1898 میں مرزا قادیانی نے منٹو پارک میں ایک جم غفیر کی موجودگی میں مینار پاکستان کی جگہ پر سٹیج لگایا گیا اور وہ بار بار اعلان کر رہا تھا کہ کوئی اس سٹیج پر آ کر مقابلہ کرے اور حق واضح کرے۔ اعلی حضرت گولڑوی لاہور ہی میں تھے۔ سنا تو تشریف لے گئے۔ سٹیج پر چڑھ کر فرمایا اسے مسیح موعود (نبی) ہونے کا دعویٰ ہے جب کہ اللہ نے اپنے فضل خاص سے جناب رسول مقبول ﷺ کے اس غلام ابن غلام ابن غلام کو اپنی ولایت سے سرفراز فرمایا ہے۔ نبی کا درجہ ہر حال میں ولی سے بالا تر ہوتا ہے۔ یہ میرے سوالات کو پورا کر کے اپنی صداقت کا ثبوت دے ورنہ میں اس کی تردید کی غرض سے بفضل خدا ان سوالات کا جواب دوں گا۔
1- مرزا قادیانی حکم دے کہ دریائے راوی اپنا موجودہ رخ تبدیل کر کے فی الفور اس پنڈال کے ساتھ بہنا شروع کر دے یا میں ایسا کر دکھاتا ہوں
2 - ایک نہایت پاکباز کنواری لڑکی کو پنڈال کے نزدیک چو طرفہ پردہ میں رکھ کر دعا کی جائے کہ بغیر مرد کے اختلاط کے اللہ کریم اسے یہیں ایک لڑکا دے جو مرزا کی نبوت یا میری ولایت کی تصدیق کرے
3- اپنے لعاب دہن سے کڑوے پانی کے کنوئیں کو میٹھا کر دے یا پھر میں کر دیتا ہوں
مرزا کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں تھا اور وہ بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔ حقیقت یہی ہے کہ قادیانیت ہو یا کوئی اور فتنہ ، صوفیا کرام کا سیرت و کردار اور علم و عرفان اسے دبانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ چناچہ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام پر جب بھی کوئی نازک وقت آیا اور ظاہری اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں سے جاتا رہا تو صوفیائے کرام ہی نے اکثر و بیشتر ان طوفانوں کا منہ موڑا جو اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے اٹھتے رہے ہیں۔ چناچہ مشہور مستشرق ایچ آر گب نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی مجلس کے سامنے ایک تقریر کے دوران کہا
"تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا مگر بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہو سکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوف یا صوفیا کا اندازِ فکر فورا اس کی مدد کو آ جاتا تھا اور اس کو اپنی قوت اور توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی"
(مقالات ضیاء الامت ، جلد 1)