بزم خیال
محفلین
قانون ساز ادارے عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے قانون سازی کے بل پیش کرتے ہیں۔جنہیں باری باری دونوں ایوانوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔ جہاں بحث و تمحیص کے بعد دو تہائی اکثریت سے منظوری کی آزمائش سے گزرنا ہوتاہے۔ اخبارات الگ سے ان کے قابل عمل ہونے یا نہ ہونے پر مناظرے کراتے ہیں۔جہاں علم و دانش رکھنے والے اپنی اپنی عقل کے مطابق اس کے حق یا مخالفت میں رائے زنی کرتے ہیں۔۱۹۷۳ کے آئین پاکستان میں کی گئی ترامیم کا عوام کو کیا فائدہ پہنچا ۔ یہ عوام کی بگڑتی معاشی و اقتصادی اور معاشرتی و سماجی صورتحال سے عیاں ہے۔قانون ساز ادارے حکومتی اختیارات میں کبھی اضافہ تو کبھی کمی سے بغلیں بجاتے رہے۔مگر عوام بچوں کی طرح منہ میں خالی چوسنی لئے دودھ بھرے فیڈر کے انتظار میں کبھی ایک کا منہ دیکھتے تو کبھی دوسرے کا۔آخر میں لالی پوپ ہی سے گزارا کرنے کی عادت نے انہیں صبر و شکر کی بجائے برداشت کرنے کا خوگر بنا دیا۔جس کی زندہ جاوید اور تازہ مثال ماضی قریب کی پارلیمنٹ کے اجلت میں پاس کئے گئے قوانین کی مثال ہیں۔جس میں سرفہرست سپیکر صاحبہ کا اپنے لئے حاصل کی گئی تاحیات مراعات ہیں جو عوام کے خون پسینہ سے کمائی گئی کمائی سے ہمیشہ ادا کی جاتی رہیں گی۔۷۷ کروڑ کے قرضہ کی معافی تو کسی کھاتے میں ہی نہیں۔اپنے ہاتھوں سے اپنی دولت لٹانے والی ایسی زندہ دل قوم شائد کسی اور ملک کے نصیب میں نہیں۔ جس نے لوٹنے والوں کو بار بار دعوت یلغار دی ہو۔
کابل کے حکمران ظہیرالدین بابر نے ۱۵۲۶ میں جب ابراہیم لودھی کو شکست دی تو ہندوستان کے خزانے سے کابل کے ہر فرد کو ایک ایک اشرفی بانٹی گئی تھی۔ مگر آج کا حکمران کتنا خودغرض ہے کہ وہ لوٹے گئے مال سے ایک روپیہ بانٹنا بھی گناہ سمجھتا ہےیا وہ پاکستان کے عوام کو کابل کے عوام سے زیادہ خوددار جانتا ہے کہ وہ ورلڈ بینک سے خیرات تو لے لیں گے مگرلوٹے ہوئے مال کو اپنے لئے حرام سمجھتے ہیں۔اسی لئے وہ لوٹا ہوا ایک ایک روپیہ بحفاظت اپنے کاروبار اور وارثوں میں بانٹ دیتے ہیں۔جن پر قوم بری نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتی۔
سیاسی ہمدردوں کی دل آزاری میرا مقصود نہیں بلکہ الیکشن کی آمد آمد ہے تو ایک مضمون جو میری نظر سے گزرا اس کے چند اقتباس سب کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔
یہ ۸ نومبر ۱۸۶۴ کے امریکی انتخابات میں ابرہام لنکن کی کامیابی کا احوال ہے ۔ جب سیاسی پنڈتوں نے لنکن کی شکست پر مہر ثبت کر دی تھی۔ انتخابات میں حیران کن کامیابی کے بعد صدر لنکن نے ایوان نمائندگان سے 13ویں ترمیم منظور کرانا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔امریکہ کی تاریخ کا سنگین ترین بحران مسئلہ غلامی کے باعث پیدا ہوا تھا۔ اب وہ اپنے تمام تر سیاسی تدبر اور تجربے سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتے تھے۔ تاہم ایوان نمائندگان میں ترمیم منظور کرانا بڑا مشکل تھا کیونکہ حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ تھی۔ صدر لنکن نے بڑی عرق ریزی سے اپنی حکمت عملی تیار کی کیونکہ وہ غلامی کے بل کو پالیمنٹ سے منظور کروا کر ملک کو ریاستوں کی باہمی جنگ اور سول وار کا خاتمہ کر کے ملک ٹوٹنے سے بچا سکتے تھے۔ انہیں قدرت نے موقع فراہم کیا اور اس نے جیت کر امریکہ کی تاریخ کا تیرویں ترمیم کا بل پاس کروا لیا جس میں غلامی کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا۔
ملک بچانے کے لئے اور خانہ جنگی کے خاتمہ کے لئے لنکن کے لئے تیرویں ترمیم کا بل پاس کرانا نہایت ضروری تھاجس کے لئے پہلے اسے مطلوبہ تعداد میں ریاستیں چاہیئے تھیں۔ ریاست نیودا کی یونین میں شمولیت سے آئینی طور پر ریاستوں کی وہ تعداد پوری ہوجاتی جو ترمیم کی منظوری کے لیے درکار تھی۔ جس کے تین ارکان سے اس نے رابطہ کیا ۔دو نے انٹرول ریونیو کلکٹر بننے کی خواہش ظاہر کی۔ تیسرا نیویارک کسٹم ہاؤس میں تقرری چاہتا تھا۔ لنکن نے تینوں کی مانگیں پوری کرکے ان کی حمایت حاصل کرلی۔ جنوری ۱۸۶۵ میں انہیں مزید چودہ ووٹوں کی ضرورت تھی۔چنانچہ لنکن نے غلامی ختم کرنے کی خاطر اپنے ایک مخالف ریاست میسوری کے رکن کے سامنے جھکنے کا فیصلہ کرلیا جو سو غلاموں کا مالک تھا۔ اور غلامی کا مخالف تھا۔ لنکن اس سے ملے اور بتایا کہ اگر تیرہویں ترمیم منظور نہ ہوئی، تو امریکہ ٹوٹ جائے گا۔ اس نے جذبہ حب الوطنی کے باعث ترمیم کی حمایت کر دی۔ انھیں ترغیب دینے کی خاطر میسوری سے وفاقی جج کی نشست خالی رکھی گئی جو ترمیم کو ووٹ دیتے،انہی کی پسند کا (موزوں) جج تعینات کیا جاتا۔ 13ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے صدر لنکن نے سیاسی عنایات و نوازشات کا سلسلہ جاری رکھا ۔ مخالف جماعت ڈیمو کریٹک رکن، موسز اوڈیل نے ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کا اعلان کیا،تو لنکن نے اسے ریاست الینائے میں نیول ایجنٹ (سرکاری افسر) بنا دیا۔ ریاست کنکٹکی کا رکن، جارج یمین غلامی کا زبردست حامی تھا۔ لیکن وہ جب 13ویں ترمیم کا حمایتی بنا، اسے ڈنمارک میں امریکی سفیر بنا دیا گیا۔ یوں لنکن نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر تیرویں ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے دو ووٹ زیادہ حاصل کر کے منظور کروا لیا جو امریکہ کی تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ تھا ۔ جس نے ابرہام لنکن کو ہیرو بنا دیا۔ اگلے دو ماہ میں امریکی خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔
تفصیل دینے کا مقصد یہ تھا کہ لنکن نے بھی مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے نوازشات کا راستہ اختیار کیا۔ مگر ان نواشات کا براہ راست تعلق مفاد عامہ اور ملکی دفاع تھا۔ ذاتی عناد ، مخالفت ، خودغرضی ، اقربا پروری کا شائبہ نہیں پایا جاتا وہاں۔ خلوص نیت سے کئے گئے تمام اقدامات عوامی تحسین و پزیرائی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔
تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے انہوں نے ملک بچانے کا ایک بہترین راستہ چنا۔ جس کی بدولت وہ آج بھی یونائیٹڈ ہیں۔ہمارا ملک روزانہ ایسی دھمکیوں سے گزرتا ہے کہ اب گئے کہ گئے۔مگر آزمائے ہوئے تمام لیڈر ،حکمران تو کئی بار بنے مگر رہنما نہ بن سکے۔ جو ملک و قوم کو اس دلدل سے نکال سکتے۔ ملک ٹوٹنے کی تلوار آئے روز اخبارات کی شہ سرخیوں پر لٹکی رہتی ہے۔
اتنا لکھنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ تمام پارٹیاں اسمبلی میں بیٹھ کر ہر ایرے غیرے قانون کو بلا چوں چراں جو پاس کرتی ہیں جن کا براہ راست تعلق عوام کی بھلائی سے نہیں ہوتا انہیں ایک نہ ایک دن تو سوجھ بوجھ رکھنے والے محب وطن اکثریتی عوام کے ووٹوں سے واسطہ پڑے گا جو انہیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے اور انہیں یہ سبق کبھی نہیں بھولنے دیں گے کہ پارلیمنٹ کا کام عوام اور ملک کی بھلائی کے لئے قانون سازی کرنا ہے نہ کہ سپیکریا ارکان کی گھریلو ملازمین کی تنخواہوں اور گھریلو عیاشیوں کے لئے ہزاروں لٹر پٹرول کی فراہمی کا بندوبست کرنا۔جہاں کبھی صدر بے اختیار کیا جاتا ہے تو کبھی وزیراعظم۔ اختیارات کبھی ایک محل میں ہوتے ہیں تو کبھی دوسرے محل میں۔جہاں بلدیاتی نظام کبھی ہوتا ہے تو کبھی نہیں ہوتا۔۶۲، ۶۳ پہلے آئین میں تھی اب اخباروں میں ہے۔پہلے کام چھ دن تھا بجلی سارا دن ، اب کام پانچ دن ہے تو بجلی آدھا دن سے بھی کم۔حالانکہ دو اڈھائی دن سے زیادہ کام کی گنجائش نکلتی نہیں۔ ڈاکٹر اصلی ہیں تو دوائیاں جعلی۔اسمبلی اصلی تھی تو ممبر جعلی ڈگری والے۔کوئلوں میں دلالی ہے تو جہازوں آبدوزوں میں کمیشن۔ بھوکےغریب کے لئے لفظ رشوت سےذلت ، امیر کے لئے تحفہ تحائف سے عزت۔
پاکستان کی سیاست میں جھوٹ چلتا ہے مگر ملک میں رہنما جھوٹا نہیں چل سکتا۔ کیونکہ ملک جھوٹے وعدوں کی بیساکھی پر زیادہ دیرنہیں کھڑا ہو سکتا۔
قیام پاکستان سے قبل قائداعظم کی تقریر پر ایک بوڑھا تالیاں بجا رہا تھا ، قریب کھڑے شخص نے اس سے پوچھا بابا جی آپ کو قائداعظم کی انگریزی تقریر کی سمجھ آتی ہے؟بوڑھے نے کہا نہیں! مجھے انگریزی نہیں آتی مگرمجھےیقین ہےکہ یہ شخص سچ بول رہا ہے۔ایسے ہوتے ہیں سچے لیڈر۔
سب سے پہلے ملک کے رہنماؤں کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ سچ بولتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر ان کے وعدے پر صرف اتنا ہی کہوں گا۔
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تحریر ! محمودالحق