"مغربی ميڈيا کا پروپيگينڈا" ايک ايسی اصطلاح ہے جس کا استعمال پاکستانی ميڈيا پر خاصہ مقبول ہے۔ اس سوچ کو تقويت اس حقيقت سے بھی ملتی ہے کہ امريکی ميڈيا عمومی طور پر دنيا بھر ميں مقبول ہے۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ امريکی ميڈيا پر جس مواد سے ايک مخصوص نقطہ نظر کی حمايت ہوتی ہے اسے استعمال کرنے ميں پاکستانی ميڈيا کوئ قباحت محسوس نہيں کرتا۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ پہلے جيو ٹی وی پر 911 کے واقعات کو سازش قرار دينے والی ايک دستاويزی فلم "لوز چينج" اردو ترجمے کے ساتھ چلائ گئ۔ ليکن اس کے مقابلے ميں اگر کوئ ايسی دستاويزی فلم تيار کی جائے جس ميں "لوز چينجز" ميں اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب سائنسی تحقيق کی روشنی ميں ديا جائے تو اسے "مغربی ميڈيا کاپروپيگينڈا" قرار ديا جاتا ہے۔
جب آپ "ميڈيا پروپيگينڈا" اور امريکی اور يہودی لابی کے نقطہ نظر کی تشہير کی بات کرتے ہيں تو آپ تصوير کا دوسرا رخ يکسر نظرانداز کر ديتے ہین۔ کيا پاکستانی ميڈيا پر امريکی نقطہ نظر اور اميج غير جانب دار انداز ميں پيش کيا جاتا ہے ؟
ميں آپ کو ايک چھوٹی سی مثال ديتا ہوں۔ 8 ستمبر کو لاہور ميں امريکی قونصليٹ کے پرنسپل آفيسر برائن ڈی ہنٹ نے پنجاب کے انسپکٹر جرنل آف پوليس شوکت جاويد کو پچاس ہزار ڈالرز کی امداد کا چيک ديا تا کہ راجن پور کے علاقے ميں سيلاب سے متاثرہ علاقوں ميں پوليس کی مدد کی جا سکے۔
http://img363.imageshack.us/my.php?image=090808picturekz5.jpg
کسی بھی اخبار ميں اس بات کا کوئ ذکر نہيں تھا۔ اسی روز ايک شاہراہ پر چاليس پچاس نوجوانوں کی جانب سے امريکی پرچم نذر آتش کرنے کا "واقعہ" رونما ہوا جس کی تصاوير تمام اخبارات کے پہلے صفحے پر موجود تھيں۔
اسی طرح اگر آپ محض گزشتہ چند روز کی مثاليں ديکھ ليں۔ 9 ستمبر کو يو – ايس – ايڈ کے مالی تعاون اور امداد سے پاکستان کے کمپيوٹرائزڈ انتخابی فہرستوں کے نظام اور يو ايس ايڈ پاکستان کے دفتر جمہوريت و حکمرانی کی امداد سے 22 اگست کو پنجاب اور سرحد اسمبليوں کی ويب سائٹس کے اجراء کے منصوبے پايہ تکميل کو پہنچے۔ يہ دونوں منصوبے پی – ايل – ايس – پی کا حصہ تھے جس کے ليے مجموعی طور پر 18 ملين ڈالرز کی رقم فراہم کی گئ۔ ليکن پاکستانی ميڈيا پر اس کا کوئ ذکر نہيں تھا۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=799353&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=799354&da=y
يہ محض چند چھوٹی سی مثاليں ہيں ليکن يہ اس حقيقت کو سمجھنے کے ليے کافی ہيں کہ پاکستانی ميڈيا کن باتوں کو خبر کا درجہ دينا ضروری سمجھتا ہے۔
آپ پاکستان کے ميڈيا، اخبارات ورسائل، کتابيں، ٹی وی پروگرامز، فلميں، اخباری کالم اور ٹی وی ٹاک شوز کا ايک سرسری جائزہ ليں اور خود فيصلہ کريں کہ کيا ان ميں کبھی امريکی نقطہ نظر بھی بيان کيا جاتا ہے؟ آج پاکستان کے درجنوں ٹی وی چينلز پر حالات حاضرہ کے بے شمار پروگراموں ميں ہر خبر کو مختلف زاويوں سے پيش کيا جاتا ہے۔ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے مجھے يہ موقع ملتا ہے کہ ميں پاکستانی ميڈيا اور اخبارات کا تفصيلی مطالعہ کروں۔ بہت کم مواقعوں پر مجھے امريکہ نقطہ نظر يا کسی موضوع کے حوالے سے عوممی تاثر کے برعکس امريکہ حکومت کا سرکاری اور غير جانب دار موقف دکھائ ديتا ہے۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ ميڈيا کو عوام کی رائے پر اثرانداز ہونا چاہيے ليکن متضاد رائے بھی سامنے آنی چاہيے تاکہ جذباتيت سے ہٹ کر ايک متوازن رائے قائم کی جا سکے۔
مغربی ميڈيا کے يکطرفہ رويے کے بارے ميں بہت کچھ کہا جاتا ہے مگر حقيقت يہ ہے کہ ميں آپ کو ايسی کئ مشہور دستاويزی فلموں اور نيوز رپورٹس کے حوالے دے سکتا ہوں جس ميں امريکی حکومت اور اس کی پاليسيوں پر کھل کر تنقيد کی جاتی ہے۔ يہ فلميں نہ صرف امريکہ کے قريب تمام نشرياتی اداروں پر چلتی ہیں بلکہ ہالی وڈ کے بڑے سٹوڈيوز کے ذريعے دنيا بھر ميں نمائش کے ليے پيش کی جاتی ہيں۔ کچھ ہدايت کار تو ايسے بھی ہيں جنھوں نے ہميشہ امريکی حکومت پر تنقيد ہی کو اپنی فلموں کا موضوع بنايا ہے اور اسی بنياد پر شہرت حاصل کی ہے۔ اس ضمن ميں مائيکل مور کی مثال دی جا سکتی ہے۔ کيا آپ پاکستانی ميڈيا پر کسی ايسی دستاويزی فلم يا نيوز رپورٹ کی مثال دے سکتے ہيں جس ميں يو – ايس – ايڈ کی امداد سے جاری فاٹا ميں ترقياتی منصوبوں سے عوام کو آگاہ کيا گيا ہو؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov