غالب دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں ۔ مرزا غالب

فرخ منظور

لائبریرین
دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں​
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں​
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل​
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں​
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟​
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں​
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے​
آخر گناہگار ہُوں کافَر نہیں ہُوں میں​
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟​
لعل و زمرّد و زر و گوہر نہیں ہُوں میں​
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟​
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہُوں میں؟​
کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟​
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟​
غالبؔ وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا​
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں​

(مرزا اسد اللہ خان غالب)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟​
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں​
پنجابی ترجمہ از اسیر عابد مرحوم:​
ربّا کاہنوں ایہہ جگ والے مینوں ہتھیں ڈھاہندے​
جگ تختی تے لکھیا ہویا دوہرا اکھّر نہیں میں​
 

امین شارق

محفلین
دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں

کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں

یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہُوں کافَر نہیں ہُوں میں

کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟
لعل و زمرّد و زر و گوہر نہیں ہُوں میں

رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہُوں میں؟

کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟

غالبؔ وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں

(مرزا اسد اللہ خان غالب)
کیا بات ہے غالب کی۔۔
 
Top