سید لبید غزنوی
محفلین
خوشونت سنگھ کے گائوں میں چند گھنٹے
تاثیر مصطفی
برصغیر کے دو غیر مسلم صحافیوں نے بڑی شہرت پائی۔ دونوں پنجابی تھے۔ دونوں نے 100 سال کی عمر پائی۔ دونوں مسلمانوں میں بڑے مقبول تھے اور دونوں کا انتقال اسی دہائی میں ہوا۔ ان میں ایک تھے ایف ای چودھری،معروف فوٹوجرنلسٹ اور 65 کی جنگ کے ایک ہیرو سیسل چودھری کے والد وہ ہوشیار پور پنجاب کے رہنے والے تھے اور انہوں نے 70 سال سے زائد عرصہ تک تصویری صحافت کی۔ لاہور کے صحافتی حلقوں میں بڑے احترام سے ان کا نام لیا جاتا ہے۔ لاہور پریس کلب کا
لائف ممبرز روم ان ہی کے نام سے منسوب ہے۔ ایک زمانے میں وہ صرف ایک ووٹ کی کمی سے لاہور پریس کلب کے صدر نہ ہو سکے تھے۔ وہ مذہباً عیسائی تھے۔ مگر مسلمانوں میں بے حد قابل قبول بلکہ بعض لوگوں کا تو یہ بھی خیال تھا کہ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات اور محبت کئی مسلمانوں سے زیادہ تھی۔ انہوں نے قائد اعظم اور اقبال دونوں کو بطور جرنلسٹ کور کیا اور دونوں رہنمائوں کو سیکولر نہیں بلکہ اچھے مسلمان قرار دیتے تھے۔
برصغیر کے دوسرے صحافی خوشونت سنگھ تھے۔ جن کا دو تین ہفتے قبل ہی دہلی میں دیہانت ہوا۔ ان کی عمر 99 سال تھی۔ ان کی جنم بھومی ہڈالی ضلع سرگودھا تھی جو اب ضلع خوشاب میں شامل ہے۔ انہوں نے بطور صحافی، ناول نگار، سیاستدان اتنی شہرت پائی کہ اتنی شہرت بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔ وہ جرأت مندی کے ساتھ 70 سال سے زیادہ عرصہ صحافت کی وکٹ پر ڈٹے رہے دو تین بار دہلی پریس کلب کے صدر رہے وہ وسیع الشرب انسان تھے۔ اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے قائل تھے ۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو تقسیم ہند کے وقت سکھوں کی زیادتیوں کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ ان کی مشہور زمانہ کتاب ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ میں بھی یہ اعتراف موجود ہے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کے آغاز میں ہی علامہ اقبال کے شکوہ اور جواب شکوہ کا انگریزی ترجمہ کر لیا تھا۔ وہ سکھ ہونے کے باوجود گوشت خور تھے اور مرنے سے قبل انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ مرنے کے بعد ان کی لاش کو سکھ مذہب کے مطابق جلانے کے بجائے مسلمانوں کے انداز میں دفنا دیا جائے۔ لیکن شاید مسلمان انہیں اپنے قبرستان میں دفن کرنے پر رضا مند نہیں تھے جس پر انہوں نے پارسیوں کے انداز میں اپنی لاش کا کریا کرم کرنے کو کہا مگر ایسا بھی نہ ہو سکا جس کے بعد دہلی میں ان کی چتا جلا دی گئی۔
خوشونت سنگھ کے بہت سے پاکستانی ادیبوں، صحافیوں اور سیاستدانوں کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ وہ ان کے ساتھ خط ٹیلی فون اور ای میل کے ذریعے رابطہ میں بھی رہتے تھے۔ اور جو کوئی مشہور پاکستانی دہلی جاتا خوشونت سنگھ کی میزبانی سے ضرور لطف اندوز ہوتا۔ وہ عام طور پر اپنے مسلمان اور خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کو چائے کے ساتھ کباب ضرور پیش کرتے۔ اور خود بھی نوش کرتے۔ لوگ حیرت سے پوچھتے کہ آپ سکھ ہوتے ہوئے گوشت کھاتے ہیں تو وہ جواب دیتے کہ یہ تو گائے، بکرے یا مرغی کا گوشت ہو گا مجھے تو یار لوگوں نے تھائی لینڈ میں پیٹ بھر کر کتے کا گوشت کھلا دیا تھا اور پھر ذرا توقف سے کہتے ویسے یار وہ گوشت تھا بہت لذیز۔
اس خوشونت سنگھ کے گائوں والوں (اہل ہڈالی ضلع خوشاب) نے اپنے گائوں کے اس معروف سپوت کی یاد میں گزشتہ ہفتے تعزیتی ریفرنس رکھا۔ یہ ریفرنس اسی گورنمنٹ ہائی سکول ہڈالی میں رکھا گیا جہاں خوشونت سنگھ نے پرائمری تعلیم مکمل کی تھی اور اسی گائوں کے بزرگوں کی ایک بڑی تعداد اس ریفرنس میں موجود تھی جہاںکی کچی پکی گلیوں میں خوشونت سنگھ نے اپنے بچپن اور ابتدائی جوانی کے دن گزارے تھے۔ ریفرنس کی خوبی یہ تھی کہ اس میں سکول کے تمام سابق ہیڈماسٹرز بھی موجود تھے۔ جو سکول کے قائم مقام ہیڈ ماسٹر رانا فاروق کے حسن انتظام اور اپنے سینئرز کے ساتھ بہترین تعلق کی عکاسی تھی۔ رانا فاروق سے ایک ہفتہ قبل ہی لاہور میں تنظیم اساتذہ کی میڈیا ورکشاپ میں میری ملاقات ہوئی تھی۔ اس ریفرنس کا اہتمام ہڈالی کے ایک سماجی کارکن اور لکھاری محمد علی اسد بھٹی نے کیا تھا وہ اس ریفرنس کے لیے لاہور بھی تشریف لائے اور معروف کالم نگار۔ دانشور اور سوشل سائنٹسٹ فرخ سہیل گوئندی کو ہڈالی آنے پر راضی کرلیا۔ فرخ سہیل گوندی نے راقم کو بھی اس ریفرنس میں چلنے کی دعوت جو کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔چنانچہ ہم فرخ سہیل گوئندی کی قیادت میں ہڈالی پہنچے تو اندازہ ہوا کہ ہڈالی کے لوگ اپنے اس سپوت سے کس قدر پیار کرتے ہیں اس غریب گائوں کے بوسیدہ سے سکول میں گائوں والوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر انتظامات کر رکھے تھے۔ یہ سکول ہڈالی کی سکھ برادری کے سرکردہ رہنما سردار گوپال سنگھ نے 1827ء میں قائم کیا تھا۔ اس وقت کی بلڈنگ کے کچھ آثار ابھی تک موجود ہیں۔ جنہیں اب محفوظ کر لیا جانا چاہئے۔ سکول کا بڑا ہال جہاں یہ تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا 1865ء میں تعمیر ہوا تھا۔ چھوٹی اینٹ اور موٹی موٹی دیواروں سے بنا یہ ہال ابھی تک گارڈرز اور کڑیوں کی پرانی چھت کو سنبھالے ہوئے ہے۔ پورا ہال اب خاصا بوسیدہ ہو چکا ہے۔ تقریب کے دوران ہیڈ ماسٹر رانا فاروق نے یہ تکلیف دہ بات بھی بتائی کہ پورے گائوں کا سیوریج کا پانی سکول کی گرائونڈ میں آ کر گرتا ہے اور پھر ہفتوں سڑانڈ پیدا کر تا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے سکول کی گرائونڈ میں دلدل کی کیفیت بن گئی ہے اسی سکول سے معروف اینکر پرسن سہیل وڑائچ کے والد مرحوم چودھری فیض سرور سلطان بھی سالہاسال بطور سینئر ٹیچر وابستہ رہے ہیں اور جب 1980ء کی دہائی میں ان کا انتقال ہوا تو وہ اسی سکول میں پڑھا رہے تھے اس حیثیت میں جناب سہیل وڑائچ بھی اس تقریب میں مدعو تھے مگر وہ اچانک کسی مصروفیت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ تعزیتی ریفرنس کی صدارت ڈی سی او خوشاب عامر اعجاز اکبر نے کی۔ نظامت کے فرائض ہیڈ ماسٹر رانا فاروق نے خوش اسلوبی سے ادا کئے جب کہ سابق ناظم ہڈالی محمد طاہر اعوان نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر فرخ سہیل گوئندی۔ ملک حبیب نواز ٹوانہ سابق وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل، پروفیسر خالد جیلانی، محمد علی اسد بھٹی، راقم اور دیگر نے خطاب کیا، فرخ سہیل گوئندی نے جناب خوشونت سنگھ کے ساتھ دہلی میں اپنی تفصیلی ملاقاتوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ خوشونت سنگھ اپنے گائوں ہڈالی کو ’’ہوکوں‘‘ (ٹھنڈی آہیں بھر کر) کے ساتھ یاد کرتے تھے۔ وہ اہل پنجاب اور اہل پاکستان کے ساتھ بے پناہ پیار کرتے تھے اور مذہب، رنگ اور نسل سے بالاتر ہو کر انسانوں سے محبت کے قائل تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں ان کے آبائی گائوں ہڈالی ہی میں دفنایا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ تقریب سے معروف بھارتی صحافی کلدیب نایئر نے ٹیلی فونک خطاب کیا۔ اپنے پنجابی زبان کے خطاب میں انہوں نے خوشونت کو اپنا استاد قرار دیا اور انہیں بے مثال صحافی اور لا جواب انسان کہا۔
محمد علی اسد بھٹی نے بتایا کہ وہ چند سال قبل چندی گڑھ گئے جہاں سے انہوں نے خوشونت سنگھ کو فون کیا کہ وہ ان سے ملنے کے خواہش مند ہیں لیکن ویزا کی پابندی کی وجہ سے ملاقات مشکل ہے۔ خوشونت سنگھ اس وقت شملہ میں تھے۔ انہوں نے فون پر کہا ’’فکر نہ کر جوانا‘‘ اور اگلے دن وہ خود چندی گڑھ پہنچ گئے اور سارا دن ان کے ساتھ گزارا حالانکہ محمد علی اسد بھٹی کے مطابق ان کی نہ تو خوشونت سنگھ سے کوئی دوستی تھی نہ وہ علمی یا دنیاوی میدان میں ان کے ہم پلہ تھے۔ صرف ہڈالی کی مٹی کی محبت انہیں شملہ سے چندی گڑھ کھینچ لائی تھی۔ اس موقع پر ڈی سی پی خوشاب عامر اعجاز اکبر نے خوشونت سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے سکول میں گرنے والے سیوریج کے گندے پانی کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سکول کے قدیم تاریخی ہال کو خوشونت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے اور اس کی تعمیر و مرمت کا بھی اعلان کیا۔ جب کہ فرخ سہیل گوئندی نے سکول میں خوشونت سنگھ لائبریری قائم کرنے کا وعدہ کیا۔ جس کے لیے جناب سہیل وڑائچ نے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اس طرح ایک غیر ملکی اور غیر مسلم کی یاد میں مسلم ویلفیئر سوسائٹی ہڈالی کی منعقدہ یہ تقریب ا اختتام کو پہنچی
اس تقریب کے اگلے روز ہی ڈی سی او خوشاب جناب عامر اعجاز اکبر کے حکم پر مقامی حکام نے سکول کا دورہ کیا اور سکول کی گرائونؑڈ میں مٹی ڈال کر اسے اونچا کرنا شروع کر دیا اس طرح سکول میں سیوریج کا پانی جمع ہونا بند ہو جائے گا ۔جو ایک اچھا اور قابل ستائش اقدام ہے ادھر محمد علی اسد بھٹی نے اطلاع دی ہے کہ برطانیہ میں پاکستان کے سابق سفیر خلیفہ اعجاز نے دہلی میں خوشونت کی آخری رسومات میں شرکت کے بعد ہڈالی میں اس سکول کا اپنی بیگم کے ساتھ دورہ کیا اور خوشونت کی چتا کی راکھ سکول انتظامیہ کے حوالے کی اور سکول ہال پر خوشونت سنگھ ہال کی تختی آویزا ں کردی ہے
تاثیر مصطفی
برصغیر کے دو غیر مسلم صحافیوں نے بڑی شہرت پائی۔ دونوں پنجابی تھے۔ دونوں نے 100 سال کی عمر پائی۔ دونوں مسلمانوں میں بڑے مقبول تھے اور دونوں کا انتقال اسی دہائی میں ہوا۔ ان میں ایک تھے ایف ای چودھری،معروف فوٹوجرنلسٹ اور 65 کی جنگ کے ایک ہیرو سیسل چودھری کے والد وہ ہوشیار پور پنجاب کے رہنے والے تھے اور انہوں نے 70 سال سے زائد عرصہ تک تصویری صحافت کی۔ لاہور کے صحافتی حلقوں میں بڑے احترام سے ان کا نام لیا جاتا ہے۔ لاہور پریس کلب کا
لائف ممبرز روم ان ہی کے نام سے منسوب ہے۔ ایک زمانے میں وہ صرف ایک ووٹ کی کمی سے لاہور پریس کلب کے صدر نہ ہو سکے تھے۔ وہ مذہباً عیسائی تھے۔ مگر مسلمانوں میں بے حد قابل قبول بلکہ بعض لوگوں کا تو یہ بھی خیال تھا کہ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات اور محبت کئی مسلمانوں سے زیادہ تھی۔ انہوں نے قائد اعظم اور اقبال دونوں کو بطور جرنلسٹ کور کیا اور دونوں رہنمائوں کو سیکولر نہیں بلکہ اچھے مسلمان قرار دیتے تھے۔
برصغیر کے دوسرے صحافی خوشونت سنگھ تھے۔ جن کا دو تین ہفتے قبل ہی دہلی میں دیہانت ہوا۔ ان کی عمر 99 سال تھی۔ ان کی جنم بھومی ہڈالی ضلع سرگودھا تھی جو اب ضلع خوشاب میں شامل ہے۔ انہوں نے بطور صحافی، ناول نگار، سیاستدان اتنی شہرت پائی کہ اتنی شہرت بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔ وہ جرأت مندی کے ساتھ 70 سال سے زیادہ عرصہ صحافت کی وکٹ پر ڈٹے رہے دو تین بار دہلی پریس کلب کے صدر رہے وہ وسیع الشرب انسان تھے۔ اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے قائل تھے ۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو تقسیم ہند کے وقت سکھوں کی زیادتیوں کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ ان کی مشہور زمانہ کتاب ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ میں بھی یہ اعتراف موجود ہے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کے آغاز میں ہی علامہ اقبال کے شکوہ اور جواب شکوہ کا انگریزی ترجمہ کر لیا تھا۔ وہ سکھ ہونے کے باوجود گوشت خور تھے اور مرنے سے قبل انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ مرنے کے بعد ان کی لاش کو سکھ مذہب کے مطابق جلانے کے بجائے مسلمانوں کے انداز میں دفنا دیا جائے۔ لیکن شاید مسلمان انہیں اپنے قبرستان میں دفن کرنے پر رضا مند نہیں تھے جس پر انہوں نے پارسیوں کے انداز میں اپنی لاش کا کریا کرم کرنے کو کہا مگر ایسا بھی نہ ہو سکا جس کے بعد دہلی میں ان کی چتا جلا دی گئی۔
خوشونت سنگھ کے بہت سے پاکستانی ادیبوں، صحافیوں اور سیاستدانوں کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ وہ ان کے ساتھ خط ٹیلی فون اور ای میل کے ذریعے رابطہ میں بھی رہتے تھے۔ اور جو کوئی مشہور پاکستانی دہلی جاتا خوشونت سنگھ کی میزبانی سے ضرور لطف اندوز ہوتا۔ وہ عام طور پر اپنے مسلمان اور خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کو چائے کے ساتھ کباب ضرور پیش کرتے۔ اور خود بھی نوش کرتے۔ لوگ حیرت سے پوچھتے کہ آپ سکھ ہوتے ہوئے گوشت کھاتے ہیں تو وہ جواب دیتے کہ یہ تو گائے، بکرے یا مرغی کا گوشت ہو گا مجھے تو یار لوگوں نے تھائی لینڈ میں پیٹ بھر کر کتے کا گوشت کھلا دیا تھا اور پھر ذرا توقف سے کہتے ویسے یار وہ گوشت تھا بہت لذیز۔
اس خوشونت سنگھ کے گائوں والوں (اہل ہڈالی ضلع خوشاب) نے اپنے گائوں کے اس معروف سپوت کی یاد میں گزشتہ ہفتے تعزیتی ریفرنس رکھا۔ یہ ریفرنس اسی گورنمنٹ ہائی سکول ہڈالی میں رکھا گیا جہاں خوشونت سنگھ نے پرائمری تعلیم مکمل کی تھی اور اسی گائوں کے بزرگوں کی ایک بڑی تعداد اس ریفرنس میں موجود تھی جہاںکی کچی پکی گلیوں میں خوشونت سنگھ نے اپنے بچپن اور ابتدائی جوانی کے دن گزارے تھے۔ ریفرنس کی خوبی یہ تھی کہ اس میں سکول کے تمام سابق ہیڈماسٹرز بھی موجود تھے۔ جو سکول کے قائم مقام ہیڈ ماسٹر رانا فاروق کے حسن انتظام اور اپنے سینئرز کے ساتھ بہترین تعلق کی عکاسی تھی۔ رانا فاروق سے ایک ہفتہ قبل ہی لاہور میں تنظیم اساتذہ کی میڈیا ورکشاپ میں میری ملاقات ہوئی تھی۔ اس ریفرنس کا اہتمام ہڈالی کے ایک سماجی کارکن اور لکھاری محمد علی اسد بھٹی نے کیا تھا وہ اس ریفرنس کے لیے لاہور بھی تشریف لائے اور معروف کالم نگار۔ دانشور اور سوشل سائنٹسٹ فرخ سہیل گوئندی کو ہڈالی آنے پر راضی کرلیا۔ فرخ سہیل گوندی نے راقم کو بھی اس ریفرنس میں چلنے کی دعوت جو کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔چنانچہ ہم فرخ سہیل گوئندی کی قیادت میں ہڈالی پہنچے تو اندازہ ہوا کہ ہڈالی کے لوگ اپنے اس سپوت سے کس قدر پیار کرتے ہیں اس غریب گائوں کے بوسیدہ سے سکول میں گائوں والوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر انتظامات کر رکھے تھے۔ یہ سکول ہڈالی کی سکھ برادری کے سرکردہ رہنما سردار گوپال سنگھ نے 1827ء میں قائم کیا تھا۔ اس وقت کی بلڈنگ کے کچھ آثار ابھی تک موجود ہیں۔ جنہیں اب محفوظ کر لیا جانا چاہئے۔ سکول کا بڑا ہال جہاں یہ تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا 1865ء میں تعمیر ہوا تھا۔ چھوٹی اینٹ اور موٹی موٹی دیواروں سے بنا یہ ہال ابھی تک گارڈرز اور کڑیوں کی پرانی چھت کو سنبھالے ہوئے ہے۔ پورا ہال اب خاصا بوسیدہ ہو چکا ہے۔ تقریب کے دوران ہیڈ ماسٹر رانا فاروق نے یہ تکلیف دہ بات بھی بتائی کہ پورے گائوں کا سیوریج کا پانی سکول کی گرائونڈ میں آ کر گرتا ہے اور پھر ہفتوں سڑانڈ پیدا کر تا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے سکول کی گرائونڈ میں دلدل کی کیفیت بن گئی ہے اسی سکول سے معروف اینکر پرسن سہیل وڑائچ کے والد مرحوم چودھری فیض سرور سلطان بھی سالہاسال بطور سینئر ٹیچر وابستہ رہے ہیں اور جب 1980ء کی دہائی میں ان کا انتقال ہوا تو وہ اسی سکول میں پڑھا رہے تھے اس حیثیت میں جناب سہیل وڑائچ بھی اس تقریب میں مدعو تھے مگر وہ اچانک کسی مصروفیت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ تعزیتی ریفرنس کی صدارت ڈی سی او خوشاب عامر اعجاز اکبر نے کی۔ نظامت کے فرائض ہیڈ ماسٹر رانا فاروق نے خوش اسلوبی سے ادا کئے جب کہ سابق ناظم ہڈالی محمد طاہر اعوان نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر فرخ سہیل گوئندی۔ ملک حبیب نواز ٹوانہ سابق وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل، پروفیسر خالد جیلانی، محمد علی اسد بھٹی، راقم اور دیگر نے خطاب کیا، فرخ سہیل گوئندی نے جناب خوشونت سنگھ کے ساتھ دہلی میں اپنی تفصیلی ملاقاتوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ خوشونت سنگھ اپنے گائوں ہڈالی کو ’’ہوکوں‘‘ (ٹھنڈی آہیں بھر کر) کے ساتھ یاد کرتے تھے۔ وہ اہل پنجاب اور اہل پاکستان کے ساتھ بے پناہ پیار کرتے تھے اور مذہب، رنگ اور نسل سے بالاتر ہو کر انسانوں سے محبت کے قائل تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں ان کے آبائی گائوں ہڈالی ہی میں دفنایا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ تقریب سے معروف بھارتی صحافی کلدیب نایئر نے ٹیلی فونک خطاب کیا۔ اپنے پنجابی زبان کے خطاب میں انہوں نے خوشونت کو اپنا استاد قرار دیا اور انہیں بے مثال صحافی اور لا جواب انسان کہا۔
محمد علی اسد بھٹی نے بتایا کہ وہ چند سال قبل چندی گڑھ گئے جہاں سے انہوں نے خوشونت سنگھ کو فون کیا کہ وہ ان سے ملنے کے خواہش مند ہیں لیکن ویزا کی پابندی کی وجہ سے ملاقات مشکل ہے۔ خوشونت سنگھ اس وقت شملہ میں تھے۔ انہوں نے فون پر کہا ’’فکر نہ کر جوانا‘‘ اور اگلے دن وہ خود چندی گڑھ پہنچ گئے اور سارا دن ان کے ساتھ گزارا حالانکہ محمد علی اسد بھٹی کے مطابق ان کی نہ تو خوشونت سنگھ سے کوئی دوستی تھی نہ وہ علمی یا دنیاوی میدان میں ان کے ہم پلہ تھے۔ صرف ہڈالی کی مٹی کی محبت انہیں شملہ سے چندی گڑھ کھینچ لائی تھی۔ اس موقع پر ڈی سی پی خوشاب عامر اعجاز اکبر نے خوشونت سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے سکول میں گرنے والے سیوریج کے گندے پانی کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سکول کے قدیم تاریخی ہال کو خوشونت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے اور اس کی تعمیر و مرمت کا بھی اعلان کیا۔ جب کہ فرخ سہیل گوئندی نے سکول میں خوشونت سنگھ لائبریری قائم کرنے کا وعدہ کیا۔ جس کے لیے جناب سہیل وڑائچ نے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اس طرح ایک غیر ملکی اور غیر مسلم کی یاد میں مسلم ویلفیئر سوسائٹی ہڈالی کی منعقدہ یہ تقریب ا اختتام کو پہنچی
اس تقریب کے اگلے روز ہی ڈی سی او خوشاب جناب عامر اعجاز اکبر کے حکم پر مقامی حکام نے سکول کا دورہ کیا اور سکول کی گرائونؑڈ میں مٹی ڈال کر اسے اونچا کرنا شروع کر دیا اس طرح سکول میں سیوریج کا پانی جمع ہونا بند ہو جائے گا ۔جو ایک اچھا اور قابل ستائش اقدام ہے ادھر محمد علی اسد بھٹی نے اطلاع دی ہے کہ برطانیہ میں پاکستان کے سابق سفیر خلیفہ اعجاز نے دہلی میں خوشونت کی آخری رسومات میں شرکت کے بعد ہڈالی میں اس سکول کا اپنی بیگم کے ساتھ دورہ کیا اور خوشونت کی چتا کی راکھ سکول انتظامیہ کے حوالے کی اور سکول ہال پر خوشونت سنگھ ہال کی تختی آویزا ں کردی ہے