خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں نا معلوم افراد نے فائرنگ کرکے ایف سی کی مسجد کے خطیب کو ہلاک ک

سید زبیر

محفلین
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں نا معلوم افراد نے فائرنگ کرکے ایف سی کی مسجد کے خطیب کو ہلاک کر دیا ہے۔

عزیزاللہ خان ،بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، پشاور ، آخری وقت اشاعت: اتوار 14 ستمبر 2014 , 07:28 GMT 12:28 PST

پولیس کے مطابق حیات آباد میں فرنٹیئر کور کے ہیڈ کوارٹر میں تعینات مسجد کے خطیب محمد جاوید، سنیچر کی صبح ناصر باغ روڈ پر درس دینے کے لیے جا رہے تھے کہ جمعہ خان خوڑ کے قریب نا معلوم موٹر سائکل سواروں نے ان پر فائرنگ کی جس سے وہ موقعے پر ہی ہلاک ہو گئے۔
ناصر باغ پولیس تھانے کے اہلکار نے بتایا کہ مسجد کے خطیب محمد جاوید کی عمر 35 سال کے قریب تھی۔ اہلکار نے کہا کہ جاوید کے چچا زاد بھائی کے مطابق ان کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔پشاور سمیت صوبے کے مختلف شہروں میں کچھ عرصے سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ روز بڈھ ییر کے علاقے میں ایک پولیس اہلکار کو اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا جبکہ چند روز قبل یہاں پشاور اور اس سے پہلے مردان میں دو سکھ تاجروں کو ہلاک کیا گیا تھا۔
اسی طرح جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی لمبے قد بڑے بالوں اور داڑھی سے پہچانے جانے والے اختر طوفان نامی شخص کو نا معلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ اختر طوفان کا تعلق اہل تشیع سے بتایا جاتا ہے۔
پشاور اور کوہاٹ میں گذشتہ چند روز میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے علاوہ مختلف مقامات سے لاشیں اور تن سے جدا انسانی سر بھی ملے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں اس سال اب تک دہشت گردی کے بڑے واقعات کم ہوئے ہیں لیکن ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ دیگر جرائم میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہمارا میڈیا ۔۔صرف سیاسی جوکروں کا مسخرہ پن ہی دکھا رہا ہے
 
شاہ جی، بصری میڈیا بحیثیت مجموعی بہت اچھا کام کرتا رہا ہے، اور بے شمار مواقع پر عوام کو حقائق سے باخبر رکھنے میں اس کا بہت بڑا کردار رہا۔ لیکن گذشتہ چند ہفتوں سے میڈیا کا کچھ حصہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس انتشاری لہر کا شکار ہو گیا جو ریاست پاکستان کےبدخواہ، مقامی قیادتوں کو استعمال کر کے یہاں برپا کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا یہ ایک کاروبار بھی ہے، ایسے میں مارکیٹ کے اصول کے مطابق وہی دیکھایا جائے گا جس کی ڈیمانڈ زیادہ ہو۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، میڈیا کے بڑے حصے کو زیادہ قصور وار نہیں سمجھنا چاہیے، کیونکہ جیسے ہم بحیثیت قوم اکثر و بیشتر بھیڑ چال کا شکار ہوجاتے ہیں، وہ بھی مبرا نہیں۔
 

سید زبیر

محفلین
بہت ہی عزیز عبدالقیوم چوہدری آپ نے بالکل صحیح کہا ۔
بانی پاکستان نے فرمایا تھا کہ ’’صحافت ایک عظیم طاقت ہے جو فائدہ بھی پہنچا سکتی ہے اور نقصان بھی۔ اگر یہ صحیح نہج پر ہو تو اس سے رائے عامہ کی رہنمائی کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔‘‘
مگر سب سے بڑا نقصان اس جملہ نے کیا ہے کہ پبلک کی ڈیمانڈ پر ۔سب سے پہلے اساتذہ نے پبلک کی ڈیمانڈ پر گیس پیپرز ، نقل بوٹی ،اور دیگر فضولیات سے رو شناس کیا ۔ فلمی صنعت نے پبلک کی ڈیمانڈ پر اخلاق کا دیوالیہ کیا ۔ سیاستدانوں نے پبلک کے پر زور اصرار پر سیاست میں غنڈہ گردی اور قانون شکنی شامل کی ۔ اسی طرح میڈیا میں پبلک کے پر زور اصرار پر ملک کے انتہائی نازک اور خوفناک ماحول میں بالی ووڈ اور لالی ووڈ کے تازہ ترین ہر آدھے گھنٹے کے وقفے سے ضرور شامل کیا جاتا ہے ۔ یہ پبلک کو سمجھانا کس کی ذمہ داری ہے کہ کس بات پر اصرار کریں ۔ میرا خیال ہے اساتذہ ، سیاستدانوں اور میڈیا ہی اسے ٹھیک کر سکتے ہیں ۔میڈیا میں غیر صحافی قوت زیادہ چھائی ہوئی ہے ۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے ۔ مگر صحافی کی تعلیم و تربیت کہاں ہوتی ۔ میرا خیال ہے صحافی وہ ہے جو خود رپورٹنگ کرتا ہو ، جس کے پاس واقعات کی فرسٹ ہینڈ معلومات ہوں ۔ تجزیہ نگار ہم اسے کہہہ سکتے ہیں جو ماضی کی تاریخ ، موجودہ منظر نامے کے تناظر میں رپورٹ کا تجزیہ کرے ۔ اب کیونکہ صحافت صنعت بن چکی ہے اس لئے اس میں صحافی ملازم ہیں اور سرمایہ دار مالک ۔ تو ایسی صحافت کو ریاست کا چوتھا سکون کہنا صرف اپنے آپ کو ان سرمایہ دار نام نہاد صحافت کے آگے سرنڈر کرنے کے مترادف ہے اللہ اس قوم پر رحم کرے (آمین)
 
Top