طارق شاہ
محفلین
غزل
خُود حِجابوں سا، خُود جَمال سا تھا
دِل کا عالَم بھی بے مِثال سا تھا
عکس میرا بھی آئِنوں سے نہاں
وہ بھی اِک کیفیّت خیال سا تھا
دشت میں، سامنے تھا خَیمۂ گُل
دُورِیوں میں عَجب کمال سا تھا
بے سَبَب تو نہیں تھا آنکھوں میں
ایک مَوسَم، کہ لا زَوَال سا تھا
خَوف انْدھیروں کا، ڈر اُجالوں سے
سانحہ تھا، تو حسبِ حال سا تھا
کیا قیامَت، کہ حُجلَۂ جاں میں !
اُس کے ہوتے ہُوئے، مَلال سا تھا
جِس کی جانب اداؔ! نظر نہ اُٹھی
حال اُس کا بھی، میرے حال سا تھا
اداؔ جعفری
خُود حِجابوں سا، خُود جَمال سا تھا
دِل کا عالَم بھی بے مِثال سا تھا
عکس میرا بھی آئِنوں سے نہاں
وہ بھی اِک کیفیّت خیال سا تھا
دشت میں، سامنے تھا خَیمۂ گُل
دُورِیوں میں عَجب کمال سا تھا
بے سَبَب تو نہیں تھا آنکھوں میں
ایک مَوسَم، کہ لا زَوَال سا تھا
خَوف انْدھیروں کا، ڈر اُجالوں سے
سانحہ تھا، تو حسبِ حال سا تھا
کیا قیامَت، کہ حُجلَۂ جاں میں !
اُس کے ہوتے ہُوئے، مَلال سا تھا
جِس کی جانب اداؔ! نظر نہ اُٹھی
حال اُس کا بھی، میرے حال سا تھا
اداؔ جعفری