خیالاتِ زرّیں
تو رازِ فراغت کیا جانے محدود تری آگاہی ہے
اپنے کو ہرشاں حال سمجھنا ، عقل کی یہ کوتاہی ہے
دولت کیا ؟ اک روگ ہے دل کا ، حرص نہیں گمراہی ہے
دنیا سے بے پرواہ رہنا سب سے بڑی یہ شاہی ہے
اس قول کو میرے مانے گا جو صاحبِ دل ہے دانا ہے
کہتے ہیں جسے " شاہنشاہی " حاجت کا روا ہو جانا ہے
پینے کو میسّر پانی ہے کھانے کے لئے حاضر ہے غذا
تفریح کو سبزہ جنگل کا ، صحت کی محافظ صاف ہوا
پوشش کے لئے مبلوس بھی ہے ، رہنے کو مکاں بھی ستھرا سا
اور اس کے سوا کیا حاجت ہے ، انصاف تو کر تو دل میں ذرا
راحت کے لئے جو ساماں ہیں قدرت نے بہم پہنچائے ہیں
اے بندۂ زر پھر تیری ہوس نے پاؤں یہ کیوں پھیلائے ہیں
دولت کا نتیجہ کلفت ہے ، سامانِ امارت ذلّت ہے
جس دل میں ہوس کی کثرت ہے دور اس سے حقیقی راحت ہے
ارمان بہت ہیں کم کردے ہستی یہ نہیں ، اک غفلت ہے
آغاز سراپا دھوکھا ہے ، انجام سراسر عبرت ہے
تاریخ اُٹھا ! بتلائے گی وہ " دنیا میں خوشی کا نام نہیں
جس دل پہ ہوس کا سکّہ ہے اُس دل کے لئے آرام نہیں
صحت میں تری کچھ حرج نہیں اعضا میں ترے نقصان نہیں
پھر بھی یہ شکایت تجھ کو ہے "اسباب نہیں سامان نہیں"
انعامِ خدا کا منکر ہے اللہ پہ اطمینان نہیں
تو حرص و حوس کا بندہ ہے ، مظبوط ترا ایمان نہیں
دنیا کی حکومت تری ہے ، اپنے کو گدا کیوں کہتا ہے
سامانِ فراغت حاضر ہیں بے کار پریشاں رہتا ہے
یہ ابر، یہ وادی ، یہ گلشن ، یہ کوہ بیاباں یہ صحرا
یہ پھول ، یہ کلیاں ، یہ سبزہ ، یہ موسمِ گل ، یہ سرد ہوا
یہ شام کی دلکش تفریحیں ، یہ رات کا گہرا سنّاٹا
یہ پچھلے پہر کی رنگینی ، یہ نورِ سحر یہ موجِ صبا
معبود کی کس کس بخشش کو مکرے گا چھپائے جائے گا
اللہ کی کس کس نعمت کو اے منکرِ دیں جھٹلائے گا
اللہ کی رحمت عام ہے سب پر "شاہ " ہو اس میں یا ہو "گدا"
یہ چاند ، یہ سورج ، یہ تارے ، یہ نغمہ بلبل ، یہ دریا
دونوں کے لئے یہ تحفے ہیں ، کچھ فرق اگر ہے تو اتنا
ان جلووں سے لذّت پاتا ہے آزاد کا دل منعم سے سوا۔
شاہوں کے دلوں میں تاجِ گراں سے درد سا اکثر رہتا ہے ۔
جو اہلِ صفا ہیں ان کے دل میں نور کا چشمہ بہتا ہے
آگاہ ہو جو تو چاہتا ہے ، دنیا میں نہیں وہ ہونے کا
اسبابِ طرب کا جویا تو ، سامان یہاں ہے رونے کا
"دولت" کو صِلا کیا سمجھا ہے اخلاق کی قوّت کھونے کا ؟
ایمان کے دل کا داغ ہے یہ سکّہ یہ نہیں ہے سونے کا
کیا کرتا ہے ناداں ؟ بھاگ اِدھر سے نار ہے اِن دیناروں میں
یوں ہاتھ نہ ڈال ان دوزخ کے لَو دیتے ہوئے انگاروں میں
اسباب تمول زنجیریں ، ایونِ حکومت زنداں ہے
دلچسپ جسے تو سمجھا ہے ، وحشت کا وہ ساز و ساماں ہے ،
سکوں کی چمک پر مرتا ہے ، دولت کے لئے سرگرداں ہے
تو رازِ فنا معلوم تو کر ، دنیا کے لئے کیوں حیراں ہے
اُس شے سے تعلق ہی کیسا ، جو چیز کے جانے والی ہے
سامانِ تعیش جمع کئے جا ! موت بھی آنے والی ہے
آراستہ ہو کر جلووں سے جب سامنے دنیا آتی ہے
راحت کے ترانے گاتی ہے ، دولت کی چمک دکھلاتی ہے
جب آنکھ پہ قبضہ کرتی ہے ، سینہ میں ہوس بھڑکاتی ہے
ایماں و یقیں کی شمعِ درخشاں ، بن کے دھواں اڑ جاتی ہے
ملتا ہی نہیں ہے جسم سے پھر جب عضو کوئی کٹ جاتا ہے
بس یونہی ہوس کے بندے کا معبود سے دل ہٹ جاتا ہے
شاہوں کی امارت جسمانی ، قانع کی حکومت روحانی
ظاہر کی مسرّت سلطاں کو ، آزاد کو لذّت وجدانی
دنیا کے تماشے عبرت زا ، عقبےٰ کے مناظر لاثانی
مرنے میں حقیقی آزادی ، جینے میں سراسر حیرانی
بندے جو ذرا بھی عقل ہو تجھ میں نام جہاں میں کر جانا
اللہ اگر توفیق تجھے دے موت سے پہلے مرجانا
آرام کی خوہش مہمل ہے ، یہ "قبر " نہیں ہے "دنیا " ہے
یہ "زیست " نہیں ہے "کلفت " ہے ، یہ "سانس" نہیں ہے "ایذا" ہے
آگاہ ہو نادان ! کدھر تو پیاس بجھانے جاتا ہے
ذرّوں کی چمک کا یہ چشمہ ، یہ ریگِ رواں کا دریا ہے
سُن جوش کی باتیں غور سے تُو مشتاق نہ بن اس ارذل کا
اے دوست ! یہ دنیا " سایہ ہے گرمی کے پریشاں بادل کا "
جوش ملیح آبادی
روح ادب
29-31
تو رازِ فراغت کیا جانے محدود تری آگاہی ہے
اپنے کو ہرشاں حال سمجھنا ، عقل کی یہ کوتاہی ہے
دولت کیا ؟ اک روگ ہے دل کا ، حرص نہیں گمراہی ہے
دنیا سے بے پرواہ رہنا سب سے بڑی یہ شاہی ہے
اس قول کو میرے مانے گا جو صاحبِ دل ہے دانا ہے
کہتے ہیں جسے " شاہنشاہی " حاجت کا روا ہو جانا ہے
پینے کو میسّر پانی ہے کھانے کے لئے حاضر ہے غذا
تفریح کو سبزہ جنگل کا ، صحت کی محافظ صاف ہوا
پوشش کے لئے مبلوس بھی ہے ، رہنے کو مکاں بھی ستھرا سا
اور اس کے سوا کیا حاجت ہے ، انصاف تو کر تو دل میں ذرا
راحت کے لئے جو ساماں ہیں قدرت نے بہم پہنچائے ہیں
اے بندۂ زر پھر تیری ہوس نے پاؤں یہ کیوں پھیلائے ہیں
دولت کا نتیجہ کلفت ہے ، سامانِ امارت ذلّت ہے
جس دل میں ہوس کی کثرت ہے دور اس سے حقیقی راحت ہے
ارمان بہت ہیں کم کردے ہستی یہ نہیں ، اک غفلت ہے
آغاز سراپا دھوکھا ہے ، انجام سراسر عبرت ہے
تاریخ اُٹھا ! بتلائے گی وہ " دنیا میں خوشی کا نام نہیں
جس دل پہ ہوس کا سکّہ ہے اُس دل کے لئے آرام نہیں
صحت میں تری کچھ حرج نہیں اعضا میں ترے نقصان نہیں
پھر بھی یہ شکایت تجھ کو ہے "اسباب نہیں سامان نہیں"
انعامِ خدا کا منکر ہے اللہ پہ اطمینان نہیں
تو حرص و حوس کا بندہ ہے ، مظبوط ترا ایمان نہیں
دنیا کی حکومت تری ہے ، اپنے کو گدا کیوں کہتا ہے
سامانِ فراغت حاضر ہیں بے کار پریشاں رہتا ہے
یہ ابر، یہ وادی ، یہ گلشن ، یہ کوہ بیاباں یہ صحرا
یہ پھول ، یہ کلیاں ، یہ سبزہ ، یہ موسمِ گل ، یہ سرد ہوا
یہ شام کی دلکش تفریحیں ، یہ رات کا گہرا سنّاٹا
یہ پچھلے پہر کی رنگینی ، یہ نورِ سحر یہ موجِ صبا
معبود کی کس کس بخشش کو مکرے گا چھپائے جائے گا
اللہ کی کس کس نعمت کو اے منکرِ دیں جھٹلائے گا
اللہ کی رحمت عام ہے سب پر "شاہ " ہو اس میں یا ہو "گدا"
یہ چاند ، یہ سورج ، یہ تارے ، یہ نغمہ بلبل ، یہ دریا
دونوں کے لئے یہ تحفے ہیں ، کچھ فرق اگر ہے تو اتنا
ان جلووں سے لذّت پاتا ہے آزاد کا دل منعم سے سوا۔
شاہوں کے دلوں میں تاجِ گراں سے درد سا اکثر رہتا ہے ۔
جو اہلِ صفا ہیں ان کے دل میں نور کا چشمہ بہتا ہے
آگاہ ہو جو تو چاہتا ہے ، دنیا میں نہیں وہ ہونے کا
اسبابِ طرب کا جویا تو ، سامان یہاں ہے رونے کا
"دولت" کو صِلا کیا سمجھا ہے اخلاق کی قوّت کھونے کا ؟
ایمان کے دل کا داغ ہے یہ سکّہ یہ نہیں ہے سونے کا
کیا کرتا ہے ناداں ؟ بھاگ اِدھر سے نار ہے اِن دیناروں میں
یوں ہاتھ نہ ڈال ان دوزخ کے لَو دیتے ہوئے انگاروں میں
اسباب تمول زنجیریں ، ایونِ حکومت زنداں ہے
دلچسپ جسے تو سمجھا ہے ، وحشت کا وہ ساز و ساماں ہے ،
سکوں کی چمک پر مرتا ہے ، دولت کے لئے سرگرداں ہے
تو رازِ فنا معلوم تو کر ، دنیا کے لئے کیوں حیراں ہے
اُس شے سے تعلق ہی کیسا ، جو چیز کے جانے والی ہے
سامانِ تعیش جمع کئے جا ! موت بھی آنے والی ہے
آراستہ ہو کر جلووں سے جب سامنے دنیا آتی ہے
راحت کے ترانے گاتی ہے ، دولت کی چمک دکھلاتی ہے
جب آنکھ پہ قبضہ کرتی ہے ، سینہ میں ہوس بھڑکاتی ہے
ایماں و یقیں کی شمعِ درخشاں ، بن کے دھواں اڑ جاتی ہے
ملتا ہی نہیں ہے جسم سے پھر جب عضو کوئی کٹ جاتا ہے
بس یونہی ہوس کے بندے کا معبود سے دل ہٹ جاتا ہے
شاہوں کی امارت جسمانی ، قانع کی حکومت روحانی
ظاہر کی مسرّت سلطاں کو ، آزاد کو لذّت وجدانی
دنیا کے تماشے عبرت زا ، عقبےٰ کے مناظر لاثانی
مرنے میں حقیقی آزادی ، جینے میں سراسر حیرانی
بندے جو ذرا بھی عقل ہو تجھ میں نام جہاں میں کر جانا
اللہ اگر توفیق تجھے دے موت سے پہلے مرجانا
آرام کی خوہش مہمل ہے ، یہ "قبر " نہیں ہے "دنیا " ہے
یہ "زیست " نہیں ہے "کلفت " ہے ، یہ "سانس" نہیں ہے "ایذا" ہے
آگاہ ہو نادان ! کدھر تو پیاس بجھانے جاتا ہے
ذرّوں کی چمک کا یہ چشمہ ، یہ ریگِ رواں کا دریا ہے
سُن جوش کی باتیں غور سے تُو مشتاق نہ بن اس ارذل کا
اے دوست ! یہ دنیا " سایہ ہے گرمی کے پریشاں بادل کا "
جوش ملیح آبادی
روح ادب
29-31