”دخل در معقولات“ کی پیشگی معذرت
آج کے عہد میں یہ عملًاً ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم مرد نامحرم عورتوں کو ”دیکھنے“ بلکہ ”دیکھتے رہنے“ یا اُن سے بات کرنے یا مسلسل بات کرتے رہنے سے مکمل طور پر گریز کریں۔ ایک استاد اپنی کلاس کو پڑھا رہا ہو اور کلاس میں لڑکیاں بھی ہوں، ایک دکاندار اشیاء بیچتا ہو اور خریدار میں خواتین بھی شامل ہوں، طلبا و طالبات ایک ہی جماعت میں پڑھتے ہوں، ایک ہی دفتر میں مرد و خواتین دین کام کرتے ہوں، اس کے علاوہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مرد و خواتین ایک دوسرے سے روٹین کی ڈیلنگ کرتے ہوں تو ایسے میں یہ کہاں ممکن ہے کہ ایک مرد مسلمان کسی خاتون پر ”دوسری نظر“ نہ ڈالے کہ صرف ”پہلی نظر“ ہی معاف ہے۔ اس طرح تو مرد گھر سے باہر نکلتے ہی ”مسلسل گناہ“ کا مرتکب ہوتا رہے گا کہ گھر سے باہر کی دنیا عورتوں سے بھری پڑی ہے۔ ویسے بھی آج کل تو عورتیں گھروں میں کم اور باہر زیادہ پائی جاتی ہیں، بالخصوص غیر مسلم معاشرہ میں
چنانچہ آج کے جدید اسلامی اسکالز ”پہلی نظر“ کی ”جدید تعریف“ کچھ یوں کرتے ہیں کہ اگر کسی عورت پر، اس کی خوبصورتی، جنسی کشش وغیرہ کے باعث کسی مرد کی ”شہوت بھری نظر“ پڑجائے تو ”ایسی پہلی نظر“ معاف ہے بشرطیکہ وہ فوراً اپنی اس پہلی نظر کو جھکالے۔ اس ”مخصوص نظر“ (جسے خواتین فوراً پہچان لیتی ہیں) کے علاوہ ”روٹین پبلک ڈیلنگ“ کے دوران ضرورتاً خواتین کو بار بار دیکھنا یا دیکھتے رہنا، یا ان سے ہم کلام ہونا گناہ نہیں ہے، کم از کم آج کے اس مخلوط عہد میں ۔
واللہ اعلم بالصواب