردعمل کی آپ بات کر رہے ہیں ۔ وہ کہیں سے بھی مثبتانہ اور موثر نہیں ہے ۔ خواہ اس کا مرکز سیاسی ہو یا ذاتی ۔ اور اس کو انسانی فطرت کا کاحصہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ انسانی فطرت وہ ہے جو ہر انسان میں موجود ہو ۔ اور یہ ردعمل ہر کسی انسان کی فطرت میں پیوست نہیں ہوتا ۔ ہاں۔۔۔ ! اس کو ہم کسی انسان کے مزاج کا ایک رویہ ضرور کہیں گے ۔ جس میں اخلاق ناپید ہے ۔ اور اس میں ضد ، ہٹ دھرمی کے بھی عناصر شامل ہوں ۔ اسی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو بلاوجہ تنقید اور کسی کی ذاتیات کو نشانہ بناتے ہیں ۔ اور اس رویے میں کسی ایک فریق کی مسلسل مثبت روی سے کسی دوسرے فریق کے رویے میں تبدیلی آئے تو یہ کچھ حوصلہ افزا نہیں معلوم ہوتا ۔
اگر ہم اس رویئے کو انسان کی فطرت گردانتے ہیں تو ۔۔۔ کیونکہ فطرت کا بدلنا تقربیا ناممکن ہے جبکہ عادات و اطوار بدلے جاسکتے ہیں ‌۔

اس لیئے میں‌ تو کہتا ہوں کہ بس صبر ہی کیا جائے تو بہتر ہے :rolleyes:
 

سید ابرار

محفلین
صدرجنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ عوام کی طاقت کے ساتھ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو شکست دی جائے گی اور عوام کے تعاون سے خود کش حملے کرنے والوں سے نمٹیں گے۔قوم متحد ہو کرانتہاپسندوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہواور ان مٹھی بھر افرادکو شکست دینے کا عزم کیا جائے جو ملک کے لئے خطرہ ہیں۔انھوں نے یہ بات کنونشن سینٹر اسلام آباد میں بیت المال کے زیر اہتمام ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کی تقریب کے دوران پنجاب کے ہزاروں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔--------------------------------
[/FONT]:rolleyes:
ملاحظہ فرمائیے حضرات ، موصوف کا ”دعوی “ ہے کہ وہ ”دہشت گردوں اور انتھا پسندوں “ کو ”شکست“ دیں گے ؛ اور یہ کہ پاکستان میں اعتدال پسندوں اور انتھاپسندوں‌ میں جو ”جنگ“ ہورہی ہے ، اس جنگ میں وہ اعتدال پسندوں کے ”قائد “ ہیں‌؛
اس بیان میں کئی چیزیں ”تشنہ طلب“ ہیں ؛ مثلا یہ کہ ”دہشت گرد“ اور ”انتھا پسند“ سے موصوف کی کیا مراد ہے ؟‌اور یہ بھی کہ آخر یہ ”جنگ ”کس ”میدان“ میں لڑی جائے گی ؟ اور یہ کہ اگر وہ یہ جنگ ”ہارنے “ لگیں تو ”مدد“ کے لئے امریکہ سے فوج منگوائیں گے یا اسرائیل سے ؟ویسے انڈیا بھی قریب ہی ہے ؛
اور یہ بات بھی ”غور طلب “ ہے کہ اس مذکورہ ”جنگ “میں آخر وہ اعتدال پسندوں کے ”قائد“ کیسے بن گئے ؟ اور یہ کہ آخر انھیں ”قائد“ بنایا کس نے ہے ؟
ویسے یہ بات بھی ”سمجھ“ میں نھیں آئی کہ جو ”اعتدال پسند“ اور ”انتھا پسند“ پاکستان کے بننے سے لیکر اب تک بغیر کسی ”جنگ“ کے گذارا کررہے تھے آخر ایسی کیا چیز پیش آئی کہ یہ اعتدال پسند اور انتھاپسند ایکدوسرے کے خلاف ”صف آراء“ ہوگئے ؟
اور بھی کئی سوالات ہیں ؛ ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر عوام سے وہ کس قسم کی ”مدد“ چاہتے ہیں‌ ؟ ایک ”مدد “ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس ”جنگ“ کی ”نزاکت“ کے پیش نظر وہ ”بے روزگاری “ ، ”مھنگائی “ جیسے ”مسائل“ کا ”تذکرہ “ کرنا بند کردیں ؛ ، یا پھر ممکن ہے ”مدد“ سے یہ مراد ہو کہ اس جنگ میں جتنے ”انتھاپسندوں‌“ کو ”ھلاک“ کیا جائے گا ، چاہے ان میں‌ بچے ہو ، یا بوڑھے ؛ دوشیزائیں ہوں‌ یا نوجواں ، کسی کی لاش کو دیکھکر نہ ”رونے “ کی ضرورت ہے اور نہ ”ثبوت“ پوچھنے کی ؛ اور نہ ان کو ”شھید“ قرار دینے کی ،
یا پھر ”مدد“ سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ خود ”اعتدال پسند“ جھاں‌کھیں‌ کسی ”انتھا پسند “ کو پائیں‌، اس کو ”ھلاک“ کرکے حکومت کا ”تعاون“ کریں ،میرے خیال میں اگر “مدد“ سے یھی مراد ہو ؛تب تو ایم کیو ایم والے اس ”خدمت“ کو ”انجام“ دینے کے لئے ”بصد خوشی“ تیار ہوجائیں گے
ویسے موصوف نے یہ بھی بتانے کی ”زحمت“ گوارا نھیں کی کہ جس عظیم ”جنگ“ کا وہ آغاز کرچکے ہیں‌؛ آیا یہ جنگ اس سال کے ختم تک پوری ہوجائے گی یا پھر اس جنگ کو ختم کرنےکے لئے انھیں مزید 5 سال تک پاکستان کے تخت شاہی پر ”موجود“ رہنا ہوگا ؛ اور یہ کہ آیا بغیر ایمر جنسی ”نافذ“ کئے یہ ”جنگ “ لڑی جاسکے گی یا نھیں‌،
”سوالات“ تو اور بھی ہیں ؛ مگر سوچ رہا ہوں‌کہ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،:confused::confused::confused::confused:
 

ساجداقبال

محفلین
ساجد بھائی ۔۔۔ جس ردعمل کی آپ بات کر رہے ہیں ۔ وہ کہیں سے بھی مثبتانہ اور موثر نہیں ہے ۔ خواہ اس کا مرکز سیاسی ہو یا ذاتی ۔ اور اس کو انسانی فطرت کا کاحصہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ انسانی فطرت وہ ہے جو ہر انسان میں موجود ہو ۔ اور یہ ردعمل ہر کسی انسان کی فطرت میں پیوست نہیں ہوتا ۔ ہاں۔۔۔ ! اس کو ہم کسی انسان کے مزاج کا ایک رویہ ضرور کہیں گے ۔ جس میں اخلاق ناپید ہے ۔ اور اس میں ضد ، ہٹ دھرمی کے بھی عناصر شامل ہوں ۔ اسی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو بلاوجہ تنقید اور کسی کی ذاتیات کو نشانہ بناتے ہیں ۔ اور اس رویے میں کسی ایک فریق کی مسلسل مثبت روی سے کسی دوسرے فریق کے رویے میں تبدیلی آئے تو یہ کچھ حوصلہ افزا نہیں معلوم ہوتا ۔
اگر ہم اس رویئے کو انسان کی فطرت گردانتے ہیں تو ۔۔۔ کیونکہ فطرت کا بدلنا تقربیا ناممکن ہے جبکہ عادات و اطوار بدلے جاسکتے ہیں ‌۔

اس لیئے میں‌ تو کہتا ہوں کہ بس صبر ہی کیا جائے تو بہتر ہے :rolleyes:
ان اللہ مع الصابرین

میں نے ذاتی خیال پیش کیا تھا جس کی آپ نے اصلاح فرمائی۔شکریہ:)
 
Top