الف نظامی
لائبریرین
محترم خورشید عالم مخمور سدیدی لاہور
صوفی صاحب ریاست کپورتھلہ میں ضلع جالندھر کے ایک گاوں ٹھٹہ میں 11 پوہ ٍ1975 بکرمی بمطابق 1918 ء حاجی منشی رحمت علی صاحب کے ہاں پیدا ہوئے
حاجی صاحب کا پیشہ کتابت تھا۔ انہوں نے اپنے اس فرزند کو بھی اس فن کی تعلیم دی ، قیام پاکستان کے بعد لاہور میں خطاط الملک تاج الدین زریں رقم سے مکمل اصلاح لی۔
قبلہ صوفی صاحب کی طبیعت میں بچپن سے ہی سوز وگداز کا عنصر موجود تھا۔ اہل اللہ کی صحبتوں کی تلاش اور جستجو محبوب مشغلہ تھا۔ اپنے گاوں ٹھٹہ میں ایک برزگ جو "بابا صاحب" کے لقب سے مشہور تھے ، کی خدمت میں کثرت سے حاضری دیا کرتے جتناوقت ان کے پاس بیٹھتے ، خاموشی سے ان کی گفتگو سنتے۔
قیام پاکستان کے بعد لاہور میں مختلف اخبارات میں ملازمت رہی ، جن میں روزنامہ غالب ، آفاق ، کوہستان ، امروز اور نوائے وقت قابل ذکر ہیں۔ امروز کی ملازمت کے دوران حافظ محمد یوسف صاحب سدیدی مرحوم سے ان کے شیخ کامل حضرت خواجہ غلام سدید الدین رحمۃ اللہ علیہ کے حالات اکثر سنتے۔ حافظ صاحب بتاتے کہ ہمارے شیخ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہنساتے بھی بہت ہیں اور رلاتے بھی بہت ہیں۔
ایک مرتبہ بابو عبد الرشید صاحب نظامی کے گھر صوفی صاحب کی ملاقات حافظ صاحب کے شیخ سے ہوئی۔ حافظ صاحب نے تعارف کراتے ہوئے یہ بتایا کہ صوفی صاحب ذوق شعر بھی رکھتے ہیں۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ سیال شریف میں ایک تقریب ہو رہی ہے اس کی مناسبت سے صوفی صاحب شعر لکھ کر دیں۔ اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوفی صاحب نے بابا صاحب مذکور کے کہنے پر شعر کہنا ترک کیا ہوا تھا۔ لیکن اسی رات حضرت شیخ کے حکم کی برکت سے ایسی آمد ہوئی کہ بہت سے اشعار موزوں کر کے خدمت شیخ میں پیش کر دئیے۔ حضرت شیخ نے پوچھا کہ تخلص کیا ہے؟ صوفی صاحب نے "زاہد" بتلایا ۔ آپ نے فرمایا کہ زاہد کے بجائے "نشتر یا مخمور" رکھ لیں۔ چنانچہ صوفی صاحب نے مخمور کا انتخاب کر لیا۔
1955ء میں بیعت کے متعلق حافظ صاحب کے مکان پر حضرت شیخ کی خدمت میں گذارش کی۔ آپ نے فرمایا "آپ کی استعداد بہت بلند ہے" لہذا آپ کی بیعت میں اپنے شیخ حضرت شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ سے کراوں گا۔ صوفی صاحب نے عرض کی "آپ کے ہاتھ بھی ان کے ہاتھ ہیں"
یہ لطیف جواب سن کر حضرت نے بیعت سے نواز لیا
بیعت کے بعد صوفی صاحب کی طبیعت میں ایک عجب ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی اور یہ کیفیت ان کی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔ گھر سے باہر کھیتوں میں نکل جاتے اور کئی کئی گھنٹے بےخودی میں گزر جاتے ، کئی روز کے بعد طبیعت سنبھلی اور پھر مزاج میں خاموشی کا رجحان بہت زیادہ ہو گیا۔
عاشقی چیست بگو بندہ جاناں بودن
دل بدست دگرے بودن و حیراں بودن
بیعت کے وقت صوفی صاحب نے خدمت شیخ میں درخواست کی کہ بندہ کی ایک خواہش بچپن سے ہے اور اس کے لئے سورۃ مزمل کا ورد بھی کر رہا ہوں کہ زیارتِ رخِ مصطفیٰ ﷺ ہو جائے۔
یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے صوفی صاحب کی کیفیت دیدنی تھی ، بار بار فرماتے کہ اگر آپ نے لکھنا ہو تو یہ وضاحت ضرور کریں کہ بطورِ تحدیث نعمت میں نے بیان کیا ہے تعلی اور خود نمائی قطعا مقصود نہیں۔
حضرت شیخ نے اس عظیم خواہش کے جواب میں فرمایا کہ یہ ایک وہبی معاملہ ہے۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں اور میں بھی دعا کروں گا اور ایک خط میں اس مقصد کے لئے وظیفہ بھی لکھا ہے جو کہ ناظرین آئندہ صفحات میں دیکھ سکتے ہیں۔
بیعت کے کچھ سالوں بعد کی بات ہے۔ صوفی صاحب معظم آباد میں رمضان شریف میں حاضر تھے ، رات کو نصیب جاگا اور آواز سنائی دی کہ تمہاری دیرینہ آرزو پوری ہوگئی ، حضور سرور کونینﷺ کمرہ میں جلوہ افروز ہیں ، ایک صحابی جن کا قد مبارک چھوٹا ہے ، لوگوں کو زیارت کروا رہے ہیں ، صوفی صاحب نے بتلایا کہ میں نے ان کی خدمت میں التجا کی کہ بارگاہِ نبوت میں میرا نہ بتانا کہیں شامتِ اعمال سے اجازت نہ ملے۔ جب حاضری کی سعادت ملی تو میں نے حضور دوعالم ﷺ کے مقدس ہاتھوں کو بوسہ دیا اور آپ ﷺ نے کرم فرماتے ہوئے میری دونوں آنکھوں پر اپنے وما رمیت اذ رمیت والے ہاتھ ملے ، انہی مقدس ہاتھوں کی برکت سے آج تک میری نظر بہت اچھی ہے۔
پھر بارگاہ سید کونین میں پہنچا
یہ ان کا کرم ، ان کا کرم ، ان کا کرم ہے
صبح اپنے شیخ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا۔ شیخ نے اس صحابی کا اسم گرامی بھی بتلایا ، لیکن صوفی صاحب کا کہنا ہے کہ میرے حافظہ میں اب نہیں رہا
صوفی صاحب نے اس موقع پر ایک غزل بھی لکھی تھی جو من و عن ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔
اس حاضری کے بعد صوفی صاحب جب معظم آباد سے رخصت ہونے لگے اور اپنے شیخ کی دست بوسی کی تو یہاں بھی ان ہاتھوں میں وہی رات والی لطافت نفاست اور نزاکت تھی ، صوفی صاحب سے برداشت نہ ہو سکا اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔
بیعت کے کچھ عرصہ کے بعد صوفی صاحب کو حضرت شیخ نے اسماء سبعہ کی تلقین کی اور فرمایا "تجھ سے ایک کام لینا ہے" صوفی صاحب نے عرض کی حضور! میں کسی بوجھ اٹھانے کے قابل بالکل نہیں ، مجھے تو اپنی خدمت میں ہی قبول رکھیں۔
اسماء سبعہ کی تکمیل زکوۃ کے بعد سالانہ عرس مبارک پر 1957ء میں صوفی صاحب کو بارِ امانت سپرد کر دیا گیا۔
صوفی صاحب کہتے ہیں کہ جس وقت مجھے دستار باندھی گئی ، وہ لمحہ میری زندگی کا حاصل ہے ، اس وقت جو کیف اور مستی نصیب ہوئی وہ رشکِ زیست ہے ، اس ساعت میں جو مئے پاشی ہوئی وہ باعثِ فخر ہے۔
صوفی صاحب کے متعلق اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن طوالت کے خوف سے ان سطور پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ خود مکتوبات میں صوفی صاحب کے مقام پر کافی روشنی پڑتی ہے ، اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ کے ہاں صوفی صاحب کی کس قدر جگہ ہے۔
ان خطوط میں سلوک کے اعلی ترین مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ تصوف کی بنیادی اصطلاحات کو بڑے خوبصورت اور سلیس پیرائے میں بیان کیا گیا ہے جن کو قارئین خود مطالعہ کر کے حظ اٹھا سکیں گے اور ان کی برکتوں سے مالا مال ہو سکیں گے۔
تھا مرے پیشِ نظر حسنِ حرم آج کی رات
میں تھا اور زلف کی زنجیر کا خم آج کی رات
لیلۃ القدر میں جاگا ہے مقدر اپنا
شاہِ خوباں نے کیا لطف و کرم آج کی رات
دست بوسی کا شرف بخشا مجھے جی بھر کر
ہوگئے دور سبھی رنج و الم آج کی رات
روئے انور پہ تھی کیا بردِ یمانی کی جھلک
چاندنی اور ملاحت تھی بہم آج کی رات
پھول کی پتیاں رخسارِ حسیں پر قرباں
روئے زیبا پہ تصدق تھا ارم آج کی رات
رشک فردوس ہوا خانہ ء ویراں میرا
میرے گھر میں تھے وہ پرنور قدم آج کی رات
جامِ کوثر سے پلائی تھی مجھے ساقی نے
ہیچ تھا میرے لئے ساغرِ جم آج کی رات
عجب انداز سے چھلکا ترا جام اے مخمور
دیدہ ء شوق تھا آلودہ ء نم آج کی رات
27 رمضان المبارک
1387 ھ شب شنبہ
(مکتوباتِ سدیدیہ ، مرتب کردہ محمد معظم الحق محمودی ،خانقاہ معظمیہ ، معظم آباد شریف ، ضلع سرگودھا ،صفحہ 11)
صوفی صاحب ریاست کپورتھلہ میں ضلع جالندھر کے ایک گاوں ٹھٹہ میں 11 پوہ ٍ1975 بکرمی بمطابق 1918 ء حاجی منشی رحمت علی صاحب کے ہاں پیدا ہوئے
حاجی صاحب کا پیشہ کتابت تھا۔ انہوں نے اپنے اس فرزند کو بھی اس فن کی تعلیم دی ، قیام پاکستان کے بعد لاہور میں خطاط الملک تاج الدین زریں رقم سے مکمل اصلاح لی۔
قبلہ صوفی صاحب کی طبیعت میں بچپن سے ہی سوز وگداز کا عنصر موجود تھا۔ اہل اللہ کی صحبتوں کی تلاش اور جستجو محبوب مشغلہ تھا۔ اپنے گاوں ٹھٹہ میں ایک برزگ جو "بابا صاحب" کے لقب سے مشہور تھے ، کی خدمت میں کثرت سے حاضری دیا کرتے جتناوقت ان کے پاس بیٹھتے ، خاموشی سے ان کی گفتگو سنتے۔
قیام پاکستان کے بعد لاہور میں مختلف اخبارات میں ملازمت رہی ، جن میں روزنامہ غالب ، آفاق ، کوہستان ، امروز اور نوائے وقت قابل ذکر ہیں۔ امروز کی ملازمت کے دوران حافظ محمد یوسف صاحب سدیدی مرحوم سے ان کے شیخ کامل حضرت خواجہ غلام سدید الدین رحمۃ اللہ علیہ کے حالات اکثر سنتے۔ حافظ صاحب بتاتے کہ ہمارے شیخ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہنساتے بھی بہت ہیں اور رلاتے بھی بہت ہیں۔
ایک مرتبہ بابو عبد الرشید صاحب نظامی کے گھر صوفی صاحب کی ملاقات حافظ صاحب کے شیخ سے ہوئی۔ حافظ صاحب نے تعارف کراتے ہوئے یہ بتایا کہ صوفی صاحب ذوق شعر بھی رکھتے ہیں۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ سیال شریف میں ایک تقریب ہو رہی ہے اس کی مناسبت سے صوفی صاحب شعر لکھ کر دیں۔ اس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوفی صاحب نے بابا صاحب مذکور کے کہنے پر شعر کہنا ترک کیا ہوا تھا۔ لیکن اسی رات حضرت شیخ کے حکم کی برکت سے ایسی آمد ہوئی کہ بہت سے اشعار موزوں کر کے خدمت شیخ میں پیش کر دئیے۔ حضرت شیخ نے پوچھا کہ تخلص کیا ہے؟ صوفی صاحب نے "زاہد" بتلایا ۔ آپ نے فرمایا کہ زاہد کے بجائے "نشتر یا مخمور" رکھ لیں۔ چنانچہ صوفی صاحب نے مخمور کا انتخاب کر لیا۔
1955ء میں بیعت کے متعلق حافظ صاحب کے مکان پر حضرت شیخ کی خدمت میں گذارش کی۔ آپ نے فرمایا "آپ کی استعداد بہت بلند ہے" لہذا آپ کی بیعت میں اپنے شیخ حضرت شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ سے کراوں گا۔ صوفی صاحب نے عرض کی "آپ کے ہاتھ بھی ان کے ہاتھ ہیں"
یہ لطیف جواب سن کر حضرت نے بیعت سے نواز لیا
بیعت کے بعد صوفی صاحب کی طبیعت میں ایک عجب ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی اور یہ کیفیت ان کی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔ گھر سے باہر کھیتوں میں نکل جاتے اور کئی کئی گھنٹے بےخودی میں گزر جاتے ، کئی روز کے بعد طبیعت سنبھلی اور پھر مزاج میں خاموشی کا رجحان بہت زیادہ ہو گیا۔
عاشقی چیست بگو بندہ جاناں بودن
دل بدست دگرے بودن و حیراں بودن
بیعت کے وقت صوفی صاحب نے خدمت شیخ میں درخواست کی کہ بندہ کی ایک خواہش بچپن سے ہے اور اس کے لئے سورۃ مزمل کا ورد بھی کر رہا ہوں کہ زیارتِ رخِ مصطفیٰ ﷺ ہو جائے۔
یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے صوفی صاحب کی کیفیت دیدنی تھی ، بار بار فرماتے کہ اگر آپ نے لکھنا ہو تو یہ وضاحت ضرور کریں کہ بطورِ تحدیث نعمت میں نے بیان کیا ہے تعلی اور خود نمائی قطعا مقصود نہیں۔
حضرت شیخ نے اس عظیم خواہش کے جواب میں فرمایا کہ یہ ایک وہبی معاملہ ہے۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں اور میں بھی دعا کروں گا اور ایک خط میں اس مقصد کے لئے وظیفہ بھی لکھا ہے جو کہ ناظرین آئندہ صفحات میں دیکھ سکتے ہیں۔
بیعت کے کچھ سالوں بعد کی بات ہے۔ صوفی صاحب معظم آباد میں رمضان شریف میں حاضر تھے ، رات کو نصیب جاگا اور آواز سنائی دی کہ تمہاری دیرینہ آرزو پوری ہوگئی ، حضور سرور کونینﷺ کمرہ میں جلوہ افروز ہیں ، ایک صحابی جن کا قد مبارک چھوٹا ہے ، لوگوں کو زیارت کروا رہے ہیں ، صوفی صاحب نے بتلایا کہ میں نے ان کی خدمت میں التجا کی کہ بارگاہِ نبوت میں میرا نہ بتانا کہیں شامتِ اعمال سے اجازت نہ ملے۔ جب حاضری کی سعادت ملی تو میں نے حضور دوعالم ﷺ کے مقدس ہاتھوں کو بوسہ دیا اور آپ ﷺ نے کرم فرماتے ہوئے میری دونوں آنکھوں پر اپنے وما رمیت اذ رمیت والے ہاتھ ملے ، انہی مقدس ہاتھوں کی برکت سے آج تک میری نظر بہت اچھی ہے۔
پھر بارگاہ سید کونین میں پہنچا
یہ ان کا کرم ، ان کا کرم ، ان کا کرم ہے
صبح اپنے شیخ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا۔ شیخ نے اس صحابی کا اسم گرامی بھی بتلایا ، لیکن صوفی صاحب کا کہنا ہے کہ میرے حافظہ میں اب نہیں رہا
صوفی صاحب نے اس موقع پر ایک غزل بھی لکھی تھی جو من و عن ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔
اس حاضری کے بعد صوفی صاحب جب معظم آباد سے رخصت ہونے لگے اور اپنے شیخ کی دست بوسی کی تو یہاں بھی ان ہاتھوں میں وہی رات والی لطافت نفاست اور نزاکت تھی ، صوفی صاحب سے برداشت نہ ہو سکا اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔
بیعت کے کچھ عرصہ کے بعد صوفی صاحب کو حضرت شیخ نے اسماء سبعہ کی تلقین کی اور فرمایا "تجھ سے ایک کام لینا ہے" صوفی صاحب نے عرض کی حضور! میں کسی بوجھ اٹھانے کے قابل بالکل نہیں ، مجھے تو اپنی خدمت میں ہی قبول رکھیں۔
اسماء سبعہ کی تکمیل زکوۃ کے بعد سالانہ عرس مبارک پر 1957ء میں صوفی صاحب کو بارِ امانت سپرد کر دیا گیا۔
صوفی صاحب کہتے ہیں کہ جس وقت مجھے دستار باندھی گئی ، وہ لمحہ میری زندگی کا حاصل ہے ، اس وقت جو کیف اور مستی نصیب ہوئی وہ رشکِ زیست ہے ، اس ساعت میں جو مئے پاشی ہوئی وہ باعثِ فخر ہے۔
صوفی صاحب کے متعلق اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن طوالت کے خوف سے ان سطور پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ خود مکتوبات میں صوفی صاحب کے مقام پر کافی روشنی پڑتی ہے ، اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ کے ہاں صوفی صاحب کی کس قدر جگہ ہے۔
ان خطوط میں سلوک کے اعلی ترین مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ تصوف کی بنیادی اصطلاحات کو بڑے خوبصورت اور سلیس پیرائے میں بیان کیا گیا ہے جن کو قارئین خود مطالعہ کر کے حظ اٹھا سکیں گے اور ان کی برکتوں سے مالا مال ہو سکیں گے۔
تھا مرے پیشِ نظر حسنِ حرم آج کی رات
میں تھا اور زلف کی زنجیر کا خم آج کی رات
لیلۃ القدر میں جاگا ہے مقدر اپنا
شاہِ خوباں نے کیا لطف و کرم آج کی رات
دست بوسی کا شرف بخشا مجھے جی بھر کر
ہوگئے دور سبھی رنج و الم آج کی رات
روئے انور پہ تھی کیا بردِ یمانی کی جھلک
چاندنی اور ملاحت تھی بہم آج کی رات
پھول کی پتیاں رخسارِ حسیں پر قرباں
روئے زیبا پہ تصدق تھا ارم آج کی رات
رشک فردوس ہوا خانہ ء ویراں میرا
میرے گھر میں تھے وہ پرنور قدم آج کی رات
جامِ کوثر سے پلائی تھی مجھے ساقی نے
ہیچ تھا میرے لئے ساغرِ جم آج کی رات
عجب انداز سے چھلکا ترا جام اے مخمور
دیدہ ء شوق تھا آلودہ ء نم آج کی رات
27 رمضان المبارک
1387 ھ شب شنبہ
(مکتوباتِ سدیدیہ ، مرتب کردہ محمد معظم الحق محمودی ،خانقاہ معظمیہ ، معظم آباد شریف ، ضلع سرگودھا ،صفحہ 11)