خود کش بمباروں کی تربیت گاہ کے بارے میں چونکا دینے والے حقائق

a171-660x330.jpg

خود کش بمباروں کی تربیت گاہ کے بارے میں چونکا دینے والے حقائق
میران شاہ: یہ سرائی درپہ خیل کے اندر ایک چھوٹی گلی کے آخری سرے پر موجود عمارتوں میں سے ایک تھی۔گلی کے باہر موجود ایک گارڈ نے ہمیں بتایا کہ ‘پہلے ہم سیدھا جائیں پھر بائیں جانب ایک دروازہ آئے گا’۔

لیکن اس رہنمائی کے باوجود ہمیں بجلی کے ایک ٹرانسفارمر اور ایک بھاری بھرکم جنریٹر کی مخالف سمت میں وہ آہنی دروازہ ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئی ۔

خود کش بمباروں کی اس تربیت گاہ یا مرکز کے بارے میں صرف اطراف میں رہنے والوں کو معلوم تھا جبکہ کسی اجنبی کے لیے یہ عمارت غیر معمولی نہیں تھی۔

عمارت کے اندر داخل ہوں تو ایک صحن اور بڑے ستون نظر آتے ہیں۔ یہاں قالین بچھے ہوئے تھے جبکہ ایک طرف بستروں کا ڈھیر تھا۔ ایک زینہ ہلکے کریم اور بھورے رنگ کی بالائی منزل کو جا رہا تھا۔

ایک دیوار پر چسپاں سفید بینر پر کلمہ اور ‘امارات اسلامیہ افغانستان’ تحریر تھا۔

مقامی افراد اب بتاتے ہیں کہ یہ سرائی درپہ خیل میں حقانی نیٹ ورک کے پانچ ایسے مراکز میں سے ایک ہے، جہاں ممکنہ خود کش بمبار یا’ استشایدی ‘ آتے تھے۔

ان کی اکثریت افغان اور محسود قبیلے سے تھی لیکن اورکزئی اور مہمند سے بھی لڑکے یہاں آتے رہتے تھے۔

ان لڑکوں کی تربیت اور ان کے ذہنوں اور سوچ کو بدلنے والے اساتذہ اور مرکز چلانے والے خال ہی اس عمارت کے آہنی دروازے سے باہر دیکھے جاتے۔

سرائی درپہ خیل میں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ یہ لوگ کون ہیں، ماسوائے اس کے کہ یہ خود کش بمباروں کی تربیت گاہ ہے۔

حتی کہ ‘شہادت’ کے لیے مرکز میں لائے جانے والوں کو بھی دو مہینے کی لازمی رہائش کے بغیر یہاں سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

داخل ہونے والے تمام ‘استشاہدیوں ‘ کے لیے ایک حلف نامہ پُر کرنا لازمی تھا۔

حلف نامے پر استشہادی کی رنگین تصویر، نام، فرضی نام، والد کا نام، عمر، پتہ، تعلیم، ذاتی فون نمبر، اہل خانہ کا فون نمبر، خاندانی پیشہ، دوستوں اور ساتھیوں کے نام، والد کی ماضی اور موجودہ سیاسی وابستگیوں کی تفصیلات، اہل خانہ کی تعداد اور ان کی ماہانہ آمدنی اور عسکری سرگرمیوں کا تجربہ پوچھا جاتا تھا۔

‘استشادی ساتھیوں’ کو اپنی زندگی سات سخت اصولوں کے تحت گزارنا لازمی تھی۔

حلف نامے کے تحت انہیں موبائل فون کے استعمال کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی اس کا استعمال ضروری سمجھا جاتا تھا۔

اسی طرح، یہاں داخل ہونے والوں کو دو مہینوں تک باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، اگر جانا ضروری ہو تو اس کی پیشگی اجازت لازمی تھی۔

انہیں دوسرے ‘ فدائی بھائیوں’ کے علاوہ کسی سے دوستی کرنا منع تھا۔

اسے اپنی ذاتی استعمال کی چیزیں مرکز کے نگران کو دینا لازمی ہے اور اگر اسے کوئی ضرورت ہے تو وہ نگران سے رابطہ کرے گا۔

مقامی افراد کے مطابق، ان سب چیزوں کے علاوہ مرکز میں عبادت، روحانی اور مذہبی تربیت، کھانا پکانے کے حوالے سے سختی برتی جاتی تھی۔

ایک مقامی شخص نے بتایا کہ جب وہ اپنے بیٹے کا اتا پتہ پوچھےو مرکز آئے تو منتظم نے انہیں واپس بھیج دیا لیکن آخر کار ادھر ادھر رابطے کرنے پر مرکز نے ہچکچاتے ہوئے لڑکے کو جانے دیا۔

سرائی درپہ خیل سے کچھ دور مرکزی میران شاہ بازار آئیں تو ایک دو منزلہ عمارت نظر آتی ہے ۔ یہ کبھی لڑکیوں کا سرکاری سکول ہوا کرتا تھا۔

جب شدت پسند یہاں پہلی مرتبہ آئے اور انہوں نے سکولوں کو بموں کے ذریعے تباہ کرنا شروع کیا تو اس سکول کو خالی کرنا پڑا۔

بعد میں ہر طرح کے جنگجوؤں نے اس عمارت پر قبضہ کرتے ہوئے اسےتربیت گاہ اور لڑائی یا ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کی لاشیں رکھنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

کچھ عرصے بعد اس سکول کی 450 سے 500 لڑکیوں کو تعلیم جاری رکھنے کے غرض سے میران شاہ کے فوجی کنٹونمنٹ میں واقع ایک ڈگری کالج بھیج دیا گیا۔

حیران کن طور پر عسکریت پسندوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔
http://www.dailyausaf.com/خود-کش-بمباروں-کی-تربیت-گاہ-کے-بارے-میں/
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں یہ مانتا ہوں کہ خودکش بمبار بھی تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن کچن کارنر میں تو پھر بھی تیار نہیں ہوتا ہوگا۔
 
اسلامی شریعہ کے مطابق بچوں پر جہاد واجب نہ ہے۔جمہور فقہاء اور علماء کے نزدیک جہاد فرضِ کفایہ ہے، فرض عین نہیں کیونکہ ہر وہ چیز جو گروہ کے لیے فرض ہو ہر ایک کے لیے نہ ہو فرضِ کفایہ کہلاتی ہے۔ حنیفہ، مالکیہ اور حنابلہ اس بات پر متفق ہیں جب کہ بعض شافعی فقہاء نے بھی یہی کہا ہے۔
ویسے بھی جہاد فی سبیل اللہ صرف اور صرف حکومت کی اجازت سے ہو سکتا ہے۔جب تک حکومت وقت باقاعدہ جہاد کا حکم نہ دے تو وہ جہاد نہیں بلکہ فساد ہے۔ اس لحاظ سے طالبان کی تمام کاروائیاں فساد فی الارض کے زمرے میں آتی ہیں۔
اسلام کے قانون جنگ کا دوسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ قانونی طور پر تسلیم شدہ سیاسی حکومت کی اجازت کے بغیر طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ قانونی طور پر جائز مسلمان حکومت کی اجازت کے بغیر۔ اگر ایسی حکومت کا وجود موجود ہوتو کسی بھی ہمسایہ یا ملحقہ ملک کے خلاف حملہ یا جنگی نوعیت کی کارروائیاں نہیں کی جاسکتیں۔ ایک معروف حنفی فقیہہ اور حنفی طبقہ فکر کے بانیوں میں سے امام ابویوسف نے اس اصول کو اس پیرائے میں بیان کیا ہے: لاتسری سریۃ بغیر اذن الامام جس کا مطلب ہے’’حکومت کی اجازت کے بغیر کسی (جنگی) مہم کو روانہ نہیں کیا جاسکتا ‘‘ دوسرے فقہاء کا بھی یہی خیال ہے کہ جہاد، ریاست کے امور میں سے ایک ہے۔ جب بھی مناسب سمجھا جائے گا، ریاست جہاد شروع کرنے کا فیصلہ کرے گی خلاصہ کلام یہ کہ جہاد کا فیصلہ افراد نہیں کر سکتے۔ ایک شیعہ فقیہہ ، امام کو لینی (وفات ۹۴۱)، جنہیں شیعہ فقہ کے چار بڑے علماء میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے، کا کہنا ہے کہ جہاد کو امام یا امام کے نائب کی موجودگی کے بغیر منعقد نہیں کیا جا سکتا.
 

فلک شیر

محفلین
قبلہ اقبال جہانگیر صاحب! ایک ذاتی نوعیت کا سوال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کا شغل کیا ہے اس کے علاوہ؟
اور دو پیشہ ورانہ سوال: :)
کیا حقانی نیٹ ورک بھی خودکش حملہ آور تیار کرتا تھا؟
اگر ایسا تھا، تو بقول کسے، پاک فوج کے تزویراتی اثاثوں میں سے وہ کیونکر شامل سمجھے جاتے تھے؟
 
میں ذاتی نوعیت کے سوالات کے جوابات دینا مناسب نہیں سمجھتا مگر پھر بھی آپ کو بتاتا چلوں کہ میں ایک مقامی کالج میں پولیٹیکل سائینس پڑہاتا ہوں۔ جہان تک میرے شغل کا تعلق ہے تو میرا شغل وہی ہے جو آپ کا ہے۔
باقی ویڈیو آپ کے سامنے ہیں ،جو نتیجہ آپ نکالنا چائیں۔
 

فلک شیر

محفلین
میں ذاتی نوعیت کے سوالات کے جوابات دینا مناسب نہیں سمجھتا مگر پھر بھی آپ کو بتاتا چلوں کہ میں ایک مقامی کالج میں پولیٹیکل سائینس پڑہاتا ہوں۔ جہان تک میرے شغل کا تعلق ہے تو میرا شغل وہی ہے جو آپ کا ہے۔
باقی ویڈیو آپ کے سامنے ہیں ،جو نتیجہ آپ نکالنا چائیں۔
یعنی آپ بھی استاذ ہیں ۔
ذاتی معلومات شریک کرنے کے لیے شکرگزار ہوں :)
 
Top