فیصل عظیم فیصل
محفلین
راجا کی آنکھ سکنتلا سے اٹکی وہاں فوج دھونڈتی ہوئی جنگل میں بھولی بھٹکی ۔ آخرش ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے سپاہ کا وہاں گذر ہوا جہاں یوں بہم ناز و ادا کی فوجیں تل رہی تھیں اور آپس میں یہ ردوبدل ہو رہی تھی۔ فوج کے پرے کے پرے جب نزدیک آئے اور ہر ایک نے گھوڑے ادھر کو اٹھائے گرد زمین سے آسماں تلک گئی ۔ شور چاروں طرف بلند ہوا ، جنگل کے جانوروں کو گھیرنے قراول دوڑے اس طور سے اور اس طریق سے وہ سپاہ اس کی شکار کرتی ہوئی وہاں پہنچی ۔ تپسوی لوگوں نے فریاد مچائی کہ اپنے اپنے جانوروں کی رکھوالی کرو یہ شور و غل سن کر سکھیاں اپنے جی میں گھبرائیاں ، دل دھڑکنے لگے ہر ایک کا چہرہ پھول سا کملایا ۔ راجا خوشی کی باتیں کرنے نہ پایا ، دل میں اپنے اس فوج کے آنے سے بہت رکا ، انسویا دہشت کھا کر راجا سے بول اٹھی تم بیٹھو یا جاؤ ہمارا کلیجا تھرتھراتا ہے ۔ ہم اپنے مکان میں جاتیاں ہیں تم مہربانی کر کے ہمارے مکان میں آئیو ، تمہاری خدمت ہمیں لازم تھی سو ہم خدمت کئیے بن رخصت ہوتی ہیں یہ بات کہتے بھی ہمیں شرم آتی ہے ۔ ہم سے رکاوٹ دل میں مت کیجیئو پھر ایک بار ہمیں درشن دیجئیو ۔
سکنتلا کو تھام اور ہاتھ میں ہاتھ لے کر وہاں سے گھر کو چلیاں ، جدائی سے دونوں کے دل میں بے کلیاں ہوگئیاں ، وے ادھر چلیں اور راجا فوج کی طرف چلا ، جوں جوں وہ آگے جاتا تھا دل اس کا پیچھے رہا جاتا تھا ۔ وہ جب پاؤں رکھتا تھا آگے بڑھا ، کشش دل کی لاتی تھی پیچھے پھرا ۔
ہر ہر قدم پر اس کا تو یہ حال تھا اور سکنتلا کا عجب احوال تھا ، اپنی کف پا سے جو برگ گل سے نازک تر تھی کانٹے نکالنے کے بہانے جا بجا ٹھہرجاتی تھی اور کبھی آنچل اس کا بے قراری سے جو خاک پر گرتا تھا کھڑی ہو ہو اور سنبھال سنبھال آپ کو اٹھاتی تھی اور کبھی بال سر کے جو آشفتہ سری سے منہ پر بکھر جاتے تھے ۔ سنبل کا سا دستا بنا کر اسی حیلے سے باندھ کر جوڑا آگے پاؤں بڑھاتی تھی کبھی نظریں چرا کر سکھیوں کے ، پیچھے پھر کر راجا کو دیکھ لیتی تھی۔
خیال میں اس کے بے قراری سے یہ باتیں کر رہا تھا کہ کسی منی نے دو چیلے اس کے پاس بھیجے ۔ راجا نے دنتے ہی بلا لیا ۔ ان دونوں نے اسیس دی ۔ راجا نے دنڈوت کر آؤ بھگت کی تب وے بولے بنا کن بن سونا ہےہمارے ہاں ہوم ہوتا ہے دیو آن کر خلل کرتے ہیں یہ عرض منیوں نے کی ہے۔
وہ آپ ادھر جانے کا ارادہ رکھتا تھا یہ بات سن کر بہت شاد ہوا اور خوشی خوشی تیر و کمان ہاتھ مٰیں لیئے تپ بن میں گیا رکھوں کی رکھوالی کرنے لگا۔ بروگ اس کے دل میں سکنتلاکا بڑھا بن میں اسے ڈھونڈھنے لگا ۔ ازبس کہ گرمی کے دن تھے جب دوپہر کو سورج تپنے لگا اس کے دل میں یہ سوچ ہوا سکنتلا مدھو مالتی ندی کے کنارے اس کڑی دھوپ میں کھڑی ہوگی
سکنتلا کو تھام اور ہاتھ میں ہاتھ لے کر وہاں سے گھر کو چلیاں ، جدائی سے دونوں کے دل میں بے کلیاں ہوگئیاں ، وے ادھر چلیں اور راجا فوج کی طرف چلا ، جوں جوں وہ آگے جاتا تھا دل اس کا پیچھے رہا جاتا تھا ۔ وہ جب پاؤں رکھتا تھا آگے بڑھا ، کشش دل کی لاتی تھی پیچھے پھرا ۔
ہر ہر قدم پر اس کا تو یہ حال تھا اور سکنتلا کا عجب احوال تھا ، اپنی کف پا سے جو برگ گل سے نازک تر تھی کانٹے نکالنے کے بہانے جا بجا ٹھہرجاتی تھی اور کبھی آنچل اس کا بے قراری سے جو خاک پر گرتا تھا کھڑی ہو ہو اور سنبھال سنبھال آپ کو اٹھاتی تھی اور کبھی بال سر کے جو آشفتہ سری سے منہ پر بکھر جاتے تھے ۔ سنبل کا سا دستا بنا کر اسی حیلے سے باندھ کر جوڑا آگے پاؤں بڑھاتی تھی کبھی نظریں چرا کر سکھیوں کے ، پیچھے پھر کر راجا کو دیکھ لیتی تھی۔
اسی طرح ہر ہر قدم راہ تھی
کبھی نالہ تھا اور کبھی آہ تھی
یوں ہی لگن لگائے ہوئے وہ اپنے استھان میں گئی قالب میں گویا جان نہ تھی ۔ کبھی نالہ تھا اور کبھی آہ تھی
نہ تھا دن کو آرام نے شب کو خواب
شب و روز تھا اس کے جی کو عذاب
شرم کے مارے سکھیوں سے بھی نہ کچھ کہہ سکتی تھی ، دل کا درد دل ہی دل میں رکھتی تھی۔ تیر کاری یا تیز کٹاری کلیجے پر لگے تو سورما سہتے ہیں پر نئی جدائی کا دکھ کسی سے سہا نہیں جاتا ، کون کہے سے بات یہ مانے جس پر بیتے سوہی جانے ۔ جہاں وہ اکیلی جا بیٹھتی تھی ساون کی سی جھڑی لگاتی تھی ، اس کی یہ حالت تھی کہ سب رنگ بدن کا زرد تھا دل اور جگرمیں درد تھا۔ داغ سے سینہ سارا جلا تھا شور جنوں سے سر میں اٹھا تھا ۔شب و روز تھا اس کے جی کو عذاب
خوں ناب جگر دیدہ گریاں سے بہے تھا
اور نالہ جاں سوز ہی دمساز رہے تھا
یہ آگ جو اس کے بدن میں لگ رہی تھی رو رو کر آنسو سے بجھاتی تھی ، اس کا تو ہر دم یہی حال تھا اور راجا کا بھی عجب احوال تھا ۔ دھیان میں وہ اس کے حیران رہتا تھا اور ایسا دم بخود تھا کہ کسی سے درد دل کا بھی نہیں کہتا تھا۔اور نالہ جاں سوز ہی دمساز رہے تھا
حسرت سے ہر اک سو وہ حیرت زدہ تکتا تھا
سکتے کا سا عالم تھا کچھ کہہ نہیں سکتا تھا
سکنتلا سے جو اس نے دل اٹکایا ۔ پل مارتے وہ راج اپنا سب جلایا بھلایا، رات دن میں کل ایک دم بھی نہیں پڑتی تھی اسی کا دم بھرتا تھا نئی لگن نے اسے گھر جانے نہ دیا تپ بن کے پاس ڈیرہ کیا ۔ خاک پر اپنا سر پٹکتا تھا ۔ منی لوگوں کے ڈر سے بول نہیں سکتا تھا کہ کہیں یہ بد دعا نہ دے دیویں ۔ عشق کی آگ سے جلتا تھا اور دل میں اپنے کام دیو سے کہتا تھا تو بڑا کم بخت ہے نہایت بے انصافی تو نے یہاں آکر کی من سے تو اپچا اس لیئے تیرا نام منوج ہے اس من کو تو کیا جلاتا ہے۔ اس طرح کام دیو سے گلہ کر کے ، چاندنی رات کا عالم دیکھ کے کہنے لگا ، وہ مہ پارہ مجھ سے جدا ہے ، تو اے چاند اپنے جلوے دکھاتا ہے ، عاشقوں کو آتش حسرت سے جلاتا ہے ان کی آہ جاں سوز سے نہیں ڈرتا سمندر سے تیری پیدائش ہے کیوں دل میں تو آگ لگاتا ہے سمندر بھی تیری ان حرکتوں سے نہیں شرماتا۔ دل میں تو جو جلن ڈالتا ہے یہ تیرا قصور نہیں بلکہ یہ گناہ راہو کا ہے جو تجھے نگل کر چھوڑ دیتا ہے ۔ جو تجھے آب حیات کا چشمہ کہتے ہیں وے دیوانے ہیں۔سکتے کا سا عالم تھا کچھ کہہ نہیں سکتا تھا
خیال میں اس کے بے قراری سے یہ باتیں کر رہا تھا کہ کسی منی نے دو چیلے اس کے پاس بھیجے ۔ راجا نے دنتے ہی بلا لیا ۔ ان دونوں نے اسیس دی ۔ راجا نے دنڈوت کر آؤ بھگت کی تب وے بولے بنا کن بن سونا ہےہمارے ہاں ہوم ہوتا ہے دیو آن کر خلل کرتے ہیں یہ عرض منیوں نے کی ہے۔
وہ آپ ادھر جانے کا ارادہ رکھتا تھا یہ بات سن کر بہت شاد ہوا اور خوشی خوشی تیر و کمان ہاتھ مٰیں لیئے تپ بن میں گیا رکھوں کی رکھوالی کرنے لگا۔ بروگ اس کے دل میں سکنتلاکا بڑھا بن میں اسے ڈھونڈھنے لگا ۔ ازبس کہ گرمی کے دن تھے جب دوپہر کو سورج تپنے لگا اس کے دل میں یہ سوچ ہوا سکنتلا مدھو مالتی ندی کے کنارے اس کڑی دھوپ میں کھڑی ہوگی