خوشبو بدوش (غزلیات/نظمیں)

دائم جی

محفلین
اس لڑی میں، میں اپنی غیر مطبوعہ و مطبوعہ تمام غزلیں، نظمیں، نعتیں اور دیگر شعری اصناف کی تُک بندیاں پوسٹ کیا کروں گا۔ ان شاء اللہ
 

دائم جی

محفلین
نعت بہ حضور سید الابرار ﷺ

آدھی موت کی تلخ تھکن میں روح کا ہر ہر اَنگ بھرا
نیم حیاتی کے بے رنگ دریچوں میں اِک رنگ بھرا

ڈولتے قدموں کی جھنکار سے راہِ وفا کچھ حیراں تھی
حسنِ توازن سے کسؐ نے مقیاس کا ہر پاسنگ بھرا

خیمۂ ذہن میں کیفِ تصور سے کیا کیا تابانی ہوئی
خانقہِ دل میں اُس اسمؐ نے خوب ہرا ارژنگ بھرا

اُن کی ہجو بھی نعت سرا ہے جن مکروہ سرشتوں نے
سینۂ نور پہ آلِ نبی کے آہ انبوہِ خدنگ بھرا

سطحِ خیال کے گدلے پن کو صیقل کرکے سیّدؐ نے
تابِ یقیں سے بحمد اللہ مرا دلِ کم آہنگ بھرا

بادِ منادی! لے اُڑ اسے بہ وسیلۂ ہادی سوے فلاح
کسل اندازی کا اس خاک میں دائمؔ عذرِ لنگ بھرا

غلام مصطفیٰ دائم​
 

دائم جی

محفلین
دوسرے جنم کی تلاش

زیاں کاری کے اک جغرافیے میں
نئی تہذیب کا وہ آدمی ہوں میں کہ جس پر قرنوں کی پھیلی سفاہت کے تعاقب کا علی الاعلان الزامِ جنوں ہے
مجھے آنکھوں کے ہر ہر حاشیے کی گھپ اندھیری منزلوں کا راہ رَو بننے کی سازش میں ملایا جا چکا ہے
مجھے رسمِ تمرّد کی سپہ کاری کا منصب سونپ کر مجھ ہی سے میرا قتل کروایا گیا ہے
مری ہر جنبشِ رگ اضطرابِ بے نفَس کی نا سزا واری میں کب سے جُت چکی ہے
مرا ہر خود گزیدہ فعل مجھ سے منصبِ آوارگی کی حرص کے عوضانے میں مصدور فرمایا گیا ہے
تمام آفاق میری بے تمیزی کے شفق سے جل کے کالے ہو چکے ہیں
مگر میرے اصولوں کی سیہ تابی نے اپنے فوجیوں کے اسلحوں سے امن کی چادر میں رخنہ کر دیا ہے
لہو کے جوہرِ لعلیں کے نرخوں کو پرائے پتھروں سے نیچ کرکے کھوکھلی بنجر زمیں میں دفن کر ڈالا گیا ہے
میں اب خاموشیوں کے بےصدا زنداں نمائے دل کی گہرائی سے بالکل بے خبر ہوں
وہ دھاگے جو مجھے مہر و وفا کے سلسلوں سے باندھ رکھتے تھے وہ اب اک موئے آتش دیدہ کی رنگت میں بالکل ڈھل گئے ہیں
زمیں سے استواری کے تعلق کے سبھی رشتوں نے باگیں کھینچ کر مجھ کو ہوا میں اس طرح لٹکا دیا ہے
کہ سر پر نُہ سپہرِ عافیت کا سائباں ہے اور نہ قدموں میں طنابِ ارض کی وارستگی ہے
اصولِ زندگی کے دفترِ نوخیز کے ہر صفحے پر یہ لفظ کندہ ہیں:
”تکلم جرم ہے“، ”جينا سزا ہے“، ”آگہی تقصیر ہے“، اور ”وقت قاتل ہے“
بزورِ تیغ مجھ سے ان گراں سنج آیتوں کے نقش پر ایمان لانے کا کہا جاتا رہا ہے
مگر میں اس نئی تہذیب کے ہر قاتلانہ آئینِ ناگفتہ بِہ کو روندنے کی جرأتِ رندانہ کا آدیش پانا چاہتا ہوں
مجھے اہرامِ پارینہ میں دفن آبا پرستی کی تمازت خیز آتش میں نئے دورِ تفاخر کا تکلم ڈالنا ہے
مجھے آنکھوں کے گہرے حاشیوں میں ”علم را برتن زنی مارے بُود“ کی لوح کا متن اس طرح سے نقل کرنا ہے؛
کہ اشکوں میں نمازِ جلوۂ حق آشنا کی کُل ادائی ہر ادائے بندگی میں طے نظر آئے
وفا کیشی سے لبریز اہلِ دل کی قربتوں میں پھر سے حاضر ہو کے اپنے عہد کی نسلوں کے ایماں کو بچانا ہے
مجھے انسان بننا ہے
مجھے اِس دور کی ہر خلوتِ مخفی سے ظاہر ہو کے یوں تحلیل ہونا ہے
کہ روحِ آدمی سے جسمِ آدم زاد کا ہم رنگِ خوں رشتہ جُڑا جائے
سبھی ارضی قراطیسوں پہ اپنے لمس کی تحریر یوں لکھنی ہے گویا وہ مرا ہی صفحۂ تقدیر بن جائے
مجھے وہ لفظ دھو کر اپنے حقّ خود ارادیت کی سطریں ثبت کرنی ہیں جہاں پر یہ لکھا ہو: ”جرم ہے جینا“
مجھے جینے کی جعلی نقل میں روح اس طرح آباد کرنی ہے کہ آبِ زندگانی بھی دوامِ ذات کی مجھ سے سند پائے
مجھے اس دورِ نوآباد سے اپنے تعلق کے تمام آئینے پتھر پر پٹخنے ہیں
کہ میں وہ عکس بھی آنکھوں کی چشمک سے بُھلا دوں جو مجھے اس رسم سے باندھے ہوئے ہے:
”تکلم جرم ہے“، ”جينا سزا ہے“، ”آگہی تقصیر ہے“، اور ”وقت قاتل ہے“

غلام مصطفیٰ دائمؔ​
 

دائم جی

محفلین
”خشک گلاب کی خوشبو“

چاہے صدیوں کے تازیانے بھی
تیز شعلوں کے آفروزے بھی
آفتابی شعاع زادے بھی
آتشک کے مہیب لاٹے بھی
یورش انداز ہوں بہم
پھر بھی
پوششِ احمریں کے پردے میں
دائمیؔ نکہت آفرینی سے
گل محبّت کا تازہ رہتا ہے

دائمؔ
 

دائم جی

محفلین
غزل

عشق کی ناہنجار رُتوں نے کالی گپھا میں سر مارا
کار سے یوں بے کار ہوئے ہم کیسی بلا میں سر مارا

دستِ جنوں کی خیر، نئی وحشت کا گھرانہ سرد نہ ہو
سنگِ درِ جاناں نہ ملا، یاروں نے ہوا میں سر مارا

وقت کی شاطر چالوں کے تھے پھیرے سو سو راہ پڑے
ایڑ ملی جب، بہروں نے ہنگام سرا میں سر مارا

خطۂ راز کے ہرکارے سر پھیر پکڑ کر بیٹھے ہیں
تابِ نفَس کے راہیوں نے جب دشتِ بقا میں سر مارا

لرزش ہر ہر پور سے جنباں جسم سرائے سماعت میں
دائمؔ گریۂ شب نے کیا اِس کوہِ ندا میں سر مارا

غلام مصطفیٰ دائم اعوان​
 
Top