ماہی احمد
لائبریرین
ہمم پر یوں نقصان بڑا ہے۔بہت شکریہ ماہی جی بس زندگی ہی سکھا جائے تو سکھا جائے ورنہ انسان کسی انہونی کے انتظار میں بیٹھا ہی رہتا ہے ۔
ہمم پر یوں نقصان بڑا ہے۔بہت شکریہ ماہی جی بس زندگی ہی سکھا جائے تو سکھا جائے ورنہ انسان کسی انہونی کے انتظار میں بیٹھا ہی رہتا ہے ۔
بہت شکریہ جناب ! آپ کا حسن نظر بھی تو ہے جو اسے کسی قابل سمجھا اور ہمیں اتنا بڑا مان بھی دیا سب سے بڑی بات وہ اعتماد جو شاید میں کسی کمرے میں بند ہو کر لکھتی رہتی اور کوئی نہ دیکھتا اس زیادہ سے یہ تھوڑا لکھا مجھے بہت اچھالگتا ہے اب قلم میں توانائی سی محسوس ہونے لگی ہے آپ کا یہ بخشا ہوا یہ اعتماد مجھے ان سب بہترین لوگوں کے درمیان جگہ دے گیا ۔۔۔ شکریہ تو بہت چھوٹا سا لفظ ہے یہ بہت بڑا احسان ہے تا زندگی بھلایا نہ جائے گا اور آپ کے لئے بہت ساری دعائیں ہمیشہ شامل زندگی رہیں گی انشاءاللہمختصر اور جامع !! ۔۔۔ لگی لپٹی رکھے بغیر، آسان الفاظ اور رواں پیرائے میں بیان، زندگی کے حقائق کا تجزیہ ۔ گل بانو کا یہ اسلوب ان کی شناخت بنتا جا رہا ہے۔
آٹو ۔۔۔ میں ۔۔۔ ٹکلی ؟؟؟؟ ھا ھا ھا ھا ھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویری نائس آنٹی ۔۔خوش اس وقت ہوں گے آپ جب آپ سے دوسرے خوش ہوں گے اور دوسروں کو خوش دیکھ کر آپ آٹو میٹکلی خوش رہیں گے
نقصان ، نفع کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ زندگی جتنا رُلاتی ہے اتنا ہنساتی بھی تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھا بھرا گلاس ۔۔۔۔۔۔ بھرا بھی تو ہوتا ہے نہ کہ صرف خالیہمم پر یوں نقصان بڑا ہے۔
یہاں پر تو یہ بیان کیا گیا ہے خوشی ایک اندرونی کیفیت کا نام ہے ، اس طرز پر تو ہر جذباتی کیفیت کو اندرونی قرار دیا جا سکتا ہے - کیا انسان اپنے ماحول ، دوسروں کے رویے سے قطع نظر اپنے اندر خوشی کا احساس پیدا کر سکتا ہے،ایک جملہ جو اکثر میرےذہن میں ابھر کر ڈوب جاتا ہے کہ خوشی کیا ہے؟ تو شاید اب میں نے جانا کہ خوشی تو اندر سے اٹھتی ہے اور پورے جسم پر چھا جاتی ہے۔ ایک سُرور میں مُبتلا کر دیتی ہے تو جیسے انگ انگ بولنے لگتا ہے۔ اس کی وجوہات چاہے کچھ ہوں ۔ دُکھ کی کیچڑ میں خوشی کے کنول بھی کھل سکتے ہیں۔ انسان جو احساسات کی پوٹلی ہے وہ ہر چیز کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے تو خوشی اور دکھ کا رنگ بھی اُس پر اُسی انداز کا ہوتا ہے۔ شاید دوسروں کے نزدیک وہ اتنے دُکھ یا خوشی کی بات نہ ہوتی ہو۔ ہر انسان اپنی خوشی کے لیئے کسی انہونی کے انتظار میں رہتا ہے پر خُوشی تو اُس کے اپنے اندر چھُپی ہوتی ہے، جسے وہ کھوج نہیں پاتا اور بس آہیں بھر بھر کر زندگی گزار دیتا ہے۔ پر یہ بات بھی ہے کہ دُکھ کے کیچڑ میں خوشی کے پھول کھلانا کچھ ایسا آسان بھی نہیں یا شاید ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ جِس نے یہ ہُنر جانا شاد ہوا۔
گُل بانو
اعتماد آپ کا اپنا ہے خاتون! ہم نے تو اس کو دریافت کرنے میں تھوڑی سی مدد کی تھی، اس کا اعتراف کافی ہے، بہت شکریہ۔بہت شکریہ جناب ! آپ کا حسن نظر بھی تو ہے جو اسے کسی قابل سمجھا اور ہمیں اتنا بڑا مان بھی دیا سب سے بڑی بات وہ اعتماد جو شاید میں کسی کمرے میں بند ہو کر لکھتی رہتی اور کوئی نہ دیکھتا اس زیادہ سے یہ تھوڑا لکھا مجھے بہت اچھالگتا ہے اب قلم میں توانائی سی محسوس ہونے لگی ہے آپ کا یہ بخشا ہوا یہ اعتماد مجھے ان سب بہترین لوگوں کے درمیان جگہ دے گیا ۔۔۔ شکریہ تو بہت چھوٹا سا لفظ ہے یہ بہت بڑا احسان ہے تا زندگی بھلایا نہ جائے گا اور آپ کے لئے بہت ساری دعائیں ہمیشہ شامل زندگی رہیں گی انشاءاللہ
گل بانو کیا کہیں گی، یہ تو مجھے اندازہ نہیں، تاہم ناصر علی مرزا صاحب کا سوال بہت وسیع پیش منظر کا متقاضی ہے جسے زیرِ نظر مختصر سے سنیپ شاٹ میں سمویا نہیں جا سکتا تھا۔ بہت محبت آپ کی، جناب ناصر علی مرزا صاحب۔یہاں پر تو یہ بیان کیا گیا ہے خوشی ایک اندرونی کیفیت کا نام ہے ، اس طرز پر تو ہر جذباتی کیفیت کو اندرونی قرار دیا جا سکتا ہے - کیا انسان اپنے ماحول ، دوسروں کے رویے سے قطع نظر اپنے اندر خوشی کا احساس پیدا کر سکتا ہے،
جب آپ کے اردگرد دکھ ، رنج و الم کے حالات ہوں تو اندرونی خوشی کیسے اور کیونکر ؟ جب آپ کے بیرون میں خوشی کی کوئی وجہ موجود نہ ہو تو اندرونی کیفیت خوشی کیسے کیونکر ہو سکتی ہے
نقصان ، نفع کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ زندگی جتنا رُلاتی ہے اتنا ہنساتی بھی تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھا بھرا گلاس ۔۔۔۔۔۔ بھرا بھی تو ہوتا ہے نہ کہ صرف خالی
جناب نہایت قابل محترم آسی صاحب، میں نے بطور طالب علم یا عام فرد ، یہ بات کی ہے،آپ یا کوئی رکن محفل اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں تو بہترگل بانو کیا کہیں گی، یہ تو مجھے اندازہ نہیں، تاہم ناصر علی مرزا صاحب کا سوال بہت وسیع پیش منظر کا متقاضی ہے جسے زیرِ نظر مختصر سے سنیپ شاٹ میں سمویا نہیں جا سکتا تھا۔ بہت محبت آپ کی، جناب ناصر علی مرزا صاحب۔
یہ بہت بڑا موضوع ہے بھائی! مناسب ہو گا اس پر الگ سے ایک تاگا شروع کر لیجئے۔جناب نہایت قابل محترم آسی صاحب، میں نے بطور طالب علم یا عام فرد ، یہ بات کی ہے،آپ یا کوئی رکن محفل اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں تو بہتر
جناب ناصر علی صاحب ، ہم نے ماہی احمد کو بھی ایک جواب دیا ہے کہ آدھا بھرا گلاس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھرا ہوا بھی تو ہوتا ہے پھر اسے خالی ہی کیوں دیکھا اور سمجھا جاتا ہے ؟ یہ ہے وہ اصل بات ، ہم بلا وجہ کی اداسیوں میں گھرے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگ ہم سے ہمدردی کریں گے وجہ پوچھیں گے اور ہمیں کچھ بقراط جیسا جانیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا جو بھی کسی کا مطمع نظر ہو بہر حال یہ ایک الگ موضوع بن جائے گا ۔ اللہ بچائے کسی گہرے دُکھ سے اس حالت میں تو کوئی بھی خوش نہیں رہ سکتا ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر صبر ہی درکار ہوتا ہے ۔ ہم نے تو بلاوجہ کی اداسی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اداس یا ناراض ہونے پر کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب ہی اپنے ارد گرد یہ مظاہرے دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی کسی سے ناراض ہے نا خوش ہے کسی سے جل رہا ہے حسد میں مر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خود اندر ہی اندر جل کر خود کو ختم کئے دے رہا ہے جبکہ اس کے برعکس وہ اس اداسی سے نکل کر اوروں کی خوشی کا سامان بھی کر سکتا ہے ۔ سب سے پہلے تو اسے یہ جاننا ہوگا کہ خوشی ہے کیا اور کہاں پائی جاتی ہے جس بات کی ہم دوسروں سے توقع کرتے ہیں وہ خود ہی کیوں شروع نہیں کر دیتے ، آپس کی رنجشوں کو بھلا کر خوشیوں کو آواز کیوں نہیں دے لیتے ۔ کسی کی مدد کر کے وہ خوشی حاصل کیوں نہیں کر لیتے ۔کس بات کے انتظار میں رہتے ہیں ۔کس انہونی کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ؟یہاں پر تو یہ بیان کیا گیا ہے خوشی ایک اندرونی کیفیت کا نام ہے ، اس طرز پر تو ہر جذباتی کیفیت کو اندرونی قرار دیا جا سکتا ہے - کیا انسان اپنے ماحول ، دوسروں کے رویے سے قطع نظر اپنے اندر خوشی کا احساس پیدا کر سکتا ہے،
جب آپ کے اردگرد دکھ ، رنج و الم کے حالات ہوں تو اندرونی خوشی کیسے اور کیونکر ؟ جب آپ کے بیرون میں خوشی کی کوئی وجہ موجود نہ ہو تو اندرونی کیفیت خوشی کیسے کیونکر ہو سکتی ہے
بہت اعلی ،اس وضاحت پر آپ کا مشکور ہوں ، آپ کی تحریر میں یہ بات موجود نہیں تھی یا پھر میں اس بات کو وہاں پا نہیں سکا تھا۔جناب ناصر علی صاحب ، ہم نے ماہی احمد کو بھی ایک جواب دیا ہے کہ آدھا بھرا گلاس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھرا ہوا بھی تو ہوتا ہے پھر اسے خالی ہی کیوں دیکھا اور سمجھا جاتا ہے ؟ یہ ہے وہ اصل بات ، ہم بلا وجہ کی اداسیوں میں گھرے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگ ہم سے ہمدردی کریں گے وجہ پوچھیں گے اور ہمیں کچھ بقراط جیسا جانیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا جو بھی کسی کا مطمع نظر ہو بہر حال یہ ایک الگ موضوع بن جائے گا ۔ اللہ بچائے کسی گہرے دُکھ سے اس حالت میں تو کوئی بھی خوش نہیں رہ سکتا ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر صبر ہی درکار ہوتا ہے ۔ ہم نے تو بلاوجہ کی اداسی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اداس یا ناراض ہونے پر کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب ہی اپنے ارد گرد یہ مظاہرے دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی کسی سے ناراض ہے نا خوش ہے کسی سے جل رہا ہے حسد میں مر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خود اندر ہی اندر جل کر خود کو ختم کئے دے رہا ہے جبکہ اس کے برعکس وہ اس اداسی سے نکل کر اوروں کی خوشی کا سامان بھی کر سکتا ہے ۔ سب سے پہلے تو اسے یہ جاننا ہوگا کہ خوشی ہے کیا اور کہاں پائی جاتی ہے جس بات کی ہم دوسروں سے توقع کرتے ہیں وہ خود ہی کیوں شروع نہیں کر دیتے ، آپس کی رنجشوں کو بھلا کر خوشیوں کو آواز کیوں نہیں دے لیتے ۔ کسی کی مدد کر کے وہ خوشی حاصل کیوں نہیں کر لیتے ۔کس بات کے انتظار میں رہتے ہیں ۔کس انہونی کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ؟
جی اچھا کیا نا ۔۔۔۔ہمیں بھی اپنے لکھے پر اب ہر بات کو مد نظر رکھنے کی عادت ڈالنی ہوگی شکریہبہت اعلی ،اس وضاحت پر آپ کا مشکور ہوں ، آپ کی تحریر میں یہ بات موجود نہیں تھی یا پھر میں اس بات کو وہاں پا نہیں سکا تھا۔
میرے ذہن میں نفس مطمئنہ والی بات تھی
اپنی اپنی نظر پہ ہے موقوفنقصان ، نفع کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ زندگی جتنا رُلاتی ہے اتنا ہنساتی بھی تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھا بھرا گلاس ۔۔۔۔۔۔ بھرا بھی تو ہوتا ہے نہ کہ صرف خالی
آمین !اللہ سب کو یہ ہنر دے۔ آمین
اپنی اپنی نظر پہ ہے موقوف
جام آدھا بھرا ہے یا خالی
۔۔۔ رؤف امیر (ٹیکسلا)
آپس کی بات ہے اس کی پروا بھی کون کرتا ہے۔
اے لو! "دھیلے کی بڑھیا ٹکا سر منڈائی" ۔ یہ جو کچھ آپ نے لکھا ہے اس کو مذکورہ شذرے میں شامل کر لیجئے، بہتوں کا بھلا ہو گا۔جناب ناصر علی صاحب ، ہم نے ماہی احمد کو بھی ایک جواب دیا ہے کہ آدھا بھرا گلاس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھرا ہوا بھی تو ہوتا ہے پھر اسے خالی ہی کیوں دیکھا اور سمجھا جاتا ہے ؟ یہ ہے وہ اصل بات ، ہم بلا وجہ کی اداسیوں میں گھرے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگ ہم سے ہمدردی کریں گے وجہ پوچھیں گے اور ہمیں کچھ بقراط جیسا جانیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا جو بھی کسی کا مطمع نظر ہو بہر حال یہ ایک الگ موضوع بن جائے گا ۔ اللہ بچائے کسی گہرے دُکھ سے اس حالت میں تو کوئی بھی خوش نہیں رہ سکتا ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر صبر ہی درکار ہوتا ہے ۔ ہم نے تو بلاوجہ کی اداسی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اداس یا ناراض ہونے پر کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب ہی اپنے ارد گرد یہ مظاہرے دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی کسی سے ناراض ہے نا خوش ہے کسی سے جل رہا ہے حسد میں مر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خود اندر ہی اندر جل کر خود کو ختم کئے دے رہا ہے جبکہ اس کے برعکس وہ اس اداسی سے نکل کر اوروں کی خوشی کا سامان بھی کر سکتا ہے ۔ سب سے پہلے تو اسے یہ جاننا ہوگا کہ خوشی ہے کیا اور کہاں پائی جاتی ہے جس بات کی ہم دوسروں سے توقع کرتے ہیں وہ خود ہی کیوں شروع نہیں کر دیتے ، آپس کی رنجشوں کو بھلا کر خوشیوں کو آواز کیوں نہیں دے لیتے ۔ کسی کی مدد کر کے وہ خوشی حاصل کیوں نہیں کر لیتے ۔کس بات کے انتظار میں رہتے ہیں ۔کس انہونی کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ؟
آٹو ۔۔۔ میں ۔۔۔ ٹکلی ؟؟؟؟ ھا ھا ھا ھا ھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔