خون آشام، شام

کعنان

محفلین
خون آشام، شام
حفیظ اللہ نیازی
21/12/2016


پچھلے 30 سال سے واحد سپر پاور امریکہ تجربہ انتہائی تلخ اور تکلیف دہ رہا۔ اُمت ِ مسلمہ پر بھاری رہے۔ بیسیوں لاکھوں لقمہ اجل بنے۔ لیبیا کے ساحلوں سے ’’تابہ خاک کاشغر‘‘، سوڈان تا انڈونیشیا جنگ و جدل، قتل وغارت، کشت وخوں کی آماجگاہ بنے۔ تکلیف، ناقابل برداشت رہی۔ بے بس مفلوک الحال مخلوق خدا، منہ آسمان طرف دعایہ آہ بکا، آسمان، زمین ایک کر گئی۔ چین اور روس نے انگڑائی لی۔ پچھلے چند سال سے، حالات کود کود تبدیل ہوئے، بجلی کوند مانند پھلانگتے نظر آئے۔ آج دنیا دو پاور سینٹر میں منتقل ہو چکی ہے۔ مسلماں خلقت کی آس امید بندھ رہی ہے۔ ذہنی دبائو اور ذاتی پژمردگی، کالم لکھنے کی ہمت جواب دینے کے قریب ہی۔ ہفتوں سے ذہنی دبائو تلے مجبور تھا کہ کالم کاروبار سے جان چھوٹنے کا بہانہ ڈھونڈو۔ مطالعہ، سوچیں، دل و دماغ کا روگ ہی تو ہیں۔ کالم روانگی کے بعد ہمیشہ ایک بے بسی، بے کیفی، غمگینی شدت اختیار کر جاتی ہے۔ ہر کالم، جان پر بن جاتا ہے۔ لگتا ہے جان چھڑانا مشکل، ’’چھٹتی نہیں منہ سے کافر لگی ہوئی‘‘۔

اس ہفتے الیپو (شام) پر گزرنے والی قیامت پر لکھنے کو دماغ مائل، دل کی اکتاہٹ مانع تھی۔ اوپر سے ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں روسی سفیر کا قتل، دو دہائیوں سے رو پزیر ہونے والے واقعات کا تسلسل ہی تو ہے۔ روس، غم اور غصے میں کھول رہا ہے۔ صدر پیوٹن معاملہ سلامتی کونسل میں لے جانے کی ٹھان چکے ہیں۔
صدر ایردوان، نامساعد حالات میں بہترین پرفارمر، صدر پیوٹن کو فون کر کے باور کرایا کہ ’’واقعہ تعلقات کو خراب کرنے کی مکروہ سازش ہے، مل کر ناکام بنائیں گے‘‘۔
ترک حکام نے قاتل کا تعلق ’’گولن نیٹ ورک‘‘ سے جوڑنے میں عجلت دکھائی ۔ نومنتخب صدر ٹرمپ نے اس کا سہرا اسلامی شدت پسندوں کے سر باندھا۔
روسی تجزیہ نگاروں اور ایجنسیوں نے الفاظ چبائے بغیر کہہ دیا کہ ’’قتل کے پیچھے نیٹو ممالک (یورپ و امریکہ) کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ملوث ہے‘‘۔
چیئرمین دفاعی کمیٹی ایوان بالا روس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’سازشی عناصر یا قاتل، داعش کے ہوں یا النصرہ سے، مقصد صرف اور صرف روس اور ترکی کی تیزی سے بڑھتی قربت میں رخنہ ڈالنا اور روس کو ترکی سے لڑوانا مقصود ہے۔ کامیاب نہیں ہوں گے‘‘۔
صدر پیوٹن اور صدر ایردوان نے فون پر اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ ’’روس اور ترکی کے بڑھتے تعلقات کے خلاف ہر سازش ناکام بن ادیں گے ‘‘۔ دو آرا نہیں کہ سی آئی اے اور انٹیلی جنس ایجنٹس کی پشت پناہی موثر رہی ہو گی۔ ہر طور، روسی سفیر کا قتل شام میں رو پذیر خون کی ہولی سے جڑا ہے۔ حالات کو خطرناک رخ ہی دے گا۔

80 کی دہائی میں سوویت یونین کی فیصلہ کن شکست، اقوام عالم کو ایک نئے دور میں دھکیل گئی۔ امریکہ اکلوتی عالمی طاقت بن کر ابھرا۔ ابھی روس افغان جنگ میں ’’گوڈے گوڈے‘‘ ملوث ہی تھا کہ امریکہ نے موقع غنیمت جانا اور اپنے پڑوس میں واقع براعظم جنوبی امریکہ پر قیامت ڈھا دی۔
ارجنٹائن (فاک لینڈ کی جنگ) کے جنوبی سمندری کناروں سے لیکر میکسیکو تک، تمام لاطینی ممالک میں اودھم مچائے رکھا۔
1983 میں پاناما کینال پر قبضہ سے جس سفر کا آغاز ہوا،
آج ملک شام میں برے انجام کے قریب ہے۔ شام کے اندر کھل کھیلنے سے پہلے، افغانستان سے شروع فراڈ، جھوٹ، ننگ پر مبنی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ پلک جھپکتے اپنا اگلا پڑائو عراق میں ڈال چکی تھی۔
لیبیا کے مغربی ساحلوں تک پہنچنے سے پہلے، ایران، پاکستان، عراق، یمن، سوڈان، صومالیہ، مصر ، انڈونیشیا، الجزائر کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی۔ خونِ مسلم ارزاں رہا۔
شام کے بعد سعودی عرب اور ترکی آخری اسٹاپ بننا تھے۔ اللہ کی اسکیم، امریکہ آج افغانستان، عراق، شام سے اپنا بوریا بستر سمیٹنے کو ہے۔ کیا شام کی جنگ فیصلے کی گھڑی ہے؟

ساڑھے تین سال پہلے، امریکی ارادے بھانپتے، ناچیز نے سالوں پہلے لکھا، ’’کیا امریکہ اور اتحادیوں کو معلوم نہیں کہ شام، لیبیا نہیں، جان کے لالے پڑجائیں گے‘‘۔ وہ وقت، جب روس اور چین دوربین کے فوکس میں نہ تھے۔ کوئی باک نہیں کہ بشار الاسد (اپنے والد کے نقش قدم پر) کے نظریاتی اور حکومتی جبروتشدد نے اکثریتی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ اور زندگی کو اجیرن بنائے رکھا۔ اکثریتی مسلمانوں کا عقیدہ وجہ نزاع بن گیا۔ جاری بغاوت کی بڑی وجہ بھی یہی کہ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘۔ امریکہ جو ایسے مسلکی اختلافات کی تلاش میں لیبیا کی شاندار بربادی کے بعد، شام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی ٹھان چکا تھا۔ پچھلے چار سالوں میں اپنے مختلف کالموں میں شام میں جاری جنگ کی پیشگی اطلاعات دی تھی۔ بدقسمتی، کہ جو لکھا وہ ہو کر رہا۔ مثبت پہلو کہ امریکی ہزیمت اور پسپائی کا جو احاطہ سالوں پہلے کیا، وہ بھی ساتھ ساتھ روبہ عمل ہے۔

سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد، امریکہ کا یورپ میں بیلسٹک ڈیفنس میزائل کی تنصیبات کو مضبوط و مربوط بنانا یا ’’ٹاروار‘‘ پروگرام کو بام عروج دینا، عقل وفہم کے کسی خانہ میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔ صدر پیوٹن نے صدارتی ہوش سنبھالتے ہی امریکی نقل وحرکت اور عزائم کو خشمگین نگاہوں سے دیکھا۔ حالات کی ستم ظریفی کہ دگرگوں اکانومی بھی امریکی مفادات کی گردش و تغیر میں ممدومعاون رہی۔ ماننا ہو گا، کہ رعونت ٹس سے مس نہ ہوئی۔
10 ستمبر 2013 ، صدر اوباما نے اپنے نشری خطاب میں فرمایا ’’میں نے شام پر محدود حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ کمانڈر انچیف کی حیثیت سے مجھے ایسا کرنے کا پورا اختیار ہے۔ پھر بھی میری خواہش ہے کہ امریکی کانگرس اور عوام میرے اس فیصلے کو صدق دل سے قبول کریں‘‘۔

صدر اوباما کی نشری تقریر کے اگلے دن 11 ستمبر 2013 کو روسی صدر پیوٹن نے جواب آں غزل میں ایک خطیبانہ کالم امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کی نذر کیا۔ مدلل کالم کا لب لباب اتنا کہ ’’اوباما کا ایسا قدم خطرناک، شام کے اندرونی حالات میں مداخلت اور اقوام عالم کی توہین ہوگا‘‘۔
اس سے قبل روس سلیقے سے صوبہ کریمیا کو یوکرائن سے علیحدہ کرکے اپنا حصہ بنا چکا تھا۔
امریکہ اور یورپ کے سینے پر مونگ دل چکا تھا۔
صدر پیوٹن کا انتباہ تریاق ثابت ہوا۔ امریکہ، روسی عزائم کو بھانپتے اپنی افواج تو شام میں نہ اتار سکا۔ البتہ دو مسلم ممالک کو گن پوائنٹ پر حکومتوں اور عوام کی مرضی کے برخلاف شام کی جنگ میں جھونک گیا۔ خاطر خواہ نتائج بھی ملنا شروع ہو گئے۔
بشار الاسد کے حالات قابو سے باہر ہوئے تو ستمبر 2015 میں روس بنفس نفیس کود پڑا۔ وہ دن ہے، امریکہ نامساعد حالات کا شکار ہے۔
منافقت ملاحظہ فرمائیں، عراق کے شمال اور مغرب پر بمباری، توپ و تفنگ اور گولہ بارود جس نظریے اور مسلک کے لوگوں کے خلاف اور جن کا قلع قمع جاری ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت، روس کی مدد سے بین ہی انہی لوگوں اور ایسی جہادی تنظیموں کو کچلنے میں مصروف ہیں۔
عراق اور شام دونوں جگہ پر ایک ہی طرح کی جنگ، ایک ہی طرح کی تنظیموں کے خلاف جاری ہے۔ موصل (عراق) اور الیپو( شام)، دونوں جگہ داعش، القاعدہ ، النصر ، سلفی، نجانے کیا کیا، ایک ہی قسم مصروفِ جنگ ہیں۔
امریکہ کے نزدیک ایسے لوگ موصل میں دہشت گرد ہیں جبکہ الیپو میں باغی کہلاتے ہیں۔ دونوں جگہ ہسپتال، ڈاکٹر، بچے، عورتیں، معصوم شہری نشانہ بن رہے ہیں۔
موصل پر چڑھائی’’جائز‘‘، جبکہ الیپو کی جنگ’’تاریخ انسانی کاالمیہ‘‘ ہے۔ منافقت ساتویں آسمان کو چھو چکی ہے۔

الیپو پر ہونے والے ظلم کی بے شمار ویڈیوز منظر عام ہیں۔ ان میں بہت ساری سچی ہیں۔ کچھ ظلم باغیوں نے کئے، اور بہت سارے ظلم روس اور شامی فوجیں ڈھا رہی ہیں۔
امریکہ سے پوچھنے کی جسارت ہو سکتی ہے، کہ شام کی بے مقصد جنگ نے کیا فائدہ دیا؟
آج بشار الاسد مزید طاقتور بن کر سامنے آیا ہے۔ روس کو علاقے میں اثرورسوخ ملا۔ روسی سفیر کا قتل ترکی اور روس کو مزید قریب کر گیا۔
اقوام متحدہ میں چین اور روس کا شام پر ویٹو، امریکہ کو بے بس بنا چکا۔ اب تو صدر پیوٹن سے ہی گزارش کرنی ہے کہ بشار الاسد سے استعفیٰ لے کر ایک نمائندہ حکومت کا کارنامہ سرانجام دے دیں۔ شاید یہی ممکن ہو۔

ح
 

ربیع م

محفلین
ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ خربوزہ چھری کے اوپر ہو یا نیچے کٹنا خربوزے نے ہی ہے.
سپر پاور ایک امریکا ہو یا امریکا اور روس کٹنا مسلمانوں نے ہی ہے.
اچھا
روسی سفیر کے قتل کو سازش قرار دیتے ہوئے ہر جانب انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں تو خود روس کی جانب انگلیاں کیوں نہیں اٹھ رہیں؟
کیونکہ اس قتل کا سب سے زیادہ فائدہ روس نے سمیٹا ہے اور صرف ایک پہلو سے نہیں مختلف پہلوؤں سے سمیٹا ہے.
 
Top