ناعمہ عزیز
لائبریرین
جیسے جیسے د نیا کو سمجھا دنیا ے تلخ سے تلخ ہو تی گئی، یہ سنا تھا کہ دنیا امید کے سہارے قا ئم ہے اب اس پر یقین اور بھی پختہ ہو تا جا رہا ہے، جب انسان بچہ ہو تا ہے تو اسے پتا ہی نہیں ہو تا غم کیا چیز ہے یا پھر ہے بھی کہ نہیں ،تو وہ کتنا پر سکون ہو تا ہے ، اس میں کو ئی خود غر ضی نہیں ہو تی کوئی فریب نہیں ہو تا ، پھر انسا ن دھو کے دیتا ہے اور دھو کے کھا تا ہے، اوروقت اور حا لا ت انسان کو کتنا کچھ سیکھا دیتے ہیں ، لوگ دھوکا دے کے انسا ن کا مضبوط کرتے ہیں یا پھر اور تور ڈا لتے ہیں ، پھر پتا چلتا ہے کہ جو دینا کبھی اتنی خو بصورت ہوا کر تی تھی وہ کس قدر بے حس ہے،
جب انسا ن منہ کے بل گر تا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اس نے غلط راستہ اختیا ر کیا تھا ، پھر انسا ن خو شی کو ترستا ہے ، اور اسے تلاش کر تا ہے، خا ص کر وہ لو گ جنہوں نے ہمیشہ خو ش رہنا ہی سیکھا ہو، اور انکے لئے خوشیو ں کے راستے تنگ سے تنگ ہو تے جا یئں ۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب ہم خوشی کے پیچھے جاتے ہیں تو وہ آ گے بھاگتی ہے اور جب ہم تھک کر مڑ جاتے ہیں تو وہ ہمارے پیچھے آ نے لگتی ہے۔
جب انسا ن منہ کے بل گر تا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اس نے غلط راستہ اختیا ر کیا تھا ، پھر انسا ن خو شی کو ترستا ہے ، اور اسے تلاش کر تا ہے، خا ص کر وہ لو گ جنہوں نے ہمیشہ خو ش رہنا ہی سیکھا ہو، اور انکے لئے خوشیو ں کے راستے تنگ سے تنگ ہو تے جا یئں ۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب ہم خوشی کے پیچھے جاتے ہیں تو وہ آ گے بھاگتی ہے اور جب ہم تھک کر مڑ جاتے ہیں تو وہ ہمارے پیچھے آ نے لگتی ہے۔