ابھی کچھ دن پہلے ہم نے اسی موضوع پر ایک گفتگو میں اسی شعر کا حوالہ دیا کہ یہی بات اگر نثر میں کہی جاتی تو یقینآ قابلِ گرفت ہوتی لیکن شعر میں یہی بات شاعرانہ تعلی کے زمرے میں آئے گی۔
مزید یہ کہ شاعر کے خیالات اس خدائے برتر کے لیے نہیں جس نے ہم سب کو، اس کائینات کو پیدا کیا بلکہ یہ تو اس خدا کے بارے میں ہے جسے انسان نے اپنے معبود کے طور پر گھڑ لیا۔ امید ہے اس مختصر سے پیراگراف میں ہم اپنا مطلب بیان کرپائے ہوں۔
اقبال کے شعر کے حوالے سے استاد محترم
محمد یعقوب آسی صاحب نے خوب وضاحت کردی ہے کہ ایمانیات کی بنیاد قرآن وسنت ہے نہ کہ ’’ بانگ درا ‘‘ وغیرہ ۔
رہا آپ کا یہ ارشاد کہ یہ بات ہے نثر میں تو قابل گرفت ہے لیکن شعر میں شاعرانہ تعلی کے زمرے میں آتی ہے ۔
میرے ناقص علم کے مطابق ’’ تعلی ‘‘ کا مطلب ’’ بڑا پن ‘‘ ہے ۔ اب شاعرانہ تعلی اپنے بارے میں ہو یا اپنے کسی معاصر یا مد مقابل کے بارے میں یا مخلوقات میں سے کسی اور کے بارےمیں تو یہ بات کچھ سمجھ آتی ہے کیونکہ شعرا کے بارےمیں یہ بات مشہور ہے (اشعرہم اکذبہم ) یعنی جتنے زیادہ جھوٹ بولے گا اسی قدر بڑا شاعر کہلائے گا ۔ لیکن یہ کون سی تعلی ہے کہ مخلوق اٹھ کر خالق پر تبصرہ شروع کردے ۔ کم از کم اسلامی نظریات کو سچ سمجھنے والےشعراء کرام کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ۔
ابھی کل ہی نظر سے گزرا ایک واقعہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں (غالبا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کیا ہے )کہ لبید ایک بہت بڑا شاعر گزرا ہے اور حدیث میں اس کی بعض اچھی باتوں کی تعریف بھی موجود ہے ایک دفعہ ایک مجلس سجی ہوئی تھی کہ اس نے ایک شعر یوں پڑا :
ألا کل شیء ما خلا اللہ باطل
وکل نعیم لا محالۃ زائل
اللہ کے علاوہ ہر شے ختم ہونے والی ہے جبکہ ہر قسم کی نعمتیں زائل ہوجانے والی ہیں
اسی مجلس میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ بھی تشریف رکھتے تھے جب انہوں نے شعر کا آخر مصرعہ سنا تو فرمایا :
کذبت
آپ نے غلط بات کہی ہے ۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ ’’ جنت کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں ‘‘
یہاں سے پتہ چلتا ہے صحابہ کرام علیہم الرضوان دین کے معاملے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے ۔ اور پھر صحابہ کرام میں بڑے بڑے شعرا کرام گزرے ہیں کسی سے خالق کے حق میں اس طرح کی ’’ تعلی ‘‘ منقول نہیں ہے ۔