حضور کیا خوب لمبی چوڑی گتھی ہوئی غزل ہے ماشااللہ غزل میں گہرائی کا گو شکوہ کیا جا رہا ہے حالانکہ ہم کو تو پائینچے اٹھا کر اترنا پڑ رہا ہے اور پستہ قامتوں کے واسطے ڈوب مرنے کو کافی ہے۔
خود سے بہت خفا ہوں میں، خود سے بہت جدا تھا میں
دیکھا نہیں کہ کیا ہوں میں، سوچا نہیں کہ کیا تھا میں
ارے واہ۔۔۔ کیا بات ہے حضور۔۔۔ یہی معاملہ ہے۔۔۔ اسی طرح اپنی بھی گزرتی جاتی ہے کل بدھ تھا آج جمعرات ہے، آئندہ جمعے کی امید ہے۔۔
ٹوٹ گیا، بکھر گیا، اپنے لئے تو مر گیا
تیری طرف تھا گامزن، خود سے کٹا ہوا تھا میں
ارے واہ۔۔۔ پہلے مصرعے میں کیا زوربیان صرف ہوا ہے کہ جنگ عظیم میں لندن پر ہونے والی بمباری یاد آگئی
دوسرا مصرعہ بھی خوب ہے۔۔۔
کیجے ملاحظہ ذرا، دفترِ ماہ و سالِ دل
میرا اسیر تھا یہ دل، اس میں پڑا ہوا تھا میں
ارے واہ! کیا عمر بھر کی تاریخ اسیری سمیٹی ہے آپ نے دو سطروں میں!
ہم آپ کو مرد حر کا خطاب ضرور دیتے مگر اندیشہ ہے کہ اس خطاب کے بعد آپ ہمیں آسانی سے جانے نہیں دیں گے۔
یاد نہ آ سکوں تو بول، زنگ پڑا دریچہ کھول
تیری گلی میں کون تھا، تیرے لبوں پہ کیا تھا میں
ارے واہ صاحب واہ! زنگ پڑے دریچے۔۔۔ کیا تخیل ہے!
گلی میں کون تھا، اس کا تو پتہ نہیں۔۔۔
میرا ہی احتساب تھا، میں ہی تھا محتسب کہ رات
جرم عجیب ہو گیا، خود سے نکل گیا تھا میں
بہت خوب! خود پہ پہریدار ہوں میں۔۔۔ بس ایسا چوکیدار ہوں میں۔۔۔
دیکھا، گلی میں کون ہے! کوئی نہیں ہے! آہٹیں!!
سنتا ہوں، چند سال قبل خود سے بچھڑ گیا تھا میں
اسی واسطے سونے پہلے آنکھیں ہی نہیں دروازہ بھی بند کر لینا چاہئے۔
شکوہ کروں تو کس کا میں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا میں
بہت خوب! مردم شناس ہی جو نہ تو ہوا تو امید وفا کیا اور حاصل جفا کیا۔۔۔۔
تو بھی خبر کی لہر میں بہتا چلا گیا نوید
تیرے لئے تو ٹھیک تھا، اپنے لئے برا تھا میں
حضور یہ ہم اور آپ سے لوگ اپنے ہی حق میں برے کیوں ہوتے ہیں۔۔۔۔
لیجئے صاحب ہم کی گہری غزل سے پائینچے اٹھائے نکل آئے ہیں۔۔۔ بہت خوب کلام ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!