@محمد وارث بھائی سے صد فیصد اتفاق !! بھیا در اصل بات یوں ہے۔ افتخار صاحب کا جو شعر آپ نے نقل کیا اس میں حقیقی طور پر عارف کا ”ع“ گرا ہے یعنی پڑھینگے تو ”افتخارارف“ پڑھنے میں آئے گا۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے پہلے آپ کو عروض کے ارکان کو سمجھ لینا بہتر ھے۔
افتخارا فاعلاتن کے وزن پر ہے۔
پورا مصرع اس وزن پر ھے:
فاعلاتن ÷ فاعلاتن ÷ فاعلاتن ÷ فاعلن
افتخارا÷رف کے تند و ÷ تیز لہجے ÷ پرنجا
اب آئیں سلیم کوثر کے مصرعے پر جس کا وزن اقبال کے شکوہ اور جواب شکوہ والا ہے یعنی:
فاعلاتن ÷ فعلاتن ÷ فعلاتن ÷ فعلن
روزاک لہ ÷ ر اُٹھا لا ÷ تہے بے خا ÷ بی کی
اگر آپ اس میں ”اک“ کا ”ا“ نہیں پڑہیں تو مکتوبی تو غلط ہوگا ہی۔ ساتھ ملفوظی طور سے بھی غلط ہو جائے گا۔
یہاں آپ کی پریشانی کو جو میں سمجھ پایا ہوں وہ اک کے الف سے زیادہ ”روز“ کے ”ز“ میں ہے۔
روز میں ر متحرک ۔ پھر ”و“ ساکن اور ”ز“ متحرک۔ ”ز“ کو مفتوح پڑھیں اور اِک بھی پورا پڑھیں تو یہ پریشانی رفع ہو جائے گی۔
جناب مزمل صاحب
میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کی بالا باتیں سمجھ نہیں پا یا
میں نے اپنی بات کی وضاحت کردی تھی
میری کوئی پریشانی نہیں ہے جو آپ سمجھے ہیں
میں نے صرف عروض، یا شاعری ہی کی ایک اصطلاح، نقطہ ، یا زبان جوبھی کہیں، استعمال کی تھی کہ الف ادا نہیں ہو رہا ہے
کوئی لفظ کا ادا ہونا یا نہ ہونے پر یہ پہلی یا آخری گفتگو نہیں، جس دن سے شاعری با اصول ہے یا ہوئی، اُسی روز سے یہ
تلفظ کا پرکھنا بھی معرض وجود میں آیا
اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ کوئی کہے : "الف ادا ہو رہی ہے "
یعنی پوری بات یا گفتگو کا مقصد، وجہ، لب ولباب یہ ہے کہ مذکورہ حرف (جو یہاں الف ہے) فطری (جس طرح ہم گفتگو کرتے ہیں میں) ادا ہو رہی ہے یا نہیں
آپ میرے خیال میں حرف الف ادا ہو رہا کہہ رہیں ہیں، یا میری اس بات سے تضاد رکھتے ہیں کہ حرف الف ادا نہیں ہو رہا
یعنی آپ کا ووٹ ادا ہو رہا میں شمار ہوا
قطع نظران باتوں کے جناب سلیم کوثر اس اچھی غزل پر داد تو میں دے چکا
یہ بات محض اس حد تک ہی تھی کہ آیا فلاں حرف ادا ہو رہا ہے یا نہیں؟
یعنی بلند آواز کہنے یا پڑھنے کے عمل سے حرف سنائی دیتا ہے یا نہیں!
جو باالغرض معلومات کے تھی
بہت خوش رہیں