مہ جبین
محفلین
خوگرِ جبرِ مشیت نہ ہو ایسا بھی نہیں
آدمی ذات کے چکر سے نکلتا بھی نہیں
ہر نفس کوئی قریبِ رگِ جاں رہتا ہے
یہ الگ بات کہ میں نے اُسے دیکھا بھی نہیں
وقت کی دھول سے دھندلا گئے ماضی کے نقوش
اب تو پہچان کی حد میں تِرا چہرہ بھی نہیں
جتنی تندی تِری نفرت کے خدو خال میں ہے
اتنی شدت سے تو میں نے تجھے چاہا بھی نہیں
ہجر کی رات کا عالم بھی عجب عالم ہے
وقت رکتا بھی نہیں اور گزرتا بھی نہیں
ہائے وہ اشکِ تمنا جو دَمِ پرسشِ دوست
دل میں ٹھہرا بھی نہیں آنکھ سے ٹپکا بھی نہیں
گردشِ وقت کبھی راہ میں حائل تھی ایاز
اب جہاں میں ہوں وہاں وقت کا سایہ بھی نہیں
ایاز صدیقی