زیرک
محفلین
خودکش حکومتی معاشی پالیسیاں، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عوامی سونامی
حکومت کی سخت معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک بھر میں کاروبار قریباً بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں، آپ کسی بھی کاروباری مرکز میں چلے جائیں تمام بزنس شدید مندی کا شکار نظر آئیں گے۔ حکومت کے پاس ریونیو کو بڑھانے کا آسان طریقہ یہی رہ جاتا ہے کہ بجلی گیس کے بلز بڑھا کر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے جگاڑ کرتے ہیں۔ یوٹیلٹی بلوں، اشیاء پر ڈیوٹیز اور عام ٹیکسز میں اضافہ کرتے چلے جائیں اور وہ یہی کر رہی ہے جس سے وہ عوام سے تو ریونیو حاصل کرنے میں قدرے کامیاب ہیں، کاروباری طبقے سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا، نتیجہ کاروبار بند، ریونیو ٹھس ہو چکا ہے۔ عمران خان کے بیانات پر مت جائیں، ان کو ایک لکھی تقریر مل جاتی ہے، رٹ کر تقریری جنگ کر آتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ معیشت کا سومنات فتح کر لیا۔ اس پر جب میڈیا ان کا ساتھ نہیں دیتا تو موصوف منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے "میڈیا کو مافیا کہہ رہے ہوتے ہیں"، میڈیا کسی بھی ملک کا چوتھا بڑا ستون ہوتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ دو سال پہلے میڈیا ان کی حمایت میں نوازشریف کے خلاف جا کر ملکی معیشت کے خلاف سازش کر رہا تھا؟ ملک کا حال دیکھیں تو ہسپتالوں میں دوائیں ندارد، مریضوں کے لیے مفت دواؤں کو چھوڑیں اب تو پرچی/فیس تک کی بڑھا دی گئی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا کہ کاروبار بند ہیں، مال برداری سے منسلک مالکان، ڈرائیور اور مزدور طبقے کا یہ حال ہو چکا ہے کہ قریباً ٪30 لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں اور اگر یہی حال رہا تو اگلے 6 ماہ میں یہ تعداد ٪40 کے قریب جا سکتی ہے۔ کنسٹرکشن کا پھولتا پھلتا کاروبار تقریباً ٹھپ ہو چکا ہے، اس کاروبار سے منسلک 20 سے زائد بڑی اور 25 چھوٹی انڈسٹریز اپنا پیٹ پالتی تھیں، اب کئی گھروں میں بھوک نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ جدھر دیکھو کاروبار بند اگر اس ملک میں کچھ کھلا ہے تو صرف حکومتی وزراء کے منہ ہی کھلے ہیں۔ چلتے کاروباروں کو بند کر کے دعوے کرتے ہیں کہ "کامیاب جوان پروگرام کے تحت 100 ارب روپیہ مستحق نوجوانوں میں تقسیم کیا جائے گا جو اپنے کاروبار میں خود کفالت حاصل کرسکیں گے اور خود کفیل پاکستان کی طرف گامزن ہوں گے"۔ اللہ کرے یہ پروگرام کامیاب ہو، لیکن جو پرانے تجربے کار افراد کے چلتے کاروبار کو نہیں چلنے دیتے وہ ناتجربے کار نوجوانوں کے کاروبار کیسے چلنے دیں گے؟ نتیجہ ایک نئی نسل کو بنک کرپٹ بنانے کا پورا پورا بندوبست موجود ہے۔ کاروباری افراد میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ کاروبار وہیں پنپتا ہے جہاں اعتبار ہو اور تبدیلی سرکار پر کاروباری تو کیا عام آدمی کو بھی اعتماد نہیں رہا ہے۔ دھونس دھمکی، چھین لو، کرپشن کیسز ٹھوکو جیسے بیانات داغنے، مہنگے تیل، بجلی، گیس ،ٹیکسز ڈیوٹیز کی بھرمار میں اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کوئی کاروبار پروان چڑھ سکتا ہے تو وہ بے وقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں، ان کا حقیقی کاروباری دنیا سے کوئی لینا دینا نہیں۔ حکومتی پالیسیوں سے مہنگائی کا سونامی آیا ہوا ہے، غریب دو وقت کو چھوڑیں ایک وقت کی روٹی کو ترس گیا ہے، مگر پی ٹی آئی کی سونامی کے نعرے لگانے والوں کو غریب کی چیخوں بھری سونامی کی آوازیں نہیں آ رہیں۔ ہر حکومت کی طرح بیرونی انویسٹمنٹ پر بڑا زور دیا جاتا ہے، پہلے تو اتنی زیادہ سرمایہ کاری نہیں ہوتی، اگر ہو جاتی ہے تو حکومت اسے اپنا کارنامہ بنا کر پیش کرنے لگے جاتی ہے، یہ نہیں جانتے کی انویسٹر سٹاک ایکسچینج میں ملکی کاروبار کو ترقی دینے نہیں آتا، اپنا منافع دیکھ کر آتا ہے۔ آپ آئے دن سٹاک مارکیٹ کے کریش کی خبریں سنتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انویسٹر ایک ماحول بناتا ہے، کسی کاروبار میں خوب پیسا لگاتا ہے، جسے دیکھ کر میرے جیسے بھولے بادشاہ بھی لالچ میں آ کر اپنا پیسہ انویسٹ کرتے ہیں، لیکن ہم انویسٹر کی چال نہیں سمجھتے، جب وہ دیکھتا ہے کہ اب اچھا خاصا منافع حاصل ہو سکتا ہے تو وہ اپنا منافع نکال کر اور بعض اوقات پورا پیسا نکال کر بھاگ جاتا ہے اور سٹاک مارکیٹ دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے۔ ملک میں سٹاک مارکیٹ منافع کمانے کی جگہ ہوتی ہے، کسی ملک کو ترقی دینا ہو تو اس کی اندسٹری میں انویسٹمنٹ کی ترغیب دی جانی چاہیے، چین واحد ملک تھا جس نے پاکستانی انڈسٹری اور انفراسٹرکچر میں انویسٹمنٹ کا بیج بویا تھا، لیکن امریکی اشارے پر چند طالع آزماؤں نے سی پیک کے خلاف سازش کی جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں، جس سی پیک کو ایشین ٹائیگر بننا تھا اب اس کی گروتھ بہت سلو ہو گئی ہے، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ چین اب پاکستان سے قدرے بدگمان بھی ہوتا جا رہا ہے، اللہ کرے کہ پاک چین تعلقات بہتر ہوں لیکں پاکستان کو کچھ معاملات میں چین کے ساتھ بگاڑ پیدا نہیں کرنے چاہییں۔ بہت سے دوستوں نے مجھے دو سال پہلے پی ٹی آئی جوائن کرنے پر زور دیا لیکن میں نہیں مانا، مجھے خوشی ہے کہ میں ایک غیر جانبدار انسان ہوں، اور دوستوں کے کہے پر غلاظت کے گڑھے میں نہیں گرا۔آج وہی دوست کہتے ہیں، "تم ٹھیک کہتے تھے، یہ یو ٹرن خان ہے، ہماری سب سے بڑی غلطی ہے کہ ہم نے ایک جھوٹے انسان پر اعتماد کر کے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا، عمران خان کی معاشی ٹیم کی خودکش پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی مہنگائی کی لہر نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے، بیروزگاری حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے،سوائے کھانے پینے کی دکانوں کے باقی تمام کاروبار ختم ہوتے جا رہے ہیں اور عمران خان کہتا ہے کہ میں یوٹرن لے کر ہی تو وزیراعظم بنا ہوں، اللہ تمہیں تباہ کرے"۔ عمران خان اگر بڑھتی ہوئی مہنگائی کو نہ روکا گیا تو یاد رکھو عوام کا سونامی تیار ہے، بس بند ٹوٹنے کی دیر ہے پھر سب کچھ خس و خاشاک ہو جائے گا۔