محب علوی
مدیر
ممتاز خطاط خورشید عالم گوہر قلم نے فن خطاطی کا آغاز بہت کم عمر میں کیا اور پھر اس مقام پر جا پہنچے کہ ممتاز نقادوں نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اپنی لگن کی بدولت بےشمار اعزازات حاصل کیے ، ان کے استاد محترم جناب حافظ محمد یوسف سدیدی نے ان کے فن کو دیکھ کر تحریر کیا تھا کہ گوہر قلم کا فن دیکھا تو احساس ہوا کہ پاکستان میں اچھی مشق ہو رہی ہے اور اگر ایسے ہی جاری رہی تو ضرور پاکستان کا نام روشن ہوگا۔ گوہر قلم نے ٤٠٦ اقسام قلم میں قرآن مجید تحریر کیا ، کا وزن ٤٠ من ہے اور جسے اسلام آباد کی فیصل مسجد میں تیس الگ لاگ شو کیسوں میں رکھا گیا ہے۔ اس قرآن مجید کے بارے میں ممتاز مفکر ڈاکٹر مسعود احمد پی ایچ ڈی نے تحریر کیا ہے کہ قرآن کیا ہے ایک چمنستان ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ماہر خطاط نے ہر خط پر برسوں ریاض کیا ہو۔ ایک ہی خطاط کے قلم سے اتنے رسوم الخطوط کا لکھا جانا سخت حیران کن ہے ، یہ کمال کسبی نہیں وہبی معلوم ہوتا ہے۔ یہ قرآن مجید خطاطی کے لحاظ سے عجیب تر نمونہ ہے اور اس کو ایک اہم قومی ورثے کی حیثیت حاصل ہے ، صدر مملکت نے انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا ہے کو بلاشبہ پاکستان کا ایک اعلی ترین اعزاز ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ گوہر قلم بجا طور پر اس اعزاز کے مستحق ہیں۔ ١٩٨٨ میں انہوں نے سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے حکم سے مالدیپ کا دورہ کیا اور صدر مالدیپ ، گوہر قلم کی خطاطی سے بہت متاثر ہوئے اور جناب گوہر قلم کو تحریری خراج تحسین پیش کیا۔ گوہر قلم نے فن خطاطی پر مختلف کتابیں بھی تحریر کی ہیں جن میں جواہر القلم ، نقاش القرآن ، عجائب القرآن ، نقش گوہر اور فن خطاطی شامل ہیں۔