محسن وقار علی
محفلین
ہمارا معاشرہ بچوں سے زیادتی خصوصاً جنسی زیادتی کا اعتراف بہت ہی کم کرتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے پاکستانی معاشرہ گھر کی چار دیواری کے اندر اس قسم کی زیادتی کا اعتراف ہی نہیں کررہا تھا۔
درحقیقت پاکستانی معاشرے میں مضبوطی سے گُتھا ہوا خاندانی نظام بچوں پر ہونے والے اس گھناؤنے ظلم پر پردہ ڈال دیتا ہے۔
اس مسئلے پر کام کرنے والی ساحل نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے 2011 کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ معصوم بچوں پر جنسی حملوں اور زیادتی کے 88 فیصد واقعات گھروں میں ہی ہوتے ہیں۔
جبکہ اکثر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اخبارات اور غیر سرکاری تنظیموں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا جو ساحل نے جمع کیا ہے اس کے تحت صرف 2011 میں بچوں سے زیادتی کے 2,942 واقعا ت ہوئے ۔ دوسرے الفاظ میں ہرروز آٹھ بچے جنسی ذیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔
ایک ماہرِ نفسیات، ڈاکٹر آشا بیدار کے مطابق ، ‘ بچوں سے جنسی زیادتی یا چائلڈ سیکشولیٹی ابیوز ( سی ایس اے ) وہ عمل ہے جس میں کوئی بالغ یا یا بڑی عمر کی بچہ کسی (چھوٹے) بچے کو جنسی عمل کیلئے استعمال کرے۔ اس میں بوسہ لینے، چھونے اور سہلانے جیسے بظاہر بے ضرر عمل سے لے کر سنگین جنسی زیادتی جیسے عمل شامل ہیں۔ ‘
تحقیق کے مطابق حملہ آوروں میں وہی شامل ہوتے ہیں جن پر بچہ اعتماد کرتا ہے جن میں والدین، عزیز رشتے دار، استاد اور پڑوس کے دوکاندار وغیرہ شامل ہیں اور عام تاثر کے برخلاف اس میں اجنبیوں کا کردار بہت کم ہوتا ہے۔
اسلام آباد کی ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر عنبرین احمد کہتی ہیں کہ ‘ کئی مرتبہ بچے قابلِ اعتماد افراد کے حوالے کردیئے جاتے ہیں۔’ ‘ کئ مرتبہ گھروں میں آنے والے مولویوں کے ہاتھوں بچے زیادتی کا شکار بنتے ہیں،’ انہوں نے کہا ۔
لیکن اگر اہلِ خانہ کے کسی فرد کی جانب سے بچے سے زیادتی کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو ہمیشہ اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے اور بچے کی تکلیف ایک خفیہ پردے کے نیچے چھپ جاتی ہے۔ ڈاکٹر عنبرین کے مطابق چونکہ خاندانی تانے بانے اتنی مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں اور اقدار کو اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ اکثر وہ گھریلو جنسی ذیادتی یا انسیسٹ کے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ بچوں سے زیادتی کا انکار ویسے ہی کیا جاتا لیکن گھر کی کسی فرد کی جانب سے جنسی زیادتی کے معاملے میں انکار یا نظر انداز کرنے میں مزید شدت آجاتی ہے۔
‘ ایسے کئی واقعات ہوئے کہ بچے نے کسی ایک (ماں یا باپ) سے اس کا اظہار بھی کیا لیکن اس کا ردِ عمل یہی آتا ہے کہ بچے کی بات کا بھروسہ نہیں کیا جاتا،’ عنبرین نے کہا۔
بچی یا بچے سے یہی کہا جاتا ہے کہ اسے غلط فہمی ہوئی ہے اور اسے ایسا سوچنے کا بھی منع کیا جاتا ہے کیونکہ جس کا نام لیا جارہا ہے وہ بہت قابلِ احترام ہے۔ بدترین حالت وہ ہوتی ہے جس میں بچے کو معتوب کیا جاتا ہے۔ بعض مرتبہ تو یہ دیکھا گیا ہے کہ بچے کی بات کو سچ تو مان لیا جاتا ہے لیکن لب سی لئے جاتے اور چُپ رہا جاتا ہے۔
اور اسطرح بچے کو مزید اسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔’ عنبرین احمد نے کہا۔ اس طرح گھریلو جنسی زیادتی کا دائرہ پھیلتا رہتا ہے اور مزید بچے اس کا نوالہ بنتے ہیں۔
بیدار کے مطابق طاقت کی بجائے جذباتی بلیک میلنگ بچوں سے ذیادتی کا سب سے عام طریقہ ہے۔ حملہ آور عموماً بچے پر الزام عائد کرکے اسے خاموش رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
‘ اکثر وہ ( حملہ آور) قابلِ اعتبارواحترام ہوتے ہیں اور اپنی پوزیشن سے واقف بھی ہوتے ہیں۔ بچہ خود بھی اس حقیقت کو جانتا ہے۔ یہ خود اس بچے کیلئے مشکل ہوتا ہے کہ وہ آخر اس واقعے کا کس کو بتائے،’ احمد نے کہا ۔
بیدار کے مطابق زیادتی کرنے والا یہ جانتا ہے کہ بچہ فطری طور پر پیار، توجہ اور تفریح کی جانب راغب ہوتا ہے اور جب بچہ تنہا اور زد میں ہو تو وہ اسے استعمال کرتا ہے۔
‘ زیادتی کا شکار ہونے کے بعد بچہ زبان نہ کھولے، اسے یقینی بنانے کیلئے حملہ آور رشوت ( مثلاً رقم، ٹافیوں یا زیادہ توجہ وغیرہ ) استعمال کرتا ہے ، یا پھر اس ‘تجربے’ کو خاص تفریحی راز کہتا ہے۔ وہ بچے کو خوف اور دھمکیوں میں اُلجھاتے ہیں لیکن طاقت استعمال نہیں کرتے کیونکہ قوت استعمال کرنے سے بات ظاہر ہوسکتی ہے۔ اگر زیادتی کرنے والے بچے کے بہت قریب ہو تو وہ اس کی عادات، پسند ، ناپسند اور کمزوریوں سے خوب واقف ہوتے ہیں اور ان کیلئے واردات کرنا اور اس سے نمٹنا دونوں ہی آسان ہوتا ہے۔
عام خیا ل ہے کہ زیادہ تر بچیاں ہی جنسی زیادتی کی شکار ہوتی ہیں لیکن بچے بھی یکساں طور پر اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ دوسری جانب بچوں سے زیادتی کے واقعات محض ان پڑھ اور غریب طبقوں تک محدود نہیں۔ ‘ یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، ہر خطے، ہر طبقے ، ہر معاشی گروہ میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ لڑکے جنسی زیادتی کا بہت زیادہ شکار ہوتے ہیں لڑکیوں کے برابر ہی۔ وجہ یہ ہے کہ معاشرتی لحاظ سے لڑکیوں کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے جبکہ لڑکوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کرلیتے ہیں۔
جنسی زیادتی: اپنے بچے پر نظر رکھئے
اگر کوئی بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے تو کئی ایک علامات سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر آشا بیدار کے مطابق والدین کو نظر رکھنی چاہئے کہ کیا ان کے بچے کے رویے اور برتاؤ میں کوئی فوری تبدیلی تو نہیں ہورہی ہے۔ ‘ نیند ، خوراک کے دورانئے میں تبدیلی، اسکول میں کارکردگی خراب ہونا، خوف اور ڈراؤنے خواب ، غصہ اور تناؤ ( خصوصاً کھلونوں اور جانوروں پر) میں اضافہ ، افسردگی اور اُداسی وغیرہ پر نظر رکھی جائے،’ انہوں نے کہا۔
‘اس کے ساتھ ساتھ معاشرے سے بے رخی کا رویہ ، بہت چھوٹے بچے کی طرح کا برتاؤ، بہت رونا، اچانک تکلیف اور درد اُٹھنا، پیٹ میں درد اور بچے کی خود اعتمادی میں کمی جیسی چیزوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے،’ انہوں نے کہا۔
جہاں تک بڑے بچوں اور بلوغت میں قدم رکھنے والے نو عمر بچوں کا سوال ہے تو جرائم میں پڑنے کے علاوہ وہ مختلف زیادتی اور دیگر خطرناک کاموں کی جانب مائل ہوسکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ان رویوں کو شروع کرنے میں جنسی زیادتی کا دخل ہو۔ اسی لئے والدین اور دیکھ بھال کرنے والوں کو خیال رکھنا ہوگا کہ کیا ان کا بچہ شدید دباؤ اور ہیجان سے تو نہیں گزرہا۔
بیدار نے بتایا کہ بچوں کو جنسی زیادتی سے بچانے کیلئے سربراہ ور والدین بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ ذیادتی کے شکار بچوں کو سنبھلانے اور نارمل بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کا کے مطابق والدین تحفوں ، زیادہ توجہ اور محبت دے کر ایسا کرسکتے ہیں۔
ان کا اصرار ہےکہ سب سے ضروری ہے کہ بچے یہاں تک کہ بڑے بچوں سے بھی بات کی جائے کہ وہ اپنی حفاظت کیسے کریں۔
والدین اور بچے کے درمیان ایسے مسائل پر گفتگو کے راستے ہمیشہ کھلے ہونے چاہئے تاکہ بچے اپنے تمام مسائل اور الجھنوں پر نہ صرف والدین سے بات کرتے رہیں بلکہ مشورے بھی لیتے رہے اور کسی زیادتی کے بعد اس سے والدین کو آگاہ کرسکیں۔
بچے پر یقین نہ رکھنا، اس پر الزام لگانا یا غصے کا اظہار کرنا نہ صرف بچے کو آپ سے مزید دور کردے گا بلکہ ضروری ہے کہ (جنسی) زیادتی پر بچے کو موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے۔
غلط فہمیاں اور حقائق
غلط فہمی: صرف غریب علاقوں اور خاندانوں میں ہی بچوں سے زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں۔
حقیقت: بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات ہر طبقے ، معاشرے اور خاندان میں ہوسکتے ہیں۔
غلط فہمی: بچے سے جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ اس پر جسمانی تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
حقیقت: اکثر رپورٹ ہونے والے کیسوں میں بچوں پر زیادتی کرنے والا اسے تشدد کا نشانہ نہیں بناتا بلکہ بلیک میل کرتے ہوئے اس کے جذبات سے کھیلتا ہے۔
غلط فہمی: بچوں سے (جنسی) زیادتی کرنے والوں کی نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار اور غبی ہوتے ہیں۔
حقیقت: صرف معمولی تعداد میں ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والا کم عقل، غبی یا کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہوتا ہے جبکہ اکثریت معاشرے میں شامل ہوتی ہے اور وہ معاشرتی طور پر بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں۔
بچوں سے جنسی زیادتی کےواقعات عموماً گھروں سے باہر ہوتے ہیں اور حملہ آور عموماً اجنبی ہوتے ہیں۔
حقیقت: جنسی زیادتی کےاکثر واقعات گھروں میں ہی ہوتےہیں۔ اکثر واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ حملہ آور خاندان کے قریب ہوتا ہے اور بچہ اس پر اعتماد کرتا ہے۔
غلط فہمی: بچے کی جنسی زیادتی کی رپورٹ سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔
حقیقت: اگر ایک بچے سے جنسی زیادتی کی رپورٹ نہ کرائی جائے تو حملہ آور کا حوصلہ بڑھتا ہے اور وہ مزید بچوں کا نشانہ بتاتا ہے۔
بشکریہ: سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی چائلڈ رائٹس ( سپارک)
تحریر: زوفین ٹی ابراہیم
بہ شکریہ ڈان اردو