خوشی

خوشی
ننھا جُگنو جیسے زندگی سے تنگ آ چکا ہو، کیا نہیں کیا تھا اُس نے ایک چھوٹی سی خوشی پانے کو؟ پر خوشی جیسے اُس کے نصیبوں سے حرف غلط کی طرح مٹا دی گئی ہو۔
آپ زیادہ دور کیوں جائیے؟ ابھی کل کی ہی بات لیجئے پڑوس کے باغ والی مادہ جُگنو سے دوستی ہو گئی باوجودیکہ اُسے سبھی سیانے جُگنوؤں نے منع کیا تھا کہ مادہ جُگنو بھوکی ہو تو نر کو کھا بھی سکتی ہے۔ دونوں نے جی بھر کے باتیں کیں اور یہ تک کہ چلتے وقت مادہ جُگنو نے اُس سے پھر ملنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ خوشی سے پھول کر کُپا ہو جاتا۔ پر حیف کہ ایسا ہوا نہیں۔
اور پھر وہ ایک ہفتہ قبل جو ہوا ، وہ کیا کم تھا خوش ہونے کیلئے؟ ہر گز نہیں۔ ایشیا سے آئے ہوئے ایک جُگن طائفے کے ننھے جگنوؤں کے ساتھ اُس نے جگمگاتی روشنیوں کے سازینے پر رقص کیا تھا، یہ خاصیت صرف ایشیائی جگنوؤں میں پائی جاتی تھی کہ وہ باقائدہ جتھوں میں جگمگاتا رقص کیا کرتے تھے۔ پر اُس رقص کے بعد بھی جب وہ تھک ٹوٹ کر بیٹھا تو خوش نہیں تھا
اُس کے بعد تو اُس نے تفنن طبع کیلئے کیا کچھ نہ کیا، سب رائگاں، سب بے فیض، سب اُس حزن کی برف کو پگھلانے میں ناکام رہے جو نہ جانے کیوں جُگنو پر طاری تھی۔ اُس نے کیڑے کھائے، پتنگے کھائے، خرنگے کھائے پر لطف نہیں آیا۔ مزہ نہیں تھا، سواد ندارُد۔ پولن اور نیکٹر تو وہ کھاتا ہی رہتا تھا۔ سو خوشی نہ جانے کہاں بیٹھی اُس پر ہنستی رہتی۔
وہ روشنی جس پر کہ اُسے ناز تھا اور وہ اُسے چمکا چمکا کر اترایا کرتا، جب گھُپ اندھیرے میں دم توڑ دیتی تو ناز کافور ہو جاتا۔ یہ روشنی ہی تو اُس کی پہچان تھی، اُس کا مان تھی اور اُس کی جان تھی۔ مانا کہ اس روشنی کا وجود بائولومینیسنس کا مرحون منت تھا جو ہرگز حرارت پیدا نہیں کرتا اور اس طرح وہ جلنے سے بھی محفوظ رہتا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں بنتا کہ روشنی اُس کی ملکیت ہی نہ تھی۔ آخر جس کسی نے بھی اُسے روشنی عطا کی تھی اُسی کیلئے ہی تو دی تھی، ورنہ کسی اور کو نہ دے دیتا؟۔
آج بھی وہ ایک پودے پر بیٹھا یہی سوچ رہا تھا، رات ہو چکی تھی، نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور خوشی کو تو وہ قریب قریب بھول ہی چکا تھا کہ یہ بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہے۔ اتنے میں اُس نے ایک چڑے کی چیخ پُکار سُنی، شائد بچارہ کسی شکاری کی اندھیرے میں چلائی گئی غلیل کا شکار ہوا تھا اور پھر وہ دھپ سے اُس کے سامنے آن گرا۔ اتنے میں کسی کے دور سے دوڑنے کی آواز بھی سُنائی دی، یقینا وہ شکاری ہو گا جو شکار کو پکڑنے بھاگ رہا تھا، اُس نے سوچا تھا اور پھر چڑے کو دیکھا۔ رحم کی ایک لہر جیسے اُس کے سینے سے اُٹھی اور اُس نے چمکنا شروع کر دیا۔ چڑے کا ایک پر زخمی ہو چُکا تھا اور وہ اُڑنے کے قابل نہیں تھا۔ جُگنو کو کنارے پر بنی ایک کھُڈ یاد آئی جہاں اکثر وہ کیڑوں کی تلاش میں جایا کرتا۔ اُس نے چڑے کے سامنے آ کر چمکنا شروع کر دیا اور اُسے اشارہ کرنے لگا کہ بھاگو۔ چڑا بھی جیسے بات سمجھ گیا ہو اور گھسٹتا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے اُس کی روشنی میں چلنے لگا۔ زندگی میں پہلی بار جُگنو جیسے سرشار ہو گیا تھا اور جوں جوں اُس کی سرشاری بڑھتی جا رہی تھی اُس کی چمک میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، آج گھُپ اندھیرا بھی اُس کی روشنی کو ماند کرنے میں ناکام تھا۔ آج اُس نے یہ جان لیا تھا کہ روشنی جو اُس کی سب سے بڑی پہچان ہے اور اُسے عطا ہوئی ہے وہ اُسکی ضرور ہے پر اُس کیلئے نہیں ہے، پھیلانے کیلئے ہے۔ کھُڈ آ گئی تھی اور چڑا اندر داخل ہو چُکا تھا۔ شکاری آیا اور آ کر کچھ دیر ادھر اُدھر بھٹکنے کے بعد نامُراد واپس چلا گیا۔
ننھے جُگنو نے آج خوشی حاصل کر لی تھی
 

قیصرانی

لائبریرین
خوبصورت تحریر لیکن کچھ نان لاجیکل سی لگی، جیسے رات کے اندھیرے میں شکاری کا غلیل سے شکار کرنا، مادہ جگنو کا نر کو کھانا، پتنگے اور کیڑے کھانا وغیرہ، لیکن دوسری جانب بائیو لومینیسنس والی بات بہت عمدہ ہے :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
واہ کیا خوب طرح سے پیغام دیا ،، بہت عمدہ ،، باقی قیصرانی بھائی سے اتفاق ہے۔ پس یہ کچھ ماندا قباحتیں دور ہو جائیں (یعنی چِڑے کی مشکل کا کچھ اور سبب ہو جائے) تو چاند سے گرہن ہٹ جائے گا :) :)
جزاک اللہ،
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
 
خوبصورت تحریر لیکن کچھ نان لاجیکل سی لگی، جیسے رات کے اندھیرے میں شکاری کا غلیل سے شکار کرنا، مادہ جگنو کا نر کو کھانا، پتنگے اور کیڑے کھانا وغیرہ، لیکن دوسری جانب بائیو لومینیسنس والی بات بہت عمدہ ہے :)
محترم جناب قیصرانی صاحب
ویسے تو افسانہ نگاری میں کچھ نہ کچھ نمک مرچ شائد جائز ہی ہوتا ہے :sneaky: لیکن میں نے کچھ چڑی ماروں کو رات اُن کے گھونسلوں میں غلیلیں مارتے دیکھا ہے اسی لئے لکھ بھی دیا ۔ پھر بھی کوشش ہو گی کہ بہتر کر لوں اسے۔ باقی رہی مادہ کے نر کھانے والی بات تو یہ سچ ہے کہ کچھ فائر فلائز یا جگنوؤں کی مادہ اُنہیں روشنی سے متوجہ کر، بُلاتی ہیں اور پھر کھا بھی جاتی ہیں۔ جگنوؤں کی اقسام ہیں جو کیڑے مکوڑے کھاتی ہیں اور کچھ اقسام صرف پولن پر گُزارا کرتی ہیں۔
شاد رہئے
 
واہ کیا خوب طرح سے پیغام دیا ،، بہت عمدہ ،، باقی قیصرانی بھائی سے اتفاق ہے۔ پس یہ کچھ ماندا قباحتیں دور ہو جائیں (یعنی چِڑے کی مشکل کا کچھ اور سبب ہو جائے) تو چاند سے گرہن ہٹ جائے گا :) :)
جزاک اللہ،
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
بہت شکریہ جناب، میں نے اوپر کچھ وضاحت کی ہے، اگر قابل قبول نہ ہوئی تو کچھ سوچتا ہوں :battingeyelashes:
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
بہت شکریہ جناب، میں نے اوپر کچھ وضاحت کی ہے، اگر قابل قبول نہ ہوئی تو کچھ سوچتا ہوں :battingeyelashes:
متفق ہوں مجھے بس چڑیا والی بات پر الجھن ہوئی ،، اور یہ محض دوستانہ رائے تھی ہم تو خود سیکھنے والوں میں سے ہیں ، یوں ہم آپ کے ہم جماعت ٹھہرے نا ۔۔ :) :)
اور صحیح بات بس غلیل کے ساتھ روشنی کا بندوبست نہ پا کر ٹھٹک گئے اور کیا ۔۔۔ :eek: :p ۔۔۔ :) :)
 
متفق ہوں مجھے بس چڑیا والی بات پر الجھن ہوئی ،، اور یہ محض دوستانہ رائے تھی ہم تو خود سیکھنے والوں میں سے ہیں ، یوں ہم آپ کے ہم جماعت ٹھہرے نا ۔۔ :) :)
اور صحیح بات بس غلیل کے ساتھ روشنی کا بندوبست نہ پا کر ٹھٹک گئے اور کیا ۔۔۔ :eek: :p ۔۔۔ :) :)[/quote
جی میں کوشش کرتا کہ کچھ چانن ہو جائے :bee:
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
اس کہانی کی نوک پلک بعد میں کرتے رہیئے گا مکرمی ،،، اب تو مزید قلم کی روشنائی سے ہی کچھ چانن ہو جائے تو کمال ہو !! (اگلے فن پارے کے واسطےمنتظر ہیں :) )
 

نور وجدان

لائبریرین
خوشی
ننھا جُگنو جیسے زندگی سے تنگ آ چکا ہو، کیا نہیں کیا تھا اُس نے ایک چھوٹی سی خوشی پانے کو؟ پر خوشی جیسے اُس کے نصیبوں سے حرف غلط کی طرح مٹا دی گئی ہو۔
آپ زیادہ دور کیوں جائیے؟ ابھی کل کی ہی بات لیجئے پڑوس کے باغ والی مادہ جُگنو سے دوستی ہو گئی باوجودیکہ اُسے سبھی سیانے جُگنوؤں نے منع کیا تھا کہ مادہ جُگنو بھوکی ہو تو نر کو کھا بھی سکتی ہے۔ دونوں نے جی بھر کے باتیں کیں اور یہ تک کہ چلتے وقت مادہ جُگنو نے اُس سے پھر ملنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ خوشی سے پھول کر کُپا ہو جاتا۔ پر حیف کہ ایسا ہوا نہیں۔
اور پھر وہ ایک ہفتہ قبل جو ہوا ، وہ کیا کم تھا خوش ہونے کیلئے؟ ہر گز نہیں۔ ایشیا سے آئے ہوئے ایک جُگن طائفے کے ننھے جگنوؤں کے ساتھ اُس نے جگمگاتی روشنیوں کے سازینے پر رقص کیا تھا، یہ خاصیت صرف ایشیائی جگنوؤں میں پائی جاتی تھی کہ وہ باقائدہ جتھوں میں جگمگاتا رقص کیا کرتے تھے۔ پر اُس رقص کے بعد بھی جب وہ تھک ٹوٹ کر بیٹھا تو خوش نہیں تھا
اُس کے بعد تو اُس نے تفنن طبع کیلئے کیا کچھ نہ کیا، سب رائگاں، سب بے فیض، سب اُس حزن کی برف کو پگھلانے میں ناکام رہے جو نہ جانے کیوں جُگنو پر طاری تھی۔ اُس نے کیڑے کھائے، پتنگے کھائے، خرنگے کھائے پر لطف نہیں آیا۔ مزہ نہیں تھا، سواد ندارُد۔ پولن اور نیکٹر تو وہ کھاتا ہی رہتا تھا۔ سو خوشی نہ جانے کہاں بیٹھی اُس پر ہنستی رہتی۔
وہ روشنی جس پر کہ اُسے ناز تھا اور وہ اُسے چمکا چمکا کر اترایا کرتا، جب گھُپ اندھیرے میں دم توڑ دیتی تو ناز کافور ہو جاتا۔ یہ روشنی ہی تو اُس کی پہچان تھی، اُس کا مان تھی اور اُس کی جان تھی۔ مانا کہ اس روشنی کا وجود بائولومینیسنس کا مرحون منت تھا جو ہرگز حرارت پیدا نہیں کرتا اور اس طرح وہ جلنے سے بھی محفوظ رہتا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں بنتا کہ روشنی اُس کی ملکیت ہی نہ تھی۔ آخر جس کسی نے بھی اُسے روشنی عطا کی تھی اُسی کیلئے ہی تو دی تھی، ورنہ کسی اور کو نہ دے دیتا؟۔
آج بھی وہ ایک پودے پر بیٹھا یہی سوچ رہا تھا، رات ہو چکی تھی، نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور خوشی کو تو وہ قریب قریب بھول ہی چکا تھا کہ یہ بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہے۔ اتنے میں اُس نے ایک چڑے کی چیخ پُکار سُنی، شائد بچارہ کسی شکاری کی اندھیرے میں چلائی گئی غلیل کا شکار ہوا تھا اور پھر وہ دھپ سے اُس کے سامنے آن گرا۔ اتنے میں کسی کے دور سے دوڑنے کی آواز بھی سُنائی دی، یقینا وہ شکاری ہو گا جو شکار کو پکڑنے بھاگ رہا تھا، اُس نے سوچا تھا اور پھر چڑے کو دیکھا۔ رحم کی ایک لہر جیسے اُس کے سینے سے اُٹھی اور اُس نے چمکنا شروع کر دیا۔ چڑے کا ایک پر زخمی ہو چُکا تھا اور وہ اُڑنے کے قابل نہیں تھا۔ جُگنو کو کنارے پر بنی ایک کھُڈ یاد آئی جہاں اکثر وہ کیڑوں کی تلاش میں جایا کرتا۔ اُس نے چڑے کے سامنے آ کر چمکنا شروع کر دیا اور اُسے اشارہ کرنے لگا کہ بھاگو۔ چڑا بھی جیسے بات سمجھ گیا ہو اور گھسٹتا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے اُس کی روشنی میں چلنے لگا۔ زندگی میں پہلی بار جُگنو جیسے سرشار ہو گیا تھا اور جوں جوں اُس کی سرشاری بڑھتی جا رہی تھی اُس کی چمک میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، آج گھُپ اندھیرا بھی اُس کی روشنی کو ماند کرنے میں ناکام تھا۔ آج اُس نے یہ جان لیا تھا کہ روشنی جو اُس کی سب سے بڑی پہچان ہے اور اُسے عطا ہوئی ہے وہ اُسکی ضرور ہے پر اُس کیلئے نہیں ہے، پھیلانے کیلئے ہے۔ کھُڈ آ گئی تھی اور چڑا اندر داخل ہو چُکا تھا۔ شکاری آیا اور آ کر کچھ دیر ادھر اُدھر بھٹکنے کے بعد نامُراد واپس چلا گیا۔
ننھے جُگنو نے آج خوشی حاصل کر لی تھی
یہ بہت اچھی تحریر ہے۔۔ مگر اس کاپیغام پورا نہ ہوا ہے۔۔ مجھے منطقیں اچھی لگی ہیں ،،پر انجام کو ایک پہنچی وہ روشنی کی۔۔اعلیٰ
 

نایاب

لائبریرین
اندھیروں میں بھٹکتے اپنی تخلیق کی حقیقت میں الجھنے والوں کے لیے اک خوبصورت راہ دکھاتی تحریر ۔
بہت دعائیں شراکت پر
 
Top