داستانِ خونچکاں!!!

سید عمران

محفلین
قیام پاکستان کا مطالبہ کھیل کھیل میں نہیں کیا گیا تھا۔اس کے پیچھے متعدد عوامل تھے جو دھیرے دھیرے مسلمانوں کو کچھ الگ کرنے کی راہ دکھانے لگے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا قیام خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر عمل میں آگیا۔
لیکن۔۔۔
اس کے بعد ایک کہانی اور ہوئی، ظلم کی ایک عظیم داستاں چِھڑی۔۔۔
داستانِ خونچکاں!!!

فسادات یوں تو پورے ہندوستان میں پھوٹ پڑے تھے، لیکن مشرقی پنجاب میں تو قیامت برپا ہوگئی، پٹیالہ، بھٹنڈہ، انبالہ، جالندھر، لدھیانہ، امرتسر آگ کا دریا بن گئے۔ خونِ مسلم کی جو ارزانی ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔دریائے بیاس میں خون کی میلوں لمبی لکیریں کھنچ گئیں۔ سطح آب پر اکڑی ہوئی سینکڑوں لاشیں تیرتی تھیں۔ کھیتوں میں سربریدہ اور اعضاء اعضاء کٹی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ کتنی نگاہوں نے یہ منظر دیکھا کہ دن میں کتّے، کوّے اور گدھ اور راتوں کو چوہے کٹے ہوئے پیٹ سے نکلنے والی آنتیں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ جگہ جگہ عورتوں کو بے آبرو کرکے شہید کیا گیا، ان کی نچی ہوئی برہنہ لاشیں راستوں کے بیچوں بیچ پڑی تھیں، کفن کے نام پر بھی کوئی ان کی پردہ پوشی کرنے والا نہ تھا۔
گھروں میں کود کر، دروازے توڑ کر لوگوں کو قتل کیا گیا۔خواتین اغواء ہوئیں،آج تک ان کا کوئی پتا نہ چل سکا۔ محنتوں سے جمع کیا گیا مال بے دردی سے لوٹا گیا۔پائی پائی جوڑ کر برسوں کی محنت سے بنائے گئے گھروں کو آگ لگا کر راکھ کیا گیا۔ ہزاروں گھروں اور مسجدوں میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو بند کرکے زندہ جلا دیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ان کی دلدوز چیخیں دل دہلائے دے رہی تھیں، ان کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا، ان کی کرب ناک چیخیں آج تک کانوں میں گونجتی ہیں، معلوم بھی ہے کہ ایسی چیخیں صدیوں تک فضاؤں میں رہتی ہیں۔
مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر، چن چن کر قتل کیا جارہا تھا۔ مشرقی پنجاب کی زمین پر جابجا خونِ مسلم پڑا تھا۔ سڑکیں، ریلوے اسٹیشن، ریل کی پٹریاں، اسکول کالج کے میدان، کھیت، دریا، گاؤں، شہر، گھروں کے صحن، کمرے، برآمدے، بازار، دوکانیں، مسجدیں، مدرسے کون سی ایسی جگہ تھی جو مظلوموں کے خون سے تر نہ تھی۔
خوں ریز فسادات سے خوف زدہ لوگ برسوں کی محنت سے بسے بسائے گھر چھوڑ کر پاکستان آنے لگے۔ ظالموں نے پھر بھی معاف نہ کیا، سینکڑوں قافلوں کو راستہ میں کاٹ ڈالا۔ یہ وہ لوگ تھے جو جان بچا کر اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ ان کو پاکستان جان کی امان نظر آرہا تھا۔ ان کا ہر اٹھتا قدم جان سے جانے کے خوف اور پاکستان آنے کی آس میں اٹھتا، لیکن۔۔۔ ان مقتولوں کے خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ پھر وہ وقت آیا کہ مشرقی پنجاب سارے کا سارا مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔
مشرقی پنجاب میں سکھوں کی طرح دلّی کے ہندو بھی مسلم کشی میں پیچھے نہ تھے۔دلّی ایک بار پھر اجڑنے لگی۔ شہر کا شہر مسلمانوں کی لاشوں سے پٹا پڑا تھا۔ ان لاشوں کو رسیوں سے باندھ کے گلیوں میں گھسیٹا گیا، وہ تمام واقعات دہرائے گئے جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر گزر رہے تھے۔
محتاط اندازہ کے مطابق دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا، سینکڑوں معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا، ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی کی گئی، ہزاروں عورتوں کو اغوا کرکے باندی بنالیا گیا، آج تک ان کا کوئی نام و نشان نہ مل سکا، وہ کہاں ہیں،کس حال میں ہیں؟
مسلمانوں کی یہ عظیم الشان قربانیاں اس اسلامی مملکت کے قیام کے لیے دی گئی تھیں جہاں وہ آزادی سے بلا خوف و خطر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں، جہاں کبھی ہندو مسلم سکھ فسادات نہ ہوں، جہاں ہر طرف سکون ہی سکون ہو، معاشی آسودگی ہو، کبھی کسی کی بہو بیٹی اغوا نہ ہو، جہاں کوئی خاتون بے آبرو نہ کی جائے۔۔۔
اور جہاں۔۔۔
مشرقی پنجاب جیسے روح فرسا واقعات کبھی نہ دہرائے جائیں!!!
 

صابرہ امین

لائبریرین
قیام پاکستان کا مطالبہ کھیل کھیل میں نہیں کیا گیا تھا۔اس کے پیچھے متعدد عوامل تھے جو دھیرے دھیرے مسلمانوں کو کچھ الگ کرنے کی راہ دکھانے لگے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا قیام خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر عمل میں آگیا۔
لیکن۔۔۔
اس کے بعد ایک کہانی اور ہوئی، ظلم کی ایک عظیم داستاں چِھڑی۔۔۔
داستانِ خونچکاں!!!

فسادات یوں تو پورے ہندوستان میں پھوٹ پڑے تھے، لیکن مشرقی پنجاب میں تو قیامت برپا ہوگئی، پٹیالہ، بھٹنڈہ، انبالہ، جالندھر، لدھیانہ، امرتسر آگ کا دریا بن گئے۔ خونِ مسلم کی جو ارزانی ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔دریائے بیاس میں خون کی میلوں لمبی لکیریں کھنچ گئیں۔ سطح آب پر اکڑی ہوئی سینکڑوں لاشیں تیرتی تھیں۔ کھیتوں میں سربریدہ اور اعضاء اعضاء کٹی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ کتنی نگاہوں نے یہ منظر دیکھا کہ دن میں کتّے، کوّے اور گدھ اور راتوں کو چوہے کٹے ہوئے پیٹ سے نکلنے والی آنتیں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ جگہ جگہ عورتوں کو بے آبرو کرکے شہید کیا گیا، ان کی نچی ہوئی برہنہ لاشیں راستوں کے بیچوں بیچ پڑی تھیں، کفن کے نام پر بھی کوئی ان کی پردہ پوشی کرنے والا نہ تھا۔
گھروں میں کود کر، دروازے توڑ کر لوگوں کو قتل کیا گیا۔خواتین اغواء ہوئیں،آج تک ان کا کوئی پتا نہ چل سکا۔ محنتوں سے جمع کیا گیا مال بے دردی سے لوٹا گیا۔پائی پائی جوڑ کر برسوں کی محنت سے بنائے گئے گھروں کو آگ لگا کر راکھ کیا گیا۔ ہزاروں گھروں اور مسجدوں میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو بند کرکے زندہ جلا دیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ان کی دلدوز چیخیں دل دہلائے دے رہی تھیں، ان کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا، ان کی کرب ناک چیخیں آج تک کانوں میں گونجتی ہیں، معلوم بھی ہے کہ ایسی چیخیں صدیوں تک فضاؤں میں رہتی ہیں۔
مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر، چن چن کر قتل کیا جارہا تھا۔ مشرقی پنجاب کی زمین پر جابجا خونِ مسلم پڑا تھا۔ سڑکیں، ریلوے اسٹیشن، ریل کی پٹریاں، اسکول کالج کے میدان، کھیت، دریا، گاؤں، شہر، گھروں کے صحن، کمرے، برآمدے، بازار، دوکانیں، مسجدیں، مدرسے کون سی ایسی جگہ تھی جو مظلوموں کے خون سے تر نہ تھی۔
خوں ریز فسادات سے خوف زدہ لوگ برسوں کی محنت سے بسے بسائے گھر چھوڑ پاکستان آنے لگے۔ ظالموں نے پھر بھی معاف نہ کیا، سینکڑوں قافلوں کو راستہ میں کاٹ ڈالا۔ یہ وہ لوگ تھے جو جان چا کر اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ ان کو پاکستان جان کی امان نظر آرہا تھا۔ ان کا ہر اٹھتا قدم جان سے جانے کے خوف اور پاکستان آنے کی آس میں اٹھتا، لیکن۔۔۔ ان مقتولوں کے خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ پھر وہ وقت آیا کہ مشرقی پنجاب سارے کا سارا مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔
مشرقی پنجاب میں سکھوں کی طرح دلّی کے ہندو بھی مسلم کشی میں پیچھے نہ تھے۔دلّی ایک بار پھر اجڑنے لگی۔ شہر کا شہر مسلمانوں کی لاشوں سے پٹا پڑا تھا۔ ان لاشوں کو رسیوں سے باندھ کے گلیوں میں گھسیٹا گیا، وہ تمام واقعات دہرائے گئے جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر گزر رہے تھے۔
محتاط اندازہ کے مطابق دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا، سینکڑوں معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا، ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی کی گئی، ہزاروں عورتوں کو اغوا کرکے باندی بنالیا گیا، آج تک ان کا کوئی نام و نشان نہ مل سکا، وہ کہاں ہیں،کس حال میں ہیں؟
مسلمانوں کی یہ عظیم الشان قربانیاں اس اسلامی مملکت کے قیام کے لیے دی گئی تھیں جہاں وہ آزادی سے بلا خوف و خطر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں، جہاں کبھی ہندو مسلم سکھ فسادات نہ ہوں، جہاں ہر طرف سکون ہی سکون ہو، معاشی آسودگی ہو، کبھی کسی کی بہو بیٹی اغوا نہ ہو، جہاں کوئی خاتون بے آبرو نہ کی جائے۔۔۔
اور جہاں۔۔۔
مشرقی پنجاب جیسے روح فرسا واقعات کبھی نہ دہرائے جائیں!!!
بہت دردمندی سے بہت خوب لکھا۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ !!
پر یہ سب رکا نہیں ہے۔ آج بھی لوگ موب لنچنگ کا شکار ہیں۔ کشمیر میں مسلسل سسکیاں، آہیں اور آنسو ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اب ان مظلوموں کا امتحان ختم ہو۔ آمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
 

زوجہ اظہر

محفلین
قیام پاکستان کا مطالبہ کھیل کھیل میں نہیں کیا گیا تھا۔اس کے پیچھے متعدد عوامل تھے جو دھیرے دھیرے مسلمانوں کو کچھ الگ کرنے کی راہ دکھانے لگے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا قیام خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر عمل میں آگیا۔
لیکن۔۔۔
اس کے بعد ایک کہانی اور ہوئی، ظلم کی ایک عظیم داستاں چِھڑی۔۔۔
داستانِ خونچکاں!!!

فسادات یوں تو پورے ہندوستان میں پھوٹ پڑے تھے، لیکن مشرقی پنجاب میں تو قیامت برپا ہوگئی، پٹیالہ، بھٹنڈہ، انبالہ، جالندھر، لدھیانہ، امرتسر آگ کا دریا بن گئے۔ خونِ مسلم کی جو ارزانی ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔دریائے بیاس میں خون کی میلوں لمبی لکیریں کھنچ گئیں۔ سطح آب پر اکڑی ہوئی سینکڑوں لاشیں تیرتی تھیں۔ کھیتوں میں سربریدہ اور اعضاء اعضاء کٹی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ کتنی نگاہوں نے یہ منظر دیکھا کہ دن میں کتّے، کوّے اور گدھ اور راتوں کو چوہے کٹے ہوئے پیٹ سے نکلنے والی آنتیں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ جگہ جگہ عورتوں کو بے آبرو کرکے شہید کیا گیا، ان کی نچی ہوئی برہنہ لاشیں راستوں کے بیچوں بیچ پڑی تھیں، کفن کے نام پر بھی کوئی ان کی پردہ پوشی کرنے والا نہ تھا۔
گھروں میں کود کر، دروازے توڑ کر لوگوں کو قتل کیا گیا۔خواتین اغواء ہوئیں،آج تک ان کا کوئی پتا نہ چل سکا۔ محنتوں سے جمع کیا گیا مال بے دردی سے لوٹا گیا۔پائی پائی جوڑ کر برسوں کی محنت سے بنائے گئے گھروں کو آگ لگا کر راکھ کیا گیا۔ ہزاروں گھروں اور مسجدوں میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو بند کرکے زندہ جلا دیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ان کی دلدوز چیخیں دل دہلائے دے رہی تھیں، ان کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا، ان کی کرب ناک چیخیں آج تک کانوں میں گونجتی ہیں، معلوم بھی ہے کہ ایسی چیخیں صدیوں تک فضاؤں میں رہتی ہیں۔
مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر، چن چن کر قتل کیا جارہا تھا۔ مشرقی پنجاب کی زمین پر جابجا خونِ مسلم پڑا تھا۔ سڑکیں، ریلوے اسٹیشن، ریل کی پٹریاں، اسکول کالج کے میدان، کھیت، دریا، گاؤں، شہر، گھروں کے صحن، کمرے، برآمدے، بازار، دوکانیں، مسجدیں، مدرسے کون سی ایسی جگہ تھی جو مظلوموں کے خون سے تر نہ تھی۔
خوں ریز فسادات سے خوف زدہ لوگ برسوں کی محنت سے بسے بسائے گھر چھوڑ کر پاکستان آنے لگے۔ ظالموں نے پھر بھی معاف نہ کیا، سینکڑوں قافلوں کو راستہ میں کاٹ ڈالا۔ یہ وہ لوگ تھے جو جان بچا کر اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ ان کو پاکستان جان کی امان نظر آرہا تھا۔ ان کا ہر اٹھتا قدم جان سے جانے کے خوف اور پاکستان آنے کی آس میں اٹھتا، لیکن۔۔۔ ان مقتولوں کے خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ پھر وہ وقت آیا کہ مشرقی پنجاب سارے کا سارا مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔
مشرقی پنجاب میں سکھوں کی طرح دلّی کے ہندو بھی مسلم کشی میں پیچھے نہ تھے۔دلّی ایک بار پھر اجڑنے لگی۔ شہر کا شہر مسلمانوں کی لاشوں سے پٹا پڑا تھا۔ ان لاشوں کو رسیوں سے باندھ کے گلیوں میں گھسیٹا گیا، وہ تمام واقعات دہرائے گئے جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر گزر رہے تھے۔
محتاط اندازہ کے مطابق دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا، سینکڑوں معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا، ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی کی گئی، ہزاروں عورتوں کو اغوا کرکے باندی بنالیا گیا، آج تک ان کا کوئی نام و نشان نہ مل سکا، وہ کہاں ہیں،کس حال میں ہیں؟
مسلمانوں کی یہ عظیم الشان قربانیاں اس اسلامی مملکت کے قیام کے لیے دی گئی تھیں جہاں وہ آزادی سے بلا خوف و خطر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں، جہاں کبھی ہندو مسلم سکھ فسادات نہ ہوں، جہاں ہر طرف سکون ہی سکون ہو، معاشی آسودگی ہو، کبھی کسی کی بہو بیٹی اغوا نہ ہو، جہاں کوئی خاتون بے آبرو نہ کی جائے۔۔۔
اور جہاں۔۔۔
مشرقی پنجاب جیسے روح فرسا واقعات کبھی نہ دہرائے جائیں!!!

پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن
یہ چمن ہے ہمارا تمھارا نہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
کہنے کو تو ہندوستان تقسیم ہوا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقسیم صرف بنگال اور پنجاب ہوئے تھے۔ بنگال میں بھی مشرقی بنگال اور مغربی بنگال کی تقسیم مذہب کے حوالے سے واضح تھی اور بنگالیوں نے بہت زیادہ تعداد میں ہجرت نہیں کی اور یہ بھی سچ ہے کہ فسادات پورے ہندوستان میں ہوئے تھے لیکن جس طرح خون کی ہولی پنجاب میں کھیلی گئی اور جس طرح کی مکمل اور فی الفور ہجرت پنجاب میں دونوں طرف ہوئی اس کی نظیر نہیں ملتی۔
 

سیما علی

لائبریرین
فسادات یوں تو پورے ہندوستان میں پھوٹ پڑے تھے، لیکن مشرقی پنجاب میں تو قیامت برپا ہوگئی، پٹیالہ، بھٹنڈہ، انبالہ، جالندھر، لدھیانہ، امرتسر آگ کا دریا بن گئے۔ خونِ مسلم کی جو ارزانی ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی
سچ ہے مشرقی پنجاب جیسی خونِ مسلم کی ارزانی کی مثال نہیں ملتی تقسیم کے موضوع پر بے شمار کتابیں پڑھیں پر قدرت اللہ شہاب صاحب کی یا خدا جب بھی پڑھتے اسقدر روتے ہیں لمحے لمحے کی اذیت رقم کی گئی ہے پر اتنی قربانیوں کے بعد بھی ہم نے اس ملک کی قدر نہ کی افسوس صد افسوس ۔۔۔۔
بہت خوبصورت اور حساس قلم ہے آپکا جیتے رہیے ۔۔۔
پروردگار اس ملک کو اپنی امان میں رکھے آمین

عزیز کیوں نہ ہو خاک وطن مجھ کو
یہ میرے ساتھ مرے پیرہن میں آئی ہے
 
آخری تدوین:
اتنی قربانیوں کے بعد بھی ہم نے اس ملک کی قدر نہ کی افسوس صد افسوس ۔۔۔۔
آپی،ہم وہ بگڑی ہوئی قوم ہیں جو کہتی ہے کہ وزیرِاعظم بدل جائے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ہم نے خود کو کبھی ٹھیک کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ہم چاہتے ہیں ہیں کہ ہمارے بچے کی تربیت یا تو سکول کے ٹیچرز کردیں،یا پھر مولوی،جو خود اناڑی ہیں۔(میرا مقصد کسی کی دلآزاری کرنا نہیں)
ترقی یافتہ قوموں کی نقل میں ایک ہی بار میں سارا زینہ پھلانگنے کی کوشش کرنے لگے۔
ہم نے اپنی نسل کو اپنی اقدار سے آگاہ ہی نہیں کیا۔
آج جو کچھ لوگ اپنی روایات کے ساتھ خوش ہیں سب انکی اچھی تربیت کا نتیجہ ہے۔
سب سے پہلے تو ہم مائیں ہی اس اچھائی یا لاپرواہی کی ذمہ دار ہیں۔
مرحوم اباجان اس خونچکاں داستاں کے واقعات سناتے تھے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
سید عمران بھائی۔
قیام پاکستان کے بعد رونما ہونے والے روح فرسا واقعات کو جس انداز سے آپ نے تحریر کیا ہے۔ وہ یقیناً قابلِ ستائش ہے۔
حساس موضوعات پر قلم اٹھانے کے لیے جس دردمندی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی جھلک آپ کی تحریر میں بہت واضح طور پر دکھائی دی۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
سلامت رہیے۔ اللہ تعالٰی آپ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں۔ آمین۔
 

سیما علی

لائبریرین
آج جو کچھ لوگ اپنی روایات کے ساتھ خوش ہیں سب انکی اچھی تربیت کا نتیجہ ہے۔
سب سے پہلے تو ہم مائیں ہی اس اچھائی یا لاپرواہی کی ذمہ دار ہیں۔
مرحوم اباجان اس خونچکاں داستاں کے واقعات سناتے تھے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔
درست کہا بٹیا اب کچھ لوگ باقی ہیں اور پھر بات وہیں آگئی اچھی تربیت اور ہم مائیں ذمہ دار ہں ۔۔ہمارے اباّجان بھی جب سناتے آبدیدہ ہوجاتے ٹرینوں کے ڈبے کھلتے تو انسانی اعضا گرتے اور اسقدر ظلم کے لکھنے کے لئیے پتھر کا دل چاہئے بس دعا ہے کہ مالک اس قوم کو ہدایت کی دولت عطا فرمائے آمین
ہم مایوس نہیں ہوتے کیونکہ نئی نسل میں جہاں بہت بگڑے دیکھے وہیں بہت سدھرے بھی دیکھے بس ذرا نم ہونے کی دیر ہے ۔۔۔۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
قیام پاکستان کا مطالبہ کھیل کھیل میں نہیں کیا گیا تھا۔اس کے پیچھے متعدد عوامل تھے جو دھیرے دھیرے مسلمانوں کو کچھ الگ کرنے کی راہ دکھانے لگے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا قیام خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر عمل میں آگیا۔
لیکن۔۔۔
اس کے بعد ایک کہانی اور ہوئی، ظلم کی ایک عظیم داستاں چِھڑی۔۔۔
داستانِ خونچکاں!!!

فسادات یوں تو پورے ہندوستان میں پھوٹ پڑے تھے، لیکن مشرقی پنجاب میں تو قیامت برپا ہوگئی، پٹیالہ، بھٹنڈہ، انبالہ، جالندھر، لدھیانہ، امرتسر آگ کا دریا بن گئے۔ خونِ مسلم کی جو ارزانی ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔دریائے بیاس میں خون کی میلوں لمبی لکیریں کھنچ گئیں۔ سطح آب پر اکڑی ہوئی سینکڑوں لاشیں تیرتی تھیں۔ کھیتوں میں سربریدہ اور اعضاء اعضاء کٹی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ کتنی نگاہوں نے یہ منظر دیکھا کہ دن میں کتّے، کوّے اور گدھ اور راتوں کو چوہے کٹے ہوئے پیٹ سے نکلنے والی آنتیں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ جگہ جگہ عورتوں کو بے آبرو کرکے شہید کیا گیا، ان کی نچی ہوئی برہنہ لاشیں راستوں کے بیچوں بیچ پڑی تھیں، کفن کے نام پر بھی کوئی ان کی پردہ پوشی کرنے والا نہ تھا۔
گھروں میں کود کر، دروازے توڑ کر لوگوں کو قتل کیا گیا۔خواتین اغواء ہوئیں،آج تک ان کا کوئی پتا نہ چل سکا۔ محنتوں سے جمع کیا گیا مال بے دردی سے لوٹا گیا۔پائی پائی جوڑ کر برسوں کی محنت سے بنائے گئے گھروں کو آگ لگا کر راکھ کیا گیا۔ ہزاروں گھروں اور مسجدوں میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو بند کرکے زندہ جلا دیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ان کی دلدوز چیخیں دل دہلائے دے رہی تھیں، ان کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا، ان کی کرب ناک چیخیں آج تک کانوں میں گونجتی ہیں، معلوم بھی ہے کہ ایسی چیخیں صدیوں تک فضاؤں میں رہتی ہیں۔
مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر، چن چن کر قتل کیا جارہا تھا۔ مشرقی پنجاب کی زمین پر جابجا خونِ مسلم پڑا تھا۔ سڑکیں، ریلوے اسٹیشن، ریل کی پٹریاں، اسکول کالج کے میدان، کھیت، دریا، گاؤں، شہر، گھروں کے صحن، کمرے، برآمدے، بازار، دوکانیں، مسجدیں، مدرسے کون سی ایسی جگہ تھی جو مظلوموں کے خون سے تر نہ تھی۔
خوں ریز فسادات سے خوف زدہ لوگ برسوں کی محنت سے بسے بسائے گھر چھوڑ کر پاکستان آنے لگے۔ ظالموں نے پھر بھی معاف نہ کیا، سینکڑوں قافلوں کو راستہ میں کاٹ ڈالا۔ یہ وہ لوگ تھے جو جان بچا کر اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ ان کو پاکستان جان کی امان نظر آرہا تھا۔ ان کا ہر اٹھتا قدم جان سے جانے کے خوف اور پاکستان آنے کی آس میں اٹھتا، لیکن۔۔۔ ان مقتولوں کے خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ پھر وہ وقت آیا کہ مشرقی پنجاب سارے کا سارا مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔
مشرقی پنجاب میں سکھوں کی طرح دلّی کے ہندو بھی مسلم کشی میں پیچھے نہ تھے۔دلّی ایک بار پھر اجڑنے لگی۔ شہر کا شہر مسلمانوں کی لاشوں سے پٹا پڑا تھا۔ ان لاشوں کو رسیوں سے باندھ کے گلیوں میں گھسیٹا گیا، وہ تمام واقعات دہرائے گئے جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر گزر رہے تھے۔
محتاط اندازہ کے مطابق دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا، سینکڑوں معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا، ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی کی گئی، ہزاروں عورتوں کو اغوا کرکے باندی بنالیا گیا، آج تک ان کا کوئی نام و نشان نہ مل سکا، وہ کہاں ہیں،کس حال میں ہیں؟
مسلمانوں کی یہ عظیم الشان قربانیاں اس اسلامی مملکت کے قیام کے لیے دی گئی تھیں جہاں وہ آزادی سے بلا خوف و خطر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں، جہاں کبھی ہندو مسلم سکھ فسادات نہ ہوں، جہاں ہر طرف سکون ہی سکون ہو، معاشی آسودگی ہو، کبھی کسی کی بہو بیٹی اغوا نہ ہو، جہاں کوئی خاتون بے آبرو نہ کی جائے۔۔۔
اور جہاں۔۔۔
مشرقی پنجاب جیسے روح فرسا واقعات کبھی نہ دہرائے جائیں!!!

اللہ اکبر۔
دردناک حقیقت۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
قیام پاکستان کا مطالبہ کھیل کھیل میں نہیں کیا گیا تھا۔اس کے پیچھے متعدد عوامل تھے جو دھیرے دھیرے مسلمانوں کو کچھ الگ کرنے کی راہ دکھانے لگے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا قیام خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر عمل میں آگیا۔
لیکن۔۔۔
اس کے بعد ایک کہانی اور ہوئی، ظلم کی ایک عظیم داستاں چِھڑی۔۔۔
داستانِ خونچکاں!!!

فسادات یوں تو پورے ہندوستان میں پھوٹ پڑے تھے، لیکن مشرقی پنجاب میں تو قیامت برپا ہوگئی، پٹیالہ، بھٹنڈہ، انبالہ، جالندھر، لدھیانہ، امرتسر آگ کا دریا بن گئے۔ خونِ مسلم کی جو ارزانی ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔دریائے بیاس میں خون کی میلوں لمبی لکیریں کھنچ گئیں۔ سطح آب پر اکڑی ہوئی سینکڑوں لاشیں تیرتی تھیں۔ کھیتوں میں سربریدہ اور اعضاء اعضاء کٹی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ کتنی نگاہوں نے یہ منظر دیکھا کہ دن میں کتّے، کوّے اور گدھ اور راتوں کو چوہے کٹے ہوئے پیٹ سے نکلنے والی آنتیں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ جگہ جگہ عورتوں کو بے آبرو کرکے شہید کیا گیا، ان کی نچی ہوئی برہنہ لاشیں راستوں کے بیچوں بیچ پڑی تھیں، کفن کے نام پر بھی کوئی ان کی پردہ پوشی کرنے والا نہ تھا۔
گھروں میں کود کر، دروازے توڑ کر لوگوں کو قتل کیا گیا۔خواتین اغواء ہوئیں،آج تک ان کا کوئی پتا نہ چل سکا۔ محنتوں سے جمع کیا گیا مال بے دردی سے لوٹا گیا۔پائی پائی جوڑ کر برسوں کی محنت سے بنائے گئے گھروں کو آگ لگا کر راکھ کیا گیا۔ ہزاروں گھروں اور مسجدوں میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو بند کرکے زندہ جلا دیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ان کی دلدوز چیخیں دل دہلائے دے رہی تھیں، ان کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا، ان کی کرب ناک چیخیں آج تک کانوں میں گونجتی ہیں، معلوم بھی ہے کہ ایسی چیخیں صدیوں تک فضاؤں میں رہتی ہیں۔
مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر، چن چن کر قتل کیا جارہا تھا۔ مشرقی پنجاب کی زمین پر جابجا خونِ مسلم پڑا تھا۔ سڑکیں، ریلوے اسٹیشن، ریل کی پٹریاں، اسکول کالج کے میدان، کھیت، دریا، گاؤں، شہر، گھروں کے صحن، کمرے، برآمدے، بازار، دوکانیں، مسجدیں، مدرسے کون سی ایسی جگہ تھی جو مظلوموں کے خون سے تر نہ تھی۔
خوں ریز فسادات سے خوف زدہ لوگ برسوں کی محنت سے بسے بسائے گھر چھوڑ کر پاکستان آنے لگے۔ ظالموں نے پھر بھی معاف نہ کیا، سینکڑوں قافلوں کو راستہ میں کاٹ ڈالا۔ یہ وہ لوگ تھے جو جان بچا کر اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ ان کو پاکستان جان کی امان نظر آرہا تھا۔ ان کا ہر اٹھتا قدم جان سے جانے کے خوف اور پاکستان آنے کی آس میں اٹھتا، لیکن۔۔۔ ان مقتولوں کے خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ پھر وہ وقت آیا کہ مشرقی پنجاب سارے کا سارا مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔
مشرقی پنجاب میں سکھوں کی طرح دلّی کے ہندو بھی مسلم کشی میں پیچھے نہ تھے۔دلّی ایک بار پھر اجڑنے لگی۔ شہر کا شہر مسلمانوں کی لاشوں سے پٹا پڑا تھا۔ ان لاشوں کو رسیوں سے باندھ کے گلیوں میں گھسیٹا گیا، وہ تمام واقعات دہرائے گئے جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر گزر رہے تھے۔
محتاط اندازہ کے مطابق دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا، سینکڑوں معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا، ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی کی گئی، ہزاروں عورتوں کو اغوا کرکے باندی بنالیا گیا، آج تک ان کا کوئی نام و نشان نہ مل سکا، وہ کہاں ہیں،کس حال میں ہیں؟
مسلمانوں کی یہ عظیم الشان قربانیاں اس اسلامی مملکت کے قیام کے لیے دی گئی تھیں جہاں وہ آزادی سے بلا خوف و خطر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں، جہاں کبھی ہندو مسلم سکھ فسادات نہ ہوں، جہاں ہر طرف سکون ہی سکون ہو، معاشی آسودگی ہو، کبھی کسی کی بہو بیٹی اغوا نہ ہو، جہاں کوئی خاتون بے آبرو نہ کی جائے۔۔۔
اور جہاں۔۔۔
مشرقی پنجاب جیسے روح فرسا واقعات کبھی نہ دہرائے جائیں!!!

اللہ اکبر۔
دردناک حقیقت۔
 

سیما علی

لائبریرین
مسلمانوں کی یہ عظیم الشان قربانیاں اس اسلامی مملکت کے قیام کے لیے دی گئی تھیں جہاں وہ آزادی سے بلا خوف و خطر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں، جہاں کبھی ہندو مسلم سکھ فسادات نہ ہوں، جہاں ہر طرف سکون ہی سکون ہو، معاشی آسودگی ہو، کبھی کسی کی بہو بیٹی اغوا نہ ہو، جہاں کوئی خاتون بے آبرو نہ کی جائے۔۔۔
اور جہاں۔۔۔
مشرقی پنجاب جیسے روح فرسا واقعات کبھی نہ دہرائے جائیں!!!
پروردگار تیرے حضور دعا ہے کہ اس ملک کے حالات پر اپنا خاص رحم و کرم فرمائے۔آمین الہی آمین
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ایک دردناک حقیقت کو آپ نے اتنے ہی پُر اثر اور دردناک لہجے میں بیان کیا ہے کہ ہر منظر جیسے آنکھوں کے سامنے نظر آ رہا ہے۔
مسلمانوں کی یہ عظیم الشان قربانیاں اس اسلامی مملکت کے قیام کے لیے دی گئی تھیں جہاں وہ آزادی سے بلا خوف و خطر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کریں، جہاں کبھی ہندو مسلم سکھ فسادات نہ ہوں، جہاں ہر طرف سکون ہی سکون ہو، معاشی آسودگی ہو، کبھی کسی کی بہو بیٹی اغوا نہ ہو، جہاں کوئی خاتون بے آبرو نہ کی جائے۔۔۔
اور جہاں۔۔۔
مشرقی پنجاب جیسے روح فرسا واقعات کبھی نہ دہرائے جائیں!!!
افسوس تو یہ ہے کہ رُکا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔
ہم لوگوں کو یہ ملک جیسے وراثت میں مل گیا ہے۔ یومِ آزادی کے دن گھروں پہ دفتروں میں یا جہاں بھی سبز ہلالی پرچم لہرا کر گویا آزادی کا جشن منا لیتے ہیں۔
جذبہ وہ چاہئیے جو احساس کر سکے کہ اس آزاد مملکت کی بنیادوں میں ہمارے اپنوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ استعمال ہوئی ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں مسلمانوں کا گوشت گارا اور خون پانی کی جگہ استعمال ہوا تب جا کر یہ آزادی کی نعمت میسر ہوئی۔
مُلک آزاد ہو چکا ہے مگر "انسانیت" قید میں ہے۔ احساس کی وہ سمجھ اب تک قید میں ہے جو حقیقتاً محسوس کر سکے اپنے مسلمان ماؤں بہنوں بیٹیوں اور بھائیوں کی قربانیاں۔
جب تک ہم ان احساسات اور جذبات تک خود رسائی حاصل نہ کر پائیں گے تب تک ہم اس احساس کو اپنی نسلوں میں منتقل نہ کر پائیں گے۔
اگلے سال پھر آئے گا 14 اگست۔۔۔ آزاد ہوئے ایک سال اور آگے بڑھ جائے گا، نصابی سر گرمیاں موقوف کر کے جشنِ آزادی کی تیاریوں میں بچے لگے ہوں گے مگر آزادی کا حقیقی مطلب اور مقصد سمجھے بغیر۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ جس مقصد کے لئے یہ تمام قربانیاں دی گئیں۔۔۔ پورا ہو جائے۔ آمین۔
 

زیک

مسافر
خون کی جو ندیاں 1947 میں بہائی گئیں انہیں صرف مسلمان خون قرار دینا تاریخ سے منہ موڑ لینے کے مترادف ہے۔ اور یہ کہنا بھی غلط کہ یہ فسادات 14 اگست کے بعد شروع ہوئے۔
 

زیک

مسافر
کہنے کو تو ہندوستان تقسیم ہوا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقسیم صرف بنگال اور پنجاب ہوئے تھے۔ بنگال میں بھی مشرقی بنگال اور مغربی بنگال کی تقسیم مذہب کے حوالے سے واضح تھی اور بنگالیوں نے بہت زیادہ تعداد میں ہجرت نہیں کی اور یہ بھی سچ ہے کہ فسادات پورے ہندوستان میں ہوئے تھے لیکن جس طرح خون کی ہولی پنجاب میں کھیلی گئی اور جس طرح کی مکمل اور فی الفور ہجرت پنجاب میں دونوں طرف ہوئی اس کی نظیر نہیں ملتی۔
ہجرت تو بنگال میں بھی کافی ہوئی لیکن پنجاب کے سکیل کی نہیں۔ فسادات 1946 کی ہی سطح پر رہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ کلکتہ کے فسادات شاید اس قضیہ کا آغاز تھے۔
 
Top