نیلم
محفلین
شیخ عریفی کہتے ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک بار جب میں برطانیہ سے واپس آ رہا تھا، میرے ساتھ ٹی وی پروگرامز کے حوالے سے ایک بہت مشہور عالم دین بھی تھے۔ اس سفر کے دوران جہاز میں ہم دونوں سے کچھ فاصلے پر ایک برطانوی انگریز بیٹھا تھا جس کے ساتھ والی کرسی پر بالکل اسی جیسے حلیئے والی ایک عورت بھی بیٹھی تھی (اسی جیسی سے مراد اس عورت کا انگریزوں جیسا لباس اور ان جیسی وضع قطع تھی) جو ایک انگریزی کتاب پڑھ رہی تھی۔ میرا اندازہ یہ تھا کہ یہ عورت یا تو اس انگریز کی بیوی ہوگی یا کوئی اس کی دوست، عمر کا اندازہ لگا کر اسے اس انگریز کی بیٹی بھی کہا جا سکتا تھا۔
کتابیں تو ہم نے بھی تھام رکھی تھیں اور کبھی کبھار ان میں سے کچھ پڑھتے تو کبھی وقت گزاری کیلئے باتیں کرنے لگ جاتے تھے۔ ابھی ہم جہاز میں ہی تھے کہ سورج غروب ہو گیا، میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا؛ ابو عبداللہ نماز ابھی پڑھیں یا ریاض پہنچ کر؟ ابو عبداللہ نے کہا باقی دو گھنٹے کا سفر بچتا ہے بہتر ہے ریاض پہنچ کر آرام سے نماز پڑھیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور اپنی کتاب کھول کر پڑھنے لگ گیا۔
اس وقت میری حیرت کی انتہاء نا رہی جب وہ عورت اٹھی، سیٹ کے اوپر والے کیبن کو کھول کر اپنا بیگ نکالا جس میں اس کا برقعہ اور سکارف تھا۔ برقعہ پہن کر سکارف اوڑھا اور جا کر مغرب کی نماز پڑھی حالانکہ باوجود کہ وہ اپنے چال ڈھال اور وضع قطع سے بالکل مغرب زدہ لگ رہی تھی۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ
میں نے ابو عبداللہ کو کہا، ابو عبداللہ ادھر اس عورت کو دیکھو وہ نماز پڑھ رہی ہے۔ ابو عبداللہ نے کہا ہاں یہ تو نماز پڑھ رہی ہے۔ میں نے کہا ابو عبداللہ شرم آنی چاہیئے ہمیں ، بڑے مولوی بنے پھرتے ہیں ہم، اٹھو کھڑے ہو جاؤ اور ہم بھی نماز پڑھتے ہیں۔ یہ یہاں نماز پڑھے اور ہم دو گھنٹے بعد ریاض پہنچ کر، نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔
ہم نماز کیلئے کھڑے ہوئے اور اس دوران وہ عورت اپنی نماز سے فارغ ہو چکی تھی۔ نماز پڑھتے ہی اس نے اپنا برقعہ سکارف اتار کر دوبارہ لپیٹ کر اپنے بیگ میں ڈالا اور اوپر کیبن میں رکھ دیا تھا۔
نماز پڑھنے کیلئے جاتے ہوئے میں اس کے قریب سے گزار تو ایک لمحے کیلئے رک گیا۔ میں نے اس عورت سے کہا، بہن اللہ تجھے جزائے خیر دے، اللہ تعالیٰ تجھے خیر و برکت سے نوازے۔ اچھا میں ایک بات بتا دوں کہ میں جب میں اس سے مخاطب تھا تو میں نے اپنی نظریں نیچے جھکا رکھی تھیں (حاضرین کا ایک زوردار قہقہہ)، تاکہ کوئی یہ نا کہہ سکے کہ شیخ نے نصیحت کا خوب موقع ڈھونڈھا، یا پھر آپ یہ کہیں کہ شیخ صاحب نے خوب لمبی بات کی ہوگی چاہے وہ عورت کہہ بھی رہی ہو کہ بس کریں مجھے سمجھ آ گئی ہے مگر شیخ اصرار کر رہا ہو کہ نہیں نہیں ابھی تمہیں کچھ اور بھی سمجھانا ہے۔
میں نے عورت سے کہا کہ بہن، تیرا بہت بہت شکریہ، اللہ تجھے بہت بہت جزا دے کہ تو نے نماز پڑھی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرے اندر خیر ہے اور تیرے اندر ایمان ہے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ جس طرح تونے اپنا برقعہ اور سکارف اوڑھا تھا ویسے ہی اوڑھے رکھتی۔ عورت نے میری بات سنی مگر مسلسل یہی کہتی رہی کہ شیخ صاحب جزاک اللہ، بس آپ میرے لئے دعا کر دیں۔
شیخ صاحب اپنی بات پوری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کے سامنے گناہ اور برائیوں کے جیسے اور جتنے بھی نظارے آئیں مگر ان میں کہیں نا کہیں خیر کی رمق بھی ہو تو ہرگز نا تلملائیں۔ اگر شر کا تناسب نوے فی صد اور خیر محض دس فی صد تھا تو بھی ٹھیک ہے، آپ کوشش کر کے خیر کے اس تھوڑے تناسب کو بڑا کرنے کی کوشش کریں تاکہ دس فیصد بڑھ کر پچاس فیصد تک جا پہنچے۔ ناں کہ ایسی صورتحال دیکھیں تو فورا ہی سامنے والے کو فاسق، فاجر، بدکار اور بد کردار کہ کر اس کے اندر موجود خیر کے اس تھوڑے تناسب کو اور بھی گھٹا دیں۔ یہ آپ کا رویہ ہی ہوگا جو صورتحال کو اچھائی یا برائی میں بدلے گا اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خیر آپ کے ہاتھوں لکھی ہو۔
شیخ عریفی کا پوار نام محمد بن عبد الرحمن العريفي الجبري الخالدي ہے، آپ 1970 میں سعودی عرب کے شہر دمام میں پیدا ہوئے، آپ خطیب و امام ہونے کے ساتھ ساتھ بیسیوں کتابوں کے مصنف، تبلیغ و دعوت کیلئے ملکوں پھرنے والے متحرک انسان ہیں پیشے کے لحاظ سے ریاض کی الملک سعود یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور عقائد میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ آپ بہت ہی ہنس مکھ، ملنسار اور خوبرو شخصیت ہیں۔ بیسیوں چینلز پر آپ کے پروگرام شب و روز پیش کیئے جاتے ہیں۔ نوجوان نسل آپ کی گرویدہ ہے تو اور آپ بھی محافل کی جان ہیں
مصنف : محمّد سلیم
کتابیں تو ہم نے بھی تھام رکھی تھیں اور کبھی کبھار ان میں سے کچھ پڑھتے تو کبھی وقت گزاری کیلئے باتیں کرنے لگ جاتے تھے۔ ابھی ہم جہاز میں ہی تھے کہ سورج غروب ہو گیا، میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا؛ ابو عبداللہ نماز ابھی پڑھیں یا ریاض پہنچ کر؟ ابو عبداللہ نے کہا باقی دو گھنٹے کا سفر بچتا ہے بہتر ہے ریاض پہنچ کر آرام سے نماز پڑھیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور اپنی کتاب کھول کر پڑھنے لگ گیا۔
اس وقت میری حیرت کی انتہاء نا رہی جب وہ عورت اٹھی، سیٹ کے اوپر والے کیبن کو کھول کر اپنا بیگ نکالا جس میں اس کا برقعہ اور سکارف تھا۔ برقعہ پہن کر سکارف اوڑھا اور جا کر مغرب کی نماز پڑھی حالانکہ باوجود کہ وہ اپنے چال ڈھال اور وضع قطع سے بالکل مغرب زدہ لگ رہی تھی۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ
میں نے ابو عبداللہ کو کہا، ابو عبداللہ ادھر اس عورت کو دیکھو وہ نماز پڑھ رہی ہے۔ ابو عبداللہ نے کہا ہاں یہ تو نماز پڑھ رہی ہے۔ میں نے کہا ابو عبداللہ شرم آنی چاہیئے ہمیں ، بڑے مولوی بنے پھرتے ہیں ہم، اٹھو کھڑے ہو جاؤ اور ہم بھی نماز پڑھتے ہیں۔ یہ یہاں نماز پڑھے اور ہم دو گھنٹے بعد ریاض پہنچ کر، نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔
ہم نماز کیلئے کھڑے ہوئے اور اس دوران وہ عورت اپنی نماز سے فارغ ہو چکی تھی۔ نماز پڑھتے ہی اس نے اپنا برقعہ سکارف اتار کر دوبارہ لپیٹ کر اپنے بیگ میں ڈالا اور اوپر کیبن میں رکھ دیا تھا۔
نماز پڑھنے کیلئے جاتے ہوئے میں اس کے قریب سے گزار تو ایک لمحے کیلئے رک گیا۔ میں نے اس عورت سے کہا، بہن اللہ تجھے جزائے خیر دے، اللہ تعالیٰ تجھے خیر و برکت سے نوازے۔ اچھا میں ایک بات بتا دوں کہ میں جب میں اس سے مخاطب تھا تو میں نے اپنی نظریں نیچے جھکا رکھی تھیں (حاضرین کا ایک زوردار قہقہہ)، تاکہ کوئی یہ نا کہہ سکے کہ شیخ نے نصیحت کا خوب موقع ڈھونڈھا، یا پھر آپ یہ کہیں کہ شیخ صاحب نے خوب لمبی بات کی ہوگی چاہے وہ عورت کہہ بھی رہی ہو کہ بس کریں مجھے سمجھ آ گئی ہے مگر شیخ اصرار کر رہا ہو کہ نہیں نہیں ابھی تمہیں کچھ اور بھی سمجھانا ہے۔
میں نے عورت سے کہا کہ بہن، تیرا بہت بہت شکریہ، اللہ تجھے بہت بہت جزا دے کہ تو نے نماز پڑھی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرے اندر خیر ہے اور تیرے اندر ایمان ہے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ جس طرح تونے اپنا برقعہ اور سکارف اوڑھا تھا ویسے ہی اوڑھے رکھتی۔ عورت نے میری بات سنی مگر مسلسل یہی کہتی رہی کہ شیخ صاحب جزاک اللہ، بس آپ میرے لئے دعا کر دیں۔
شیخ صاحب اپنی بات پوری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کے سامنے گناہ اور برائیوں کے جیسے اور جتنے بھی نظارے آئیں مگر ان میں کہیں نا کہیں خیر کی رمق بھی ہو تو ہرگز نا تلملائیں۔ اگر شر کا تناسب نوے فی صد اور خیر محض دس فی صد تھا تو بھی ٹھیک ہے، آپ کوشش کر کے خیر کے اس تھوڑے تناسب کو بڑا کرنے کی کوشش کریں تاکہ دس فیصد بڑھ کر پچاس فیصد تک جا پہنچے۔ ناں کہ ایسی صورتحال دیکھیں تو فورا ہی سامنے والے کو فاسق، فاجر، بدکار اور بد کردار کہ کر اس کے اندر موجود خیر کے اس تھوڑے تناسب کو اور بھی گھٹا دیں۔ یہ آپ کا رویہ ہی ہوگا جو صورتحال کو اچھائی یا برائی میں بدلے گا اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خیر آپ کے ہاتھوں لکھی ہو۔
شیخ عریفی کا پوار نام محمد بن عبد الرحمن العريفي الجبري الخالدي ہے، آپ 1970 میں سعودی عرب کے شہر دمام میں پیدا ہوئے، آپ خطیب و امام ہونے کے ساتھ ساتھ بیسیوں کتابوں کے مصنف، تبلیغ و دعوت کیلئے ملکوں پھرنے والے متحرک انسان ہیں پیشے کے لحاظ سے ریاض کی الملک سعود یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور عقائد میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ آپ بہت ہی ہنس مکھ، ملنسار اور خوبرو شخصیت ہیں۔ بیسیوں چینلز پر آپ کے پروگرام شب و روز پیش کیئے جاتے ہیں۔ نوجوان نسل آپ کی گرویدہ ہے تو اور آپ بھی محافل کی جان ہیں
مصنف : محمّد سلیم