السلام علیکم۔استادِ محترم کیسے مزاج ہیں۔
شذرہ: حاضری لگوانے کے لیے حاضر ہوا ہوں
جزاک اللہ کیسی طبیعت ہے آپ کی؟w
و علیکم السلام ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ p
شان دار!!!بات احساس کی ہے
چند ہفتے قبل چھٹی کے دن میں اور میرا دوست کافی پینے اور چہل قدمی کرنے نکلے - حسبِ عادت ہم کافی تیز چل رہے تھے
ایک موڑ پر ہمارے سامنے ایک بزرگ لاٹھی ٹیکتے آہستہ آہستہ چلتے جارہے تھے ہم نے انھیں پاس کرکے آگے نکل جانا تھا
اچانک ان سے چند قدم پیچھے میرادوست رُک گیا اور میرا بازو پکڑکر مجھے بھی روک لیا- میں نے پوچھا خیریت کیا کچھ بھول آئے ہو
کیونکہ اس کے چہرے پرتفکر اورسنجیدگی کے گہرے تاثرات تھے- کہنے لگا نہیں بس ذرا آہستہ چلو ہمیں کوئی جلدی نہیں چہل قدمی
کرنے ہی تو نکلے ہیں - میں پوچھا ہاں لیکن تمھیں یہ اچانک کیسے خیال آگیا ؟ اس نے جواب دیا ذرا ان بزرگ کو دیکھو جو چلنے میں
دقت محسوس کررہے ہوں گے لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں ہم جو یوں برق رفتاری سے ان سے آگے نکل جائیں گے
تو ان کے دل میں ملال نہ آجائے اپنی بے بسی ، بیماری اور ناتوانی کا احساس نہ ہوہمیں یوں تیزی سے چلتے دیکھ کر-
بد قسمت ہیں وہ لوگ، جو ان کی زندگی میں ان کی قدر نہیں کرتے۔والدین اولاد کے لیے ایک انمول سرمایہ ہیں۔ان کے بغیر زندگی بے کیف ہے۔
آپ کی اس بات پر مجھے بھی اپنے بچپن کا وہ وقت یاد آگیا جب کاغذ کے چھوٹے چھوٹے لفافوں میں گھر کا سودا سلف آیا کرتا تھا اور کوئی بہت ہی کم مقدار کی چیز ہوتی تو اخبار کے تراشے میں لپٹی ہوتی ہم سامان نکال کر اسے بڑے احترام سے کھولتے تاکہ پھٹ کر پڑھنے سے رہ نہ جائے پھر اسے بغور پڑھتے اس وقت تک اچھی طرح اردو لکھ پڑھ لیتے تھے اگر وہ بچوں کی کہانی کا کوئی صفحہ ہوتا تو سمجھو اس سے بڑھ کر خوشی نہ ہوتی ، یا پھر کوئی معلومات ہوتی تو بھی سب کو پڑھاتے جیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگا ہو ،اور آخر کار اسے سنبھال رکھتے کہ کسی اور کے کام بھی آجائے گا ۔ آج اتنی کتابیں جا بجا بکھری پڑی ہیں اور تقریبا! ہر بچے کی پہنچ میں ہیں لیکن وہ رغبت نہیں ہے کتابوں سے دوری اور معلوماتَ عامہ کا فقدان ، لمحہ فکریہ ہے1965 سے پہلے کی بات ہے، میں اُن دنوں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ گھر (گاؤں) سے سکول (شہر) تک کوئی 5 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ راستے میں ایک اور گاؤں پڑتا تھا۔ اپنا آنا جانا پیدل ہی ہوا کرتا۔ گاؤں کی آبادی، نہر کا پل، کچی سڑک، پھر کھیتوں کے بیچوں بیچ پگڈنڈی، پھر بیچ والا گاؤں جس میں پکے مکان نسبتاً زیادہ تھے، پھر ادھ پکی سڑک، پھر ایک اور نہر کی پٹڑی جس پر سکول کا پچھلا پھاٹک کھلتا تھا۔ روز کا معمول یہی تھا، سویرے سویرے روٹی کھا کر سکول جانا ہوتا، تپتی دوپہر کو گھر کی طرف واپسی۔ سردیوں میں دھوپ بھلی لگتی اور گرمیوں میں بھی کھیتوں، درختوں وغیرہ کی وجہ سے دھوپ کی شدت کا احساس تو نہ ہوتا، تاہم پسینہ اپنا راستہ بنا لیتا۔
اسی طرح کی ایک دوپہر، سکول سے واپسی پر کھیتوں کے بیچ پگڈنڈی پر پڑے کاغذ کے ایک لفافے نے توجہ کھینچ لی جس پر چکنائی کے داغ تھے۔ کسی نے پکوڑے خریدے ہوں گے، راہ چلتا کھاتا گیا ہو گا، جہاں پکوڑے ختم ہو گئے لفافہ وہیں ڈال دیا۔ موٹے سفید کاغذ پر کالی روشنائی میں کچھ شعر چھپے ہوئے تھے، اور یہی بات میری توجہ کھینچ گئی۔
چلتے چلتے لفافہ اٹھایا، اس کو احتیاط سے کناروں کے ساتھ ساتھ پھاڑا، کھولا تو کھلا کہ کسی ادبی رسالے کا ورق ہے۔ ایک طرف نظم تھی، عنوان وغیرہ کا تو کچھ پتہ نہیں، لکھا کچھ ایسا تھا کہ:
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
اور ہوا کا پاگل جھونکا
یوں ہی اپنی دھُن میں کھویا
نگر نگر سے اک اک گھر سے
سوکھے سبز اور (آگے یاد نہیں) پتے ۔۔۔ لے کر ۔۔۔ اُڑتا جائے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
دوسری طرف ایک غزل تھی۔ آج تقریباً 50 سال بعد بھی اس کے دو شعر من و عن یاد ہیں:
گلشن گلشن دام بہت ہیں۔۔۔ شاعر کا نام مت پوچھئے گا۔ تب اتنا شعور ہی نہیں تھا کہ شاعر کا نام کتنا اہم ہوتا ہے۔
اب یہ منظر عام بہت ہیں
مے خانے آباد ہیں دل کے
ٹوٹے پھوٹے جام بہت ہیں
محب علوی ، محمد وارث ، الف عین ، محمد خلیل الرحمٰن ، سید شہزاد ناصر ، نیلم ، منیر انور ، اور دیگر صاحبان و صاحبات۔