محمد وارث
لائبریرین
خَبَرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
مجھے خبر ملی ہے کہ اے میرے محبوب تو آج رات آئے گا، میرا سر اس راہ پر قربان جس راہ پر تو سوار ہو کر آئے گا۔
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ اُمید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد
جنگل کے تمام ہرنوں نے اپنے سر اتار کر اپنے ہاتھوں میں رکھ لیے ہیں اس امید پر کہ کسی روز تو شکار کیلیے آئے گا۔
کششے کہ عشق دارد نہ گزاردت بدینساں
بجنازہ گر نیائی بہ مزار خواہی آمد
عشق میں جو کشش ہے وہ تجھے اسطرح زندگی بسر کرنے نہیں دے گی، تو اگر میرے جنازے پر نہیں آیا تو مزار پر ضرور آئے گا۔
بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازاں کہ من نمانم بہ چہ کار خواہی آمد
میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آجا کہ میں زندہ رہوں۔ اسکے بعد جبکہ میں زندہ نہ رہوں گا تو پھر تو کس کام کیلیے آئے گا۔
بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شَوَد اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد
تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔
سرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
مجھے خبر ملی ہے کہ اے میرے محبوب تو آج رات آئے گا، میرا سر اس راہ پر قربان جس راہ پر تو سوار ہو کر آئے گا۔
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ اُمید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد
جنگل کے تمام ہرنوں نے اپنے سر اتار کر اپنے ہاتھوں میں رکھ لیے ہیں اس امید پر کہ کسی روز تو شکار کیلیے آئے گا۔
کششے کہ عشق دارد نہ گزاردت بدینساں
بجنازہ گر نیائی بہ مزار خواہی آمد
عشق میں جو کشش ہے وہ تجھے اسطرح زندگی بسر کرنے نہیں دے گی، تو اگر میرے جنازے پر نہیں آیا تو مزار پر ضرور آئے گا۔
بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازاں کہ من نمانم بہ چہ کار خواہی آمد
میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آجا کہ میں زندہ رہوں۔ اسکے بعد جبکہ میں زندہ نہ رہوں گا تو پھر تو کس کام کیلیے آئے گا۔
بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شَوَد اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد
تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔