مقدس
لائبریرین
صفحہ 1
خیالستان کی پری
(1)
جب تک خیالستان کا مشہور پری غفیرہ، اس جرم کی کی مرتکب ہوئی۔ کہ "وہ شہریار کی بلا اجازت جس سبہا کا راجہ تھا، کامل تین روز اور تین رات اپنے فرض منصبی سے غیرحاضر رہی ہے۔" تو گو اس نے اپنی علالت اور مجبوری کے ہرچند عذر کئے۔ مگر شہریاری دربار نے اس کے لئے یہ فیصلہ کیا، کہ اس کے پر نوچ کھسوٹ کر خیالستان کی سرحد سے باہر نکال دو ۔ وہ اس سبہا میں کبھی شریک نہ ہونے پائے۔ اور خیالستان کی سرحد میں باقی عمر قدم نہ دھرے۔
شہریار کا یہ حکم ایک بجلی تھی جو عفیرہ کے دل پر گری۔ اور تمام امیدوں اور آرزؤں کو جلا کر خاک کر دیا۔ اس نے ایک حسرت بھری نظر تمام سبہا پر ڈالی۔ دنیا اس کی آنکھوں میں اندھیر تھی۔ اور آنسو کی لڑیاں اس کے رخساروں پر بہہ رہی تھیں۔ وہ روتی ہوئی آگے بڑھی۔ اور
صفحہ 2
بصد منت و سماجت یوں عرض کرنے لگی:۔
جنگل کے درند اور ہوا کے پرند پر راج کرنے والے راجا، خیالستان کا بچہ بچہ تیری حکومت کے گیت گا رہا ہے، جنوں کی زبردست قوم ایک دوسرے کو کھائے جاتی تھی، تیرے راج میں ایک گھاٹ پانی پی رہی ہے۔ چمنستان موسیقی جہاں دن دھاڑے پریاں لٹتی تھیں۔ آج وہاں تن تنا ہوا میں اچھلتی کودتی پھرتی ہیں۔ اور کسی کی اتنی مجال نہیں کہ آنکھ ملائے، اس وقت راحت منزل کا چپہ چپہ اور کونہ کونہ بارہ دری کا ایک ایک تنکا، درختوں کے پتے، ڈالیوں کے پھول پھولوں کی پنکھڑیاں میری اس جدائی پر جو کبھی ختم نہ ہو گئی، اس رات پر جس کی اب صبح نہ آئے گی۔ آٹھ آٹھ آنسو رو رہی ہیں۔ مجھے اتنی اجازت ملے، کہ جن محلوں میں میں نے پرورش پائی جن درختوں کے ہوئی نیچے میں بچپن میں کھیلی، جس گھاس پر میں نے قدم دھرے جس پر میں لوٹی، ان سب سے لپٹ کر رخصت ہو لوں۔"
غفیرہ کی یہ درخواست منظور ہوئی۔ خیالستانی لباس جو بدن پر تھا اتارا گیا۔ پر نوچ دیے گئے۔ اور وہ چیختی چلاتی، لپٹتی، لپٹاتی ایک ایک سے گلے مل کر خیالستان کی سرحد سے باہر نکل آئی۔
(2)
اب عفیرہ ایک دوسری دنیا میں تھی۔ جہاں گرمی میں لو کے تھپیڑے، برسات میں کڑک، چمک کل اور جاڑے میں کہراپالا موجود تھا،جن آنکھوں نے کبھی خواب میں بھی تکلیف نہ دیکھی تھی۔ اب وہ دن رات مصیبتیں دیکھتیں، جو دل رنج کے نام سے آشنا نہ تھا۔ اب اس پر پے در پے آفتیں پڑتیں، جو پاوں خیالستان میں وہاں چلتے پھرتے تھے۔ جہاں
صفحہ 3
مخملی زمین تھی۔ اب ان میں ببول کے کانٹے پار ہو جاتے، جس سر پر کبھی ایک بوند پانی کی نہ پڑی۔ اب اس پر چھاجوں مینہ پڑتا۔ اور جس رخ پر کبھی دھوپ کی چمک تک نہ آئی تھی۔ اب اس کو گرم ہوا کے جھونکے جھلسائے دیتے تھے۔
بہشت شہریار جو آسمانی جنت کا ایک نمونہ تھی، غفیرہ نے اس سے چھوٹ کر ایسی مصیبت ناک زندگی بسر کی۔ کہ اس کے نالوں کی چوٹ جانوروں تک کے کلیجہ دہلاتی تھی، تاروں بھرا آسمان اس کے سر پر
ہوتا، چاند کی روشنی اسے بیتاب کرتی۔ وہ دیوانہ دار خیالستان کی طرف دوڑتی۔ اور اس قہقہ دیوار سے سر ٹکرا کر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ دیکھتی۔ کہ دن بھر کے بچوں سے چھوٹے ہوئے پرند کس شوق سے جھٹ پٹے وقت لپک کر اپنے گھونسلوں میں دبکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی حالت کا خیال کرتی۔ خیالستان کی زندگی، سکھیوں کی چپہل پہل، سبھا کی رونق، درخت، درخت کے پتے، پتوں کی سرسراہٹ، ہوا کی چھیڑ چھاڑ، بلبلوں کی چہکار، پھولوں کی مہکار، تیتریوں کا تھرکنا، جب یہ سماں یاد آتا، تو کلیجہ مسوس کر رہ جاتی۔ رات کے اس سنسان وقت میں جب بادشاہ اپنے محلوں میں غریب اپنی جھونپڑوں میں بےخبر سوتے، دریا کا پانی تک تھم جاتا، نظام عالم کی ہر شے پر (خلاف اصول) سکون مطلق طاری ہوتا۔ وہ وطن کی یاد میں اٹھتی۔ اور خیالستان کی دیوار کے پاس ٹہلتی، ٹکریں مارتی، سر پھوڑتی، یہاں تک کہ تاڑ کے درختوں پر بسنے والی چڑیاں اس کے کانوں میں صبح کا پیغام پہنچا دیتیں۔
ایک رات جب کہ چودھویں کا چاند نیلگوں آسمان پر نہایت
صفحہ 4
تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ اور اس کی روشنی نے درودیوار جنگل اور میدان میں نورانی چادر بچھا دی تھی، غفیرا دریا کے کنارے جو خیالستان کے سرحد سے ملا ہوا لہریں لے رہا تھا، بیٹھی ہوئی اپنی تقدیر کو رو رہی تھی، قمر چہار دہم دریا کی گود میں لوٹ رہا تھا، غفیرہ قدرت کے اس کرشمے میں ایسی محو ہوئی کہ وہ چند لمحے کے واسطے اپنے تفکرات بالکل بھول گئی۔ دفعتا اس نے اپنا منہ اٹھایا اور ایک حسرت آمیز نظر خیالستان کی سرحد پر ڈالی۔ دیکھتی کیا ہے کہ فصیل کے بیچ میں سے شق ہوئی، اور ایک ایسی روشنی نمودار ہوئی جو اس دنیا میں غفیرہ نے نہ دیکھی تھی، وہ بے تاب ہو کر لپکی جس طرح روشنی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جاتی تھی اسی طرح غفیرہ کا شوق قدم بقدم تیز ہوتا جاتا تھا، سرحد کے قریب پہنچنا تھا کہ فصیل اسی طرح بند ہو گئی۔ اور وہ روشنی آنا فانا بالکل غائب! بہتیرا سر پٹکا، ہرچند چیخی چلائی، مگر بے سود یہ کچھ ایسا تعجب انگریز سماں تھا کہ غفیرہ اس مسئلہ پر جتنا غور کرتی تھی اتنا ہی پیچیدہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر وہ بھی خیالستان ہی کی رہنے بسنے والی تھی مگر اس قسم کا واقعہ اس نے تمام عمر میں کبھی نہ دیکھا تھا، سر پکڑ کر بیٹھ گی اور جس مقام پر سے فصیل شق ہوئی تھی وہاں ٹکٹکی باندھ لی۔ رہ رہ کر کلیجہ میں ہوک اٹھتی تھی اور خیال آتا تھا کاش چند لمحے پہلے پہنچ جاتی اور اس راز کو سمجھ جاتی، آخر یہ بھید ہے کیا؟ کیا میری طرح کوئی اور پری اس عتاب میں گرفتار ہوئی؟ مگر نہیں, ایسا ہوتا تو وہ چلی کہاں جاتی؟ زمین نگل جاتی، آسمان کھا جاتا؟
اب سمجھی، اوہو آج نو روز ہوگا، جب ہی یہ تمام سرحد جھاڑ
صفحہ 5
فانوسوں سے جگمگا رہی ہے، ابھی تو ایک دفعہ دیوار اور روشن ہوگی تاکہ اس دنیا والے بھی جنت شہریار کی روشنی سے آنکھیں ٹھنڈی کر سکیں۔ یہ رسم تو برسوں سے چلی آتی ہے کہ نوروز کی رات چند لمحات کے واسطے یہ دیوار دو دفعہ شق ہو جاتی ہے، شاید پہلی دفعہ میں نے نہ دیکھا ہو خءر میری تقدیر، بیٹھی ہوں۔
اس وقت غفیرہ پر ایک وجد کی حالت طاری تھی۔ یہ تعلق کہ اب تھوڑی دیر میں دیوار شق ہو گی، اس کو بیتاب کر رہا تھا، بیٹھتی تھی، اٹھتی تھی، تھک جاتی تو پھر بیٹھ جاتی، مگر نگاہ فصیل پر سے نہ ہٹتی۔
رات کا اپنی منزل کو پورا کرنا تھا کہ انہی خوش الحان پرندوں نے جن کے زمزموں سے غفیرہ کے کان آشنا تھے، صبح صادق استقبال میں نغمہ سنجی شروع کی۔ جس نے غفیرہ کے تمام ارمانوں کو خاک میں ملا دیا۔ اس نے ایک آہ سرد بھری اور مایوس ہو کر اٹھی چاہتی تھی کہ قدم آگے بڑھائے، دفعتہً فصیل شق ہوئی اور خیالستان کی روشنی سے تمام بیابان جگمگا اٹھا۔ غفیرہ دیوانہ وار دوڑی، اندر داخل ہوتی تھی کہ دروغہ جنت نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ برسوں کے بعد ایک ہم جنس کی صورت کا نظر آنا تھا کہ غفیرہ پاؤں پر گری اور کہا:-
کیا تقدیر مجھ کو اب یہ وقت نہ دکھائے گی۔ کہ میں خیالستان میں داخل ہوں، اے مبارک دروغہ میری خستہ حالت پر رحم کر۔ اور اتنی اجازت دے کہ میں ایک نظر بھر کر خیالستان کو دیکھ لوں۔"
داروغہ۔ عزیز۔ عزیزوں کی عزیز غفیرہ، مجھ کو تیرے ساتھ دلی ہمدردی ہے مگر اتنی مجال نہیں کہ بلااجازت شاہی تیرے ساتھ کوئی رعایت
صفحہ 6
کر سکوں۔ اگر ایسا کروں، تو جو حال آج تیرا ہے، وہی کل میرا ہوگا۔ ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ تو شہریار کے واسطے اس دنیا کا جس میں تو اب موجود ہے، کوئی ایسا تحفہ لا، جس سے بہتر شئے روئے زمین پر موجود نہ ہو، یہ وعدہ کرتا ہوں، کہ تیرا تحفہ دربار شاہی میں پہنچا دوں گا، اور تجھ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر تیرے تحفے نے شہریار کو خوش کر دیا، تو تجھ کو خیالستان میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی۔ بس وقت ہو چکا،اب میں زیادہ بات نہیں کر سکتا۔
ابھی یہ فقرہ پورے طور پر ختم بھی نہ ہوا تھا کہ دیوار بند، روشنی ندارد! اب غفیرہ پر خیالات کا ہجوم تھا، صبح ہو چکی تھی، اور سامنے کے پہاڑوں سے آفتاب جہاں تاب بلند ہوتا چلا آتا تھا۔ بہت سی ادھیڑ بن اور پیچ و تاب کے بعد غفیرہ نے یہ فیصلہ کیا کہ گو کہ کامیابی کی امید مشکل اور موہوم ہے لیکن اس سے زیادہ بیوقوف کون ہو سکتا ہے جو محض اس خیال سے کہ کام مشکل ہے، اس کا انجام دینے کی کوشش نہ کرے۔ میں اس وقت تک یہ کوشش جاری رکھوں گی کہ دنیا کا بہترین تحفہ شہریار کے واسطے لے جاؤں۔ جب تک موت میری اس آرزو کو مجھ سے جدا کردے۔
(3)
یہ فیصلہ قطعی تھا، اور اس کے بعد غفیرہ مدتوں جنگل کی خاک اڑاتی، اور شہروں کی گلیاں چھانتی پھری۔ اب اس کا کام صرف اشیا دنیوی کا مطالعہ تھا۔ رات کی نیند، دن کی بھوک، غرض اطمینان اور آرام کی صورت نہ تھی۔ جنگل کے پھل کھا کر پیٹ بھر لیتی، اور
صفحہ 7
چشموں کے پانی سے پیاس بجھاتی، گھڑی آدھ گھڑی کو کسی درخت کے نیچے پڑ رہی، نیند کا غلبہ ہوا آنکھ لگ گئی، ہوشیار ہوئی اور اپنی دھن میں ہڑبڑا کر دوڑی۔ آٹھ مہینہ کے قریب اسی طرح چکر لگاتی ہوئی وہ ایک روز جب کہ آفتاب غروب ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ ایک ایسے مقام پر پہنچی۔ جہاں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کا مجمع تھا۔ اور ایک اونچے سے ٹیلے پر ایک شخص کھڑا تھا جس پر یہ الزام تھا کہ اس نے مذہب میں رخنہ ڈالا اور ہمارے سچے دین کی توہین کی۔ چونکہ وہ اپنے خیالات پر اب تک قائم تھا اس لئے قوم نے اس کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔ یہ شخص کہ قیدیوں کی طرح گرفتار تھا اس کے ہاتھ پاؤں میں بیڑیاں پڑی تھیں اور جلاّد ننگی تلوار لئے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ جب وہ وقت قریب آیا کہ جلاد اس کا سر تن سے جدا کرے تو اس شخص نے سردار قوم سے یہ درخواست کی کہ میری آخری آرزو قوم سے صرف اتنی ہے کہ جو کچھ میں کہوں، بدنصیب قوم اس کو ٹھنڈے پٹیوں سن لے۔ اور اس کے بعد جو فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل ہو۔ درخواست منظور ہوئی اور اس نے یہ کہنا شروع کیا:-
"یہ وقت جو اب تھوڑی دیر بعد آنے والا ہے جب کہ یہ جسد خاکی اس ٹیلے پر تھوڑی دیر بعد تڑپ کا ٹھنڈا ہوجائے گا، اور یہ سر جس میں جنون اور سودا نہیں، بدنصیب قوم کی سچی محبت بھری ہوئی تھی۔ برسوں کا ساتھ چھوڑ کر اس جسن سے علیحدہ ہوگا میرے عقیدے کے موافق کبھی نہ کبھی آنے والا تھا مگر یہ موت وہ موت ہوگی جس پر ہزاروں زندگیاں قربان ہوب۔ جب بھی یہ موت نصیب نہ ہو۔ اے بدنصیب اور گمراہ
صفحہ 8
قوم! سچے مذہب میں جو کچھ آمیزش کی گئی ہے یہ بعض افراد کی نفسانیت ہے اور کچھ نہیں, مذہب کو مصنوعی لباس اور گوٹے ٹھپوں کی زیبائش سے بچاو۔ اور جس طرح سیدھا سادہ نازل ہوا، اسی طرح اس کو دوسروں کے سامنے پیش کرو۔ اے فطرت الہی کے برخلاف یقین کرنے والی قوم خدا کا عذاب تیرے ساتھ ہے اور وہ مقدس روحیں جن پر تم بہتان لگا رہے ہو، عنقریب تمہارے لیے بد دعائیں کرنے والی ہیں۔ عقل سے کام لو اور اس خیال سے کہ باپ دادا سے ہوتی آئی ہے عقیدہ کو مذہب میں داخل نہ کرو اس احکم الحاکمین کا جمال جس کی حکومت لازوال ہے، مجھ کو محبت سے اپنی طرف بلا رہا ہے۔ چل چل اے جلاد اپنا کام کر اور اس گمراہ قوم کا دل خوش کر دے۔
اس تقریر پر وہ مجمع ٹھٹھے مار کر ہنستا رہا مگر غفیرہ پر ایک خاص حالت طاری ہوئی اور اس نے اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ اس سے بہتر تحفہ دنیا میں کوئی اور نہ ہوگا۔ جلاد کی تلوار کا گردن پر پڑنا تھا کہ اس کی زبان سے قوم کا لفظ نکلا۔ غفیرہ آگے بڑھی اور خون کا وہ پہلا قطرہ جو اس کی گردن سے نکلا، مٹھی میں لیا اور خیالستان کی طرف واپس آئی۔
راستہ بھر اس کے دل کی کہ عجیب کیفیت تھی، وہ یقین کر رہی تھی کہ دنیا میں اس سے بہتر شئے اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ اس شخص کے خون کا پہلا قطرہ ہے جو زندگی جیسی نعمت کو قوم پر سے قربان کر گیا۔
غفیرہ اس اعتبار سے نہایت خوش نصیب تھی کہ اس کو آج زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا۔ اتفاق سے محض یہ جشن نوروز کا دن تھا۔
صفحہ 9
اس کے پہنچتے ہی دیوار شق ہوئی اور غفیرہ نے آگے بڑھ کر وہ خون کا قطرہ پیش کیا۔
داروغہ: غفیرہ تیری محنت قابل داد ہے۔ بے شک تم نے بہت مصیبتیں بھگت کر یہ نادر شئے فراہم کی۔ مجھے یہ کہنے میں عذر نہیں کہ یہ دنیا کی اچھی شئے ہے، لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے بہتر شئے دنیا میں موجود نہیں۔ جا پھر کوشش کر، اور اگلے سال پھر آ۔
(4)
فصیل بند ہوگئی اور غفیرا حسرت نصیب دل پہلو میں لیے شہر شہر گاؤں گاؤں میں خاک اڑاتے پھری، یوں تو رات دن ہی دنیا کے سینکڑوں کرشمے اس کی آنکھ سے گزرتے مگر یہ خیال کے دنیا کی بہترین شے کیا ہے؟ اس کو سخت پریشان کر رہا تھا۔ پھرتی پھراتی وہ ایک روز ایسے مقام پر پہنچی جہاں ایک جوان اکلوتی بچی مرض الموت میں گرفتار تھے اور عزیزوں کا مجمع اس کے چاروں طرف تھا۔ موت خیالستان میں چاہے غیر معمولی شے ہو مگر اس دنیا میں تو کوئی لمحہ اس سے خالی نہ تھا۔ غفیرہ بھی یہ اچھی طرح سمجھتی تھی مگر ان عزیزوں کے چہروں پر کچھ ایسی حسرت اور مایوسی برس رہی تھی کہ وہ تھوڑی دیر وہاں ٹھٹکی، اس مجمع میں ایک عورت ایسی بھی تھی جس کو ہر چند لوگ سمجھا رہے تھے مگر اس کی آنکھ سے آنسو نہ تھمتا تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد جھکتی تھی اور مریضہ کے منہ کو بوسہ دیتی تھی۔ اس کے ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگاتی تھی اور اپنے ہاتھ اس کے منہ پر پھیرتی تھی۔ دفعتہ مریضہ نے درد سے بے تاب ہو کر ایک آہ کی۔ اور ان آنکھوں سے جس میں سوا
صفحہ 10
ناامیدی کے اور کچھ نہ تھا، اس عورت کو دیکھا اور دیکھ کر کہا:-
"بس اماں جان خدا حافظ"
مریضہ کی زبان سے یہ لفظ ایسے درد سے نکلے کہ سیدھے اس عورت کے کلیجے پر جا گرے، وہ چاہتی تھی کہ ضبط کرے مگر نہ کر سکی۔ بے اختیار ایک چیخ ماری اور کہا:-
"ماں کی جان صالحہ! گو موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن میں وہ بد نصیب ماں ہوں، جس نے اپنی بچی کو تمام عمر کی کمائی اور زندگی کا حاصل تھی، اپنے ہاتھ سے موت کے منہ میں دھکیلا، اور وہ شخص جس کے نام سے ترے بدلنے رعشہ ہوتا تھا اور تو لرزتی تھی اے صالحہ میں نے زبردستی شادی تیری کر کے تجھے اس ظالم قصائی کے سپرد کردیا جس کے ظلم آج تیری جان لے کر بھی ختم نہ ہوئے۔ نہ معلوم مجھے اس دنیا میں ابھی کتنے روز اور جینا ہے مگر اب زندگی کا ہر لمحہ مجھ پر لعنت برسائے گا، دنیا کی ہر جاندار اور بے جان شئے مجھ کو نفرت سے دیکھے گی، زمین کا وہ حصہ جس کے اوپر اور آسمان کا ٹکڑا جس کے نیچے میں زندہ ہوں گی، بلند آواز سے کہے گا کہ یہی ہے وہ سنگ دل ماں جس نے ایک معصوم روح کو ناشاد اور نامراد دنیا سے رخصت کیا اور خدا کی ایک مخلوق اور اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو دیدہ و دانستہ دنیا کے عذاب میں پھنسادیا۔ سنگدل ماں کی مظلوم و معصوم صالحہ، وہ صالحہ جو ماں کے حکم پر فدا اور اس کی خواہش پر قربان ہو رہی ہے۔ جس طرح میں تجھ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں اسی طرح قیامت کے روز نادم اور شرمسار نہیں خدا کے حضور میں نافرمان
خیالستان کی پری
(1)
جب تک خیالستان کا مشہور پری غفیرہ، اس جرم کی کی مرتکب ہوئی۔ کہ "وہ شہریار کی بلا اجازت جس سبہا کا راجہ تھا، کامل تین روز اور تین رات اپنے فرض منصبی سے غیرحاضر رہی ہے۔" تو گو اس نے اپنی علالت اور مجبوری کے ہرچند عذر کئے۔ مگر شہریاری دربار نے اس کے لئے یہ فیصلہ کیا، کہ اس کے پر نوچ کھسوٹ کر خیالستان کی سرحد سے باہر نکال دو ۔ وہ اس سبہا میں کبھی شریک نہ ہونے پائے۔ اور خیالستان کی سرحد میں باقی عمر قدم نہ دھرے۔
شہریار کا یہ حکم ایک بجلی تھی جو عفیرہ کے دل پر گری۔ اور تمام امیدوں اور آرزؤں کو جلا کر خاک کر دیا۔ اس نے ایک حسرت بھری نظر تمام سبہا پر ڈالی۔ دنیا اس کی آنکھوں میں اندھیر تھی۔ اور آنسو کی لڑیاں اس کے رخساروں پر بہہ رہی تھیں۔ وہ روتی ہوئی آگے بڑھی۔ اور
صفحہ 2
بصد منت و سماجت یوں عرض کرنے لگی:۔
جنگل کے درند اور ہوا کے پرند پر راج کرنے والے راجا، خیالستان کا بچہ بچہ تیری حکومت کے گیت گا رہا ہے، جنوں کی زبردست قوم ایک دوسرے کو کھائے جاتی تھی، تیرے راج میں ایک گھاٹ پانی پی رہی ہے۔ چمنستان موسیقی جہاں دن دھاڑے پریاں لٹتی تھیں۔ آج وہاں تن تنا ہوا میں اچھلتی کودتی پھرتی ہیں۔ اور کسی کی اتنی مجال نہیں کہ آنکھ ملائے، اس وقت راحت منزل کا چپہ چپہ اور کونہ کونہ بارہ دری کا ایک ایک تنکا، درختوں کے پتے، ڈالیوں کے پھول پھولوں کی پنکھڑیاں میری اس جدائی پر جو کبھی ختم نہ ہو گئی، اس رات پر جس کی اب صبح نہ آئے گی۔ آٹھ آٹھ آنسو رو رہی ہیں۔ مجھے اتنی اجازت ملے، کہ جن محلوں میں میں نے پرورش پائی جن درختوں کے ہوئی نیچے میں بچپن میں کھیلی، جس گھاس پر میں نے قدم دھرے جس پر میں لوٹی، ان سب سے لپٹ کر رخصت ہو لوں۔"
غفیرہ کی یہ درخواست منظور ہوئی۔ خیالستانی لباس جو بدن پر تھا اتارا گیا۔ پر نوچ دیے گئے۔ اور وہ چیختی چلاتی، لپٹتی، لپٹاتی ایک ایک سے گلے مل کر خیالستان کی سرحد سے باہر نکل آئی۔
(2)
اب عفیرہ ایک دوسری دنیا میں تھی۔ جہاں گرمی میں لو کے تھپیڑے، برسات میں کڑک، چمک کل اور جاڑے میں کہراپالا موجود تھا،جن آنکھوں نے کبھی خواب میں بھی تکلیف نہ دیکھی تھی۔ اب وہ دن رات مصیبتیں دیکھتیں، جو دل رنج کے نام سے آشنا نہ تھا۔ اب اس پر پے در پے آفتیں پڑتیں، جو پاوں خیالستان میں وہاں چلتے پھرتے تھے۔ جہاں
صفحہ 3
مخملی زمین تھی۔ اب ان میں ببول کے کانٹے پار ہو جاتے، جس سر پر کبھی ایک بوند پانی کی نہ پڑی۔ اب اس پر چھاجوں مینہ پڑتا۔ اور جس رخ پر کبھی دھوپ کی چمک تک نہ آئی تھی۔ اب اس کو گرم ہوا کے جھونکے جھلسائے دیتے تھے۔
بہشت شہریار جو آسمانی جنت کا ایک نمونہ تھی، غفیرہ نے اس سے چھوٹ کر ایسی مصیبت ناک زندگی بسر کی۔ کہ اس کے نالوں کی چوٹ جانوروں تک کے کلیجہ دہلاتی تھی، تاروں بھرا آسمان اس کے سر پر
ہوتا، چاند کی روشنی اسے بیتاب کرتی۔ وہ دیوانہ دار خیالستان کی طرف دوڑتی۔ اور اس قہقہ دیوار سے سر ٹکرا کر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ دیکھتی۔ کہ دن بھر کے بچوں سے چھوٹے ہوئے پرند کس شوق سے جھٹ پٹے وقت لپک کر اپنے گھونسلوں میں دبکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی حالت کا خیال کرتی۔ خیالستان کی زندگی، سکھیوں کی چپہل پہل، سبھا کی رونق، درخت، درخت کے پتے، پتوں کی سرسراہٹ، ہوا کی چھیڑ چھاڑ، بلبلوں کی چہکار، پھولوں کی مہکار، تیتریوں کا تھرکنا، جب یہ سماں یاد آتا، تو کلیجہ مسوس کر رہ جاتی۔ رات کے اس سنسان وقت میں جب بادشاہ اپنے محلوں میں غریب اپنی جھونپڑوں میں بےخبر سوتے، دریا کا پانی تک تھم جاتا، نظام عالم کی ہر شے پر (خلاف اصول) سکون مطلق طاری ہوتا۔ وہ وطن کی یاد میں اٹھتی۔ اور خیالستان کی دیوار کے پاس ٹہلتی، ٹکریں مارتی، سر پھوڑتی، یہاں تک کہ تاڑ کے درختوں پر بسنے والی چڑیاں اس کے کانوں میں صبح کا پیغام پہنچا دیتیں۔
ایک رات جب کہ چودھویں کا چاند نیلگوں آسمان پر نہایت
صفحہ 4
تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ اور اس کی روشنی نے درودیوار جنگل اور میدان میں نورانی چادر بچھا دی تھی، غفیرا دریا کے کنارے جو خیالستان کے سرحد سے ملا ہوا لہریں لے رہا تھا، بیٹھی ہوئی اپنی تقدیر کو رو رہی تھی، قمر چہار دہم دریا کی گود میں لوٹ رہا تھا، غفیرہ قدرت کے اس کرشمے میں ایسی محو ہوئی کہ وہ چند لمحے کے واسطے اپنے تفکرات بالکل بھول گئی۔ دفعتا اس نے اپنا منہ اٹھایا اور ایک حسرت آمیز نظر خیالستان کی سرحد پر ڈالی۔ دیکھتی کیا ہے کہ فصیل کے بیچ میں سے شق ہوئی، اور ایک ایسی روشنی نمودار ہوئی جو اس دنیا میں غفیرہ نے نہ دیکھی تھی، وہ بے تاب ہو کر لپکی جس طرح روشنی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جاتی تھی اسی طرح غفیرہ کا شوق قدم بقدم تیز ہوتا جاتا تھا، سرحد کے قریب پہنچنا تھا کہ فصیل اسی طرح بند ہو گئی۔ اور وہ روشنی آنا فانا بالکل غائب! بہتیرا سر پٹکا، ہرچند چیخی چلائی، مگر بے سود یہ کچھ ایسا تعجب انگریز سماں تھا کہ غفیرہ اس مسئلہ پر جتنا غور کرتی تھی اتنا ہی پیچیدہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر وہ بھی خیالستان ہی کی رہنے بسنے والی تھی مگر اس قسم کا واقعہ اس نے تمام عمر میں کبھی نہ دیکھا تھا، سر پکڑ کر بیٹھ گی اور جس مقام پر سے فصیل شق ہوئی تھی وہاں ٹکٹکی باندھ لی۔ رہ رہ کر کلیجہ میں ہوک اٹھتی تھی اور خیال آتا تھا کاش چند لمحے پہلے پہنچ جاتی اور اس راز کو سمجھ جاتی، آخر یہ بھید ہے کیا؟ کیا میری طرح کوئی اور پری اس عتاب میں گرفتار ہوئی؟ مگر نہیں, ایسا ہوتا تو وہ چلی کہاں جاتی؟ زمین نگل جاتی، آسمان کھا جاتا؟
اب سمجھی، اوہو آج نو روز ہوگا، جب ہی یہ تمام سرحد جھاڑ
صفحہ 5
فانوسوں سے جگمگا رہی ہے، ابھی تو ایک دفعہ دیوار اور روشن ہوگی تاکہ اس دنیا والے بھی جنت شہریار کی روشنی سے آنکھیں ٹھنڈی کر سکیں۔ یہ رسم تو برسوں سے چلی آتی ہے کہ نوروز کی رات چند لمحات کے واسطے یہ دیوار دو دفعہ شق ہو جاتی ہے، شاید پہلی دفعہ میں نے نہ دیکھا ہو خءر میری تقدیر، بیٹھی ہوں۔
اس وقت غفیرہ پر ایک وجد کی حالت طاری تھی۔ یہ تعلق کہ اب تھوڑی دیر میں دیوار شق ہو گی، اس کو بیتاب کر رہا تھا، بیٹھتی تھی، اٹھتی تھی، تھک جاتی تو پھر بیٹھ جاتی، مگر نگاہ فصیل پر سے نہ ہٹتی۔
رات کا اپنی منزل کو پورا کرنا تھا کہ انہی خوش الحان پرندوں نے جن کے زمزموں سے غفیرہ کے کان آشنا تھے، صبح صادق استقبال میں نغمہ سنجی شروع کی۔ جس نے غفیرہ کے تمام ارمانوں کو خاک میں ملا دیا۔ اس نے ایک آہ سرد بھری اور مایوس ہو کر اٹھی چاہتی تھی کہ قدم آگے بڑھائے، دفعتہً فصیل شق ہوئی اور خیالستان کی روشنی سے تمام بیابان جگمگا اٹھا۔ غفیرہ دیوانہ وار دوڑی، اندر داخل ہوتی تھی کہ دروغہ جنت نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ برسوں کے بعد ایک ہم جنس کی صورت کا نظر آنا تھا کہ غفیرہ پاؤں پر گری اور کہا:-
کیا تقدیر مجھ کو اب یہ وقت نہ دکھائے گی۔ کہ میں خیالستان میں داخل ہوں، اے مبارک دروغہ میری خستہ حالت پر رحم کر۔ اور اتنی اجازت دے کہ میں ایک نظر بھر کر خیالستان کو دیکھ لوں۔"
داروغہ۔ عزیز۔ عزیزوں کی عزیز غفیرہ، مجھ کو تیرے ساتھ دلی ہمدردی ہے مگر اتنی مجال نہیں کہ بلااجازت شاہی تیرے ساتھ کوئی رعایت
صفحہ 6
کر سکوں۔ اگر ایسا کروں، تو جو حال آج تیرا ہے، وہی کل میرا ہوگا۔ ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ تو شہریار کے واسطے اس دنیا کا جس میں تو اب موجود ہے، کوئی ایسا تحفہ لا، جس سے بہتر شئے روئے زمین پر موجود نہ ہو، یہ وعدہ کرتا ہوں، کہ تیرا تحفہ دربار شاہی میں پہنچا دوں گا، اور تجھ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر تیرے تحفے نے شہریار کو خوش کر دیا، تو تجھ کو خیالستان میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی۔ بس وقت ہو چکا،اب میں زیادہ بات نہیں کر سکتا۔
ابھی یہ فقرہ پورے طور پر ختم بھی نہ ہوا تھا کہ دیوار بند، روشنی ندارد! اب غفیرہ پر خیالات کا ہجوم تھا، صبح ہو چکی تھی، اور سامنے کے پہاڑوں سے آفتاب جہاں تاب بلند ہوتا چلا آتا تھا۔ بہت سی ادھیڑ بن اور پیچ و تاب کے بعد غفیرہ نے یہ فیصلہ کیا کہ گو کہ کامیابی کی امید مشکل اور موہوم ہے لیکن اس سے زیادہ بیوقوف کون ہو سکتا ہے جو محض اس خیال سے کہ کام مشکل ہے، اس کا انجام دینے کی کوشش نہ کرے۔ میں اس وقت تک یہ کوشش جاری رکھوں گی کہ دنیا کا بہترین تحفہ شہریار کے واسطے لے جاؤں۔ جب تک موت میری اس آرزو کو مجھ سے جدا کردے۔
(3)
یہ فیصلہ قطعی تھا، اور اس کے بعد غفیرہ مدتوں جنگل کی خاک اڑاتی، اور شہروں کی گلیاں چھانتی پھری۔ اب اس کا کام صرف اشیا دنیوی کا مطالعہ تھا۔ رات کی نیند، دن کی بھوک، غرض اطمینان اور آرام کی صورت نہ تھی۔ جنگل کے پھل کھا کر پیٹ بھر لیتی، اور
صفحہ 7
چشموں کے پانی سے پیاس بجھاتی، گھڑی آدھ گھڑی کو کسی درخت کے نیچے پڑ رہی، نیند کا غلبہ ہوا آنکھ لگ گئی، ہوشیار ہوئی اور اپنی دھن میں ہڑبڑا کر دوڑی۔ آٹھ مہینہ کے قریب اسی طرح چکر لگاتی ہوئی وہ ایک روز جب کہ آفتاب غروب ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ ایک ایسے مقام پر پہنچی۔ جہاں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کا مجمع تھا۔ اور ایک اونچے سے ٹیلے پر ایک شخص کھڑا تھا جس پر یہ الزام تھا کہ اس نے مذہب میں رخنہ ڈالا اور ہمارے سچے دین کی توہین کی۔ چونکہ وہ اپنے خیالات پر اب تک قائم تھا اس لئے قوم نے اس کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔ یہ شخص کہ قیدیوں کی طرح گرفتار تھا اس کے ہاتھ پاؤں میں بیڑیاں پڑی تھیں اور جلاّد ننگی تلوار لئے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ جب وہ وقت قریب آیا کہ جلاد اس کا سر تن سے جدا کرے تو اس شخص نے سردار قوم سے یہ درخواست کی کہ میری آخری آرزو قوم سے صرف اتنی ہے کہ جو کچھ میں کہوں، بدنصیب قوم اس کو ٹھنڈے پٹیوں سن لے۔ اور اس کے بعد جو فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل ہو۔ درخواست منظور ہوئی اور اس نے یہ کہنا شروع کیا:-
"یہ وقت جو اب تھوڑی دیر بعد آنے والا ہے جب کہ یہ جسد خاکی اس ٹیلے پر تھوڑی دیر بعد تڑپ کا ٹھنڈا ہوجائے گا، اور یہ سر جس میں جنون اور سودا نہیں، بدنصیب قوم کی سچی محبت بھری ہوئی تھی۔ برسوں کا ساتھ چھوڑ کر اس جسن سے علیحدہ ہوگا میرے عقیدے کے موافق کبھی نہ کبھی آنے والا تھا مگر یہ موت وہ موت ہوگی جس پر ہزاروں زندگیاں قربان ہوب۔ جب بھی یہ موت نصیب نہ ہو۔ اے بدنصیب اور گمراہ
صفحہ 8
قوم! سچے مذہب میں جو کچھ آمیزش کی گئی ہے یہ بعض افراد کی نفسانیت ہے اور کچھ نہیں, مذہب کو مصنوعی لباس اور گوٹے ٹھپوں کی زیبائش سے بچاو۔ اور جس طرح سیدھا سادہ نازل ہوا، اسی طرح اس کو دوسروں کے سامنے پیش کرو۔ اے فطرت الہی کے برخلاف یقین کرنے والی قوم خدا کا عذاب تیرے ساتھ ہے اور وہ مقدس روحیں جن پر تم بہتان لگا رہے ہو، عنقریب تمہارے لیے بد دعائیں کرنے والی ہیں۔ عقل سے کام لو اور اس خیال سے کہ باپ دادا سے ہوتی آئی ہے عقیدہ کو مذہب میں داخل نہ کرو اس احکم الحاکمین کا جمال جس کی حکومت لازوال ہے، مجھ کو محبت سے اپنی طرف بلا رہا ہے۔ چل چل اے جلاد اپنا کام کر اور اس گمراہ قوم کا دل خوش کر دے۔
اس تقریر پر وہ مجمع ٹھٹھے مار کر ہنستا رہا مگر غفیرہ پر ایک خاص حالت طاری ہوئی اور اس نے اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ اس سے بہتر تحفہ دنیا میں کوئی اور نہ ہوگا۔ جلاد کی تلوار کا گردن پر پڑنا تھا کہ اس کی زبان سے قوم کا لفظ نکلا۔ غفیرہ آگے بڑھی اور خون کا وہ پہلا قطرہ جو اس کی گردن سے نکلا، مٹھی میں لیا اور خیالستان کی طرف واپس آئی۔
راستہ بھر اس کے دل کی کہ عجیب کیفیت تھی، وہ یقین کر رہی تھی کہ دنیا میں اس سے بہتر شئے اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ اس شخص کے خون کا پہلا قطرہ ہے جو زندگی جیسی نعمت کو قوم پر سے قربان کر گیا۔
غفیرہ اس اعتبار سے نہایت خوش نصیب تھی کہ اس کو آج زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا۔ اتفاق سے محض یہ جشن نوروز کا دن تھا۔
صفحہ 9
اس کے پہنچتے ہی دیوار شق ہوئی اور غفیرہ نے آگے بڑھ کر وہ خون کا قطرہ پیش کیا۔
داروغہ: غفیرہ تیری محنت قابل داد ہے۔ بے شک تم نے بہت مصیبتیں بھگت کر یہ نادر شئے فراہم کی۔ مجھے یہ کہنے میں عذر نہیں کہ یہ دنیا کی اچھی شئے ہے، لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے بہتر شئے دنیا میں موجود نہیں۔ جا پھر کوشش کر، اور اگلے سال پھر آ۔
(4)
فصیل بند ہوگئی اور غفیرا حسرت نصیب دل پہلو میں لیے شہر شہر گاؤں گاؤں میں خاک اڑاتے پھری، یوں تو رات دن ہی دنیا کے سینکڑوں کرشمے اس کی آنکھ سے گزرتے مگر یہ خیال کے دنیا کی بہترین شے کیا ہے؟ اس کو سخت پریشان کر رہا تھا۔ پھرتی پھراتی وہ ایک روز ایسے مقام پر پہنچی جہاں ایک جوان اکلوتی بچی مرض الموت میں گرفتار تھے اور عزیزوں کا مجمع اس کے چاروں طرف تھا۔ موت خیالستان میں چاہے غیر معمولی شے ہو مگر اس دنیا میں تو کوئی لمحہ اس سے خالی نہ تھا۔ غفیرہ بھی یہ اچھی طرح سمجھتی تھی مگر ان عزیزوں کے چہروں پر کچھ ایسی حسرت اور مایوسی برس رہی تھی کہ وہ تھوڑی دیر وہاں ٹھٹکی، اس مجمع میں ایک عورت ایسی بھی تھی جس کو ہر چند لوگ سمجھا رہے تھے مگر اس کی آنکھ سے آنسو نہ تھمتا تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد جھکتی تھی اور مریضہ کے منہ کو بوسہ دیتی تھی۔ اس کے ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگاتی تھی اور اپنے ہاتھ اس کے منہ پر پھیرتی تھی۔ دفعتہ مریضہ نے درد سے بے تاب ہو کر ایک آہ کی۔ اور ان آنکھوں سے جس میں سوا
صفحہ 10
ناامیدی کے اور کچھ نہ تھا، اس عورت کو دیکھا اور دیکھ کر کہا:-
"بس اماں جان خدا حافظ"
مریضہ کی زبان سے یہ لفظ ایسے درد سے نکلے کہ سیدھے اس عورت کے کلیجے پر جا گرے، وہ چاہتی تھی کہ ضبط کرے مگر نہ کر سکی۔ بے اختیار ایک چیخ ماری اور کہا:-
"ماں کی جان صالحہ! گو موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن میں وہ بد نصیب ماں ہوں، جس نے اپنی بچی کو تمام عمر کی کمائی اور زندگی کا حاصل تھی، اپنے ہاتھ سے موت کے منہ میں دھکیلا، اور وہ شخص جس کے نام سے ترے بدلنے رعشہ ہوتا تھا اور تو لرزتی تھی اے صالحہ میں نے زبردستی شادی تیری کر کے تجھے اس ظالم قصائی کے سپرد کردیا جس کے ظلم آج تیری جان لے کر بھی ختم نہ ہوئے۔ نہ معلوم مجھے اس دنیا میں ابھی کتنے روز اور جینا ہے مگر اب زندگی کا ہر لمحہ مجھ پر لعنت برسائے گا، دنیا کی ہر جاندار اور بے جان شئے مجھ کو نفرت سے دیکھے گی، زمین کا وہ حصہ جس کے اوپر اور آسمان کا ٹکڑا جس کے نیچے میں زندہ ہوں گی، بلند آواز سے کہے گا کہ یہی ہے وہ سنگ دل ماں جس نے ایک معصوم روح کو ناشاد اور نامراد دنیا سے رخصت کیا اور خدا کی ایک مخلوق اور اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو دیدہ و دانستہ دنیا کے عذاب میں پھنسادیا۔ سنگدل ماں کی مظلوم و معصوم صالحہ، وہ صالحہ جو ماں کے حکم پر فدا اور اس کی خواہش پر قربان ہو رہی ہے۔ جس طرح میں تجھ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں اسی طرح قیامت کے روز نادم اور شرمسار نہیں خدا کے حضور میں نافرمان