محمد حسن شہزادہ
محفلین
شَیخ چِلّی
تحریر : ڈاکٹر ساجِِد اَمجَد ۔
شَیخ چِلّی اُردو اَدَب کے ایک اَفسانوی کِردارکی حَیثِیّت سے مَشہُور ہُوا ۔ اُس کی حَماقَتیں اور شَیخِیاں زُبانِ زَدِ خاص و عام ہو گَئیں یَہاں تک کہ یہ نام ہر اُس شَخص کے لِیے مَخصُوص ہو گیا جو حَماقَت آمیز گُفتگُو کرتا نظر آیا لَیکِن بَہُت کَم لوگ اُس کی حَقِیقَت سے واقِف ہونگے کہ شیخ چِلّی کوئی مَفرُوضہ اَفسانوی کِردار نَہِیں بَلکہ ایک حَقِیقی شَخصِیّت ہے۔ دَورِ اَکبَری میں وہ مُغَلِ اَعظَم جَلالُ الّدِین مُحَمَّد اَکبَر کے نَورَتنوں میں شامِل تھا۔ زیرِ نَظر سَرگُزَشت اُسی شُہرَہِ آفاق شَخصِیّت کی ہے۔ پَڑھیے اور سَر دُھنیے۔
______________________________________________________________
شَیخ اَبّو الغَنَم قَراقَری ، خاندانِ بَنی اَطفال کا نُمایاں تَرِین شَخص تھا ۔ یہ خاندان مَضافاتِ ماوَر النَہر میں آباد تھا ۔ شَیخ اَبّو الغَنَم بھیڑوں اور دُنبوں کا کاروبار کرتا تھا ۔ عِراق عَرب سے لے کر اَسپین کے بَربَری حِصے تک اُس کی تِجارَت کا سِلسِلَہ چَلا گَیا ۔ اِدَھر مَشرِق سے جَمنا پار سے کابَل کی سَرحَد اور اِس سے داہنی طَرف تِبّت کے مَشہُور مَقامات تک پُہنچا ہوا تھا ۔ اُس کے کارخانے کے کَمبَل تَمام یورَپ میں لوگوں کو سَردی سے بَچانے کا مُؤثَر تَرین ذَریعہ تھے ۔
اِس قَدر دَولَت و ناموَری کے باوُجود عُمرِ رَفتہ کے سائِبان میں عَرصہ دَراز سے کُنوارا بَیٹھا تھا۔ کون تھا جو اَپنی بیٹی اُسے خُوشی خُوشی نہ دیتا لَیکِن اُس کی شَرط ہی اَیسی تھی کہ وَقت کی گِرِفت میں نَہِیں آتی تھی۔ اُس کا کَہنا تھا کہ جب تک کوئی عَورَت اُس پر سَو جان سے فِدا نہ ہوجائے اور وہ خُود بھی اُس کے تِیرِ نَظر کا شِکار نہ ہوجائے ، وہ شادی نَہِیں کرے گا ۔ دُوسرے لَفظوں میں وہ پَسَند کی شادی کا قائِل تھا اور پَسَند بھی اَیسی کہ دونوں طَرف بَرابَر کی آگ ہو ۔ ہوتا یہ تھا کبھی کوئی اُس پر مَر مِٹتی لَیکِن اُس کی آنکھیں وِیران رہتیں ۔ کَبھی اُس کی آنکھوں میں کوئی آباد ہو جاتا تو دُوسری طَرف کا مَحَلّہ وِیران رہتا ۔
یہ کَشمَکَش جاری تھی کہ اُس کی مُلاقات صَفِیّہ نامی ایک عَورَت سے ہو گَئی ۔ دِل نے کَہا یَہِیں دَھڑَکنا ہوگا ۔ قَدموں نے کَہا یَہِیں بَہَکنا ہوگا ۔ آخِر صَفِیّہ سے اُس کی شادی ہو گئی ۔
صَفِیّہ سے اُس کی شادی سَخت نامُبارَک ثابِت ہُوئی ۔ مُلک میں سَخت قَحط پَڑ گَیا ۔ حالَت یہ ہوئی کہ اُس کے جانوَروں کا چارَہ تَک ناپَید ہو گَیا ۔ صَفِیّہ سے شادی کو چَند ہی ماہ گُزرے تھے کہ یہ اُفتاد آن پَڑی ۔ وہ نہ صَفِیّہ کو پَریشان دیکھ سَکتا تھا ، نہ جانوَروں کو بُھوکا ۔ اُس نے تھوڑے سے جانوَر ، نَقدی اور بِیوی کو ساتھ لے کر دَشتِ قُبچاق کا رُخ کیا کہ وَہاں چارَہ بہ اَفراط مِلے گا ۔ چارَہ تو مِل گیا لَیکن اُدھار نے گَھر دیکھ لیا تھا ۔ قِسمَت خِلاف تھی ، ڈاکُو گھات میں تھے ۔ نَقدی بھی گَنوائی ، جانوَر بھی ہاتھ سے گَئے ۔ بِیوی کے سِوا کُچھ نہ بَچا ۔
اَب وہ یَہاں رہ کر کیا کَرتا ۔ سامانِ سَفر کے نام پر تھا کیا جو جَمع کَرتا ، اُٹھا اور غَزنی کے طرف چَل دِیا ۔ سَلطان مَحمُود کا دَور تھا ۔ اُس نے سُلطان سے مُلاقات کی اور بھیڑوں کے مُتعلِق اَپنی مَعلُومات اِس تَفصِیل سے بَیان کِیں کہ سُلطان حَیران رہ گَیا ۔ اُسے دُنبوں کی دَروغگی کے عُہدے پر دَربار میں جَگہ مِل گَئی ۔
کُچھ دِنوں بَعد لَشکَر کی رَوانگی کا غَلغَلَہ بَلَند ہُوا ۔ مَعلُوم ہُوا سُلطان ہِندُوستان پر حَملے کے لِیے رَوانہ ہونے والا ہے ، یہ اُس کا بارھواں حَملہ تھا ۔ شَیخ نے بھی کِسی نہ کِسی طَرح لَشکَر کے ساتھ جانے کی اِجازَت طَلب کر لی ۔ اُس نے اَپنی عَزِیز بِیوی کو ساتھ لیا اور عازِمِ سَفر ہو گَیا ۔ ہِندُوستان اُسے اِتنا پَسَند آیا کہ واپسی کا اِرادَہ تَرک کر دِیا ۔ سُلطان کا لَشکَر تو فَتَح کی دُھول اُڑا کر واپَس چَلا گیا لَیکِن بَدایوں کے ایک قَصبے " چِلّہ " میں رِہائِش پَذِیر ہو گَیا ۔ آدمی ہوشیار تھا ، جَلد ہی تَرّقی کر لی ۔ اَولاد اور مال دونوں سے مالامال ہو گَیا ۔
شَیخ اَبّو الغَنَم قَراقَری کی ساتویں پُشت میں ایک شَخص " شَیخ مَلہُو " پَیدا ہُوا ۔ اُس خاندان کا تَرکَہ تَقسِیم دَر تَقسِیم کے بَعد اِتنا بھی نَہِیں رہا تھا کہ شَیخ مَلہُو خُوش حالی کی زِندگی گُزار سَکتا ۔ تھوڑی سی زَمِین تھی جِس پر مِحنَت و زَراعَت کر کے گُزَر اَوقات کر رہا تھا ۔ رَفتَہ رَفتَہ اِتنا سَرمایَہ جَمع کرلیا کہ کُچھ جانَور پال سکے ۔ اُس کی شادی اُس کی چَچازاد بہن بی بی حَمِیقَہ سے ہُوئی ۔ 1151ء میں اُس کے یَہاں بیٹا پَیدا ہُوا ۔ دائی نے بَچے کو دیکھا اور دیکھتے ہی اعلان کر دیا کہ اِس بَچے کے تو گُھٹنے ہی نَہِیں ہیں ۔ شَیخ مَلہُو کو بھی خَبر ہُوئی ۔ دیکھا تو بَچے کی ٹانگیں آسمان کی طَرف اُٹھی ہوئی ہیں ۔
" دیکھ لو ۔ گُھٹنے ہوتے تو ٹانگیں مُڑ نہ جاتیں " دائی نے کَہا ۔
" بُوا ، یہ دیکھو گُھٹنے ہیں تو " شَیخ مَلہُو نے کَہا ۔
" گُھٹنے ہوں گے مَگَر ہَڈیوں کے جوڑ صَحِیح نَہِیں بَیٹھے ہونگے ۔"
شَیخ مَلہُو نے ہَڈیوں کو ٹَٹول ٹَٹال کر دیکھا ۔ اُنہیں تو ہَڈیاں ٹِھیک ہی مَعلُوم ہُوئیں ۔ بَڑی کوشِش کے بَعد بَچے نے اَپنی ٹانگیں موڑِیں تو سَب کی جان میں جان آئی ۔ جِتنے چِہرے فِکَر مَند تھے، سَب پر ہَنسی دَوڑ گَئی ۔
" بَچّہ بَڑا بھاگوان ہے ۔ آتے ہی قَہقَہے بَرسا دِیے ۔" دائی نے کَہا " بَڑا ہو کے اِسی طرح سب کو ہَنساتا رَہے ۔"
سب نے آمِین کَہا ۔ آخِر تِیسرے دِن اُس کے ماں باپ نے اُس کا نام " چِلّہ " کی رِعایَت سے * شَیخ چِلّی * رکھ دِیا ۔ جب ذَرا بڑا ہوا تو ایک اور لَطِیفَہ سامنے آیا ۔ دُنیا بھر کے بَچّوں کا قاعِدہ ہے کہ کِتنا ہی رو رہے ہوں ، اِدَھر ماں نے دُودھ مُنہ میں دیا اُدَھر اُن کا رونا بَند ہُوا لَیکِن شَیخ چِلّی کا تو ہر کام ہی اُلٹا تھا ۔ دُودھ مُنہ میں لیتے ہی رونے لگتا ۔ چھاتی سے اَلَگ ہوتے ہیں ہَنسنے لَگتا ۔ دُودھ پِینے میں حَرِیص بَہُت تھا لَیکِن روتا بھی بَہُت تھا ۔ اُسے زِندَہ رَکھنا مَقصُود تھا اِسی لیے اُس کے رونے کی پَرواہ کِیے بَغَیر اُس کی ماں کو اُسے دُودھ پِلانا پَڑتا ۔
شُرُوع میں تو اُس کی ماں نے اِس تَماشے کو مِحض اِتِّفاق سَمجھا لَیکِن جَب ہَمیشَہ یَہی ہُوا تو گَھر والوں کے ہاتھ کھیل گَیا ۔ جَہاں چار عَورَتیں جَمع ہوتیں ، بی بی حَمِیقَہ کو گھیر لیتیں ۔
" بہن ، اَپنے نَنّھے کا مَذاق نَہِیں دِکھاؤ گی ؟"
" بہن تُم نے تو کھیل ہی بَنا لِیا ۔"
" بَچّے تو ہوتے ہی کھیلنے کے لِیے ہَیں ۔ "
" بی بی حَمِیقَہ ہَنستے ہُوئے شَیخ چِلّی کو گود میں اُٹھاتی اور سِینے سے لگا لیتی ۔ وہ بَڑے شوق سے دُودھ پر مُنہ مارتا لَیکِن ساتھ ساتھ روتا بھی جاتا ۔ جَیسے ہی بی بی حَمِیقَہ اُسے دُودھ سے اَلَگ کَرتی ، وہ پِھر کِلکارِیاں مار کر ہَنسنے لَگتا ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : ڈاکٹر ساجِِد اَمجَد ۔
شَیخ چِلّی اُردو اَدَب کے ایک اَفسانوی کِردارکی حَیثِیّت سے مَشہُور ہُوا ۔ اُس کی حَماقَتیں اور شَیخِیاں زُبانِ زَدِ خاص و عام ہو گَئیں یَہاں تک کہ یہ نام ہر اُس شَخص کے لِیے مَخصُوص ہو گیا جو حَماقَت آمیز گُفتگُو کرتا نظر آیا لَیکِن بَہُت کَم لوگ اُس کی حَقِیقَت سے واقِف ہونگے کہ شیخ چِلّی کوئی مَفرُوضہ اَفسانوی کِردار نَہِیں بَلکہ ایک حَقِیقی شَخصِیّت ہے۔ دَورِ اَکبَری میں وہ مُغَلِ اَعظَم جَلالُ الّدِین مُحَمَّد اَکبَر کے نَورَتنوں میں شامِل تھا۔ زیرِ نَظر سَرگُزَشت اُسی شُہرَہِ آفاق شَخصِیّت کی ہے۔ پَڑھیے اور سَر دُھنیے۔
______________________________________________________________
شَیخ اَبّو الغَنَم قَراقَری ، خاندانِ بَنی اَطفال کا نُمایاں تَرِین شَخص تھا ۔ یہ خاندان مَضافاتِ ماوَر النَہر میں آباد تھا ۔ شَیخ اَبّو الغَنَم بھیڑوں اور دُنبوں کا کاروبار کرتا تھا ۔ عِراق عَرب سے لے کر اَسپین کے بَربَری حِصے تک اُس کی تِجارَت کا سِلسِلَہ چَلا گَیا ۔ اِدَھر مَشرِق سے جَمنا پار سے کابَل کی سَرحَد اور اِس سے داہنی طَرف تِبّت کے مَشہُور مَقامات تک پُہنچا ہوا تھا ۔ اُس کے کارخانے کے کَمبَل تَمام یورَپ میں لوگوں کو سَردی سے بَچانے کا مُؤثَر تَرین ذَریعہ تھے ۔
اِس قَدر دَولَت و ناموَری کے باوُجود عُمرِ رَفتہ کے سائِبان میں عَرصہ دَراز سے کُنوارا بَیٹھا تھا۔ کون تھا جو اَپنی بیٹی اُسے خُوشی خُوشی نہ دیتا لَیکِن اُس کی شَرط ہی اَیسی تھی کہ وَقت کی گِرِفت میں نَہِیں آتی تھی۔ اُس کا کَہنا تھا کہ جب تک کوئی عَورَت اُس پر سَو جان سے فِدا نہ ہوجائے اور وہ خُود بھی اُس کے تِیرِ نَظر کا شِکار نہ ہوجائے ، وہ شادی نَہِیں کرے گا ۔ دُوسرے لَفظوں میں وہ پَسَند کی شادی کا قائِل تھا اور پَسَند بھی اَیسی کہ دونوں طَرف بَرابَر کی آگ ہو ۔ ہوتا یہ تھا کبھی کوئی اُس پر مَر مِٹتی لَیکِن اُس کی آنکھیں وِیران رہتیں ۔ کَبھی اُس کی آنکھوں میں کوئی آباد ہو جاتا تو دُوسری طَرف کا مَحَلّہ وِیران رہتا ۔
یہ کَشمَکَش جاری تھی کہ اُس کی مُلاقات صَفِیّہ نامی ایک عَورَت سے ہو گَئی ۔ دِل نے کَہا یَہِیں دَھڑَکنا ہوگا ۔ قَدموں نے کَہا یَہِیں بَہَکنا ہوگا ۔ آخِر صَفِیّہ سے اُس کی شادی ہو گئی ۔
صَفِیّہ سے اُس کی شادی سَخت نامُبارَک ثابِت ہُوئی ۔ مُلک میں سَخت قَحط پَڑ گَیا ۔ حالَت یہ ہوئی کہ اُس کے جانوَروں کا چارَہ تَک ناپَید ہو گَیا ۔ صَفِیّہ سے شادی کو چَند ہی ماہ گُزرے تھے کہ یہ اُفتاد آن پَڑی ۔ وہ نہ صَفِیّہ کو پَریشان دیکھ سَکتا تھا ، نہ جانوَروں کو بُھوکا ۔ اُس نے تھوڑے سے جانوَر ، نَقدی اور بِیوی کو ساتھ لے کر دَشتِ قُبچاق کا رُخ کیا کہ وَہاں چارَہ بہ اَفراط مِلے گا ۔ چارَہ تو مِل گیا لَیکن اُدھار نے گَھر دیکھ لیا تھا ۔ قِسمَت خِلاف تھی ، ڈاکُو گھات میں تھے ۔ نَقدی بھی گَنوائی ، جانوَر بھی ہاتھ سے گَئے ۔ بِیوی کے سِوا کُچھ نہ بَچا ۔
اَب وہ یَہاں رہ کر کیا کَرتا ۔ سامانِ سَفر کے نام پر تھا کیا جو جَمع کَرتا ، اُٹھا اور غَزنی کے طرف چَل دِیا ۔ سَلطان مَحمُود کا دَور تھا ۔ اُس نے سُلطان سے مُلاقات کی اور بھیڑوں کے مُتعلِق اَپنی مَعلُومات اِس تَفصِیل سے بَیان کِیں کہ سُلطان حَیران رہ گَیا ۔ اُسے دُنبوں کی دَروغگی کے عُہدے پر دَربار میں جَگہ مِل گَئی ۔
کُچھ دِنوں بَعد لَشکَر کی رَوانگی کا غَلغَلَہ بَلَند ہُوا ۔ مَعلُوم ہُوا سُلطان ہِندُوستان پر حَملے کے لِیے رَوانہ ہونے والا ہے ، یہ اُس کا بارھواں حَملہ تھا ۔ شَیخ نے بھی کِسی نہ کِسی طَرح لَشکَر کے ساتھ جانے کی اِجازَت طَلب کر لی ۔ اُس نے اَپنی عَزِیز بِیوی کو ساتھ لیا اور عازِمِ سَفر ہو گَیا ۔ ہِندُوستان اُسے اِتنا پَسَند آیا کہ واپسی کا اِرادَہ تَرک کر دِیا ۔ سُلطان کا لَشکَر تو فَتَح کی دُھول اُڑا کر واپَس چَلا گیا لَیکِن بَدایوں کے ایک قَصبے " چِلّہ " میں رِہائِش پَذِیر ہو گَیا ۔ آدمی ہوشیار تھا ، جَلد ہی تَرّقی کر لی ۔ اَولاد اور مال دونوں سے مالامال ہو گَیا ۔
شَیخ اَبّو الغَنَم قَراقَری کی ساتویں پُشت میں ایک شَخص " شَیخ مَلہُو " پَیدا ہُوا ۔ اُس خاندان کا تَرکَہ تَقسِیم دَر تَقسِیم کے بَعد اِتنا بھی نَہِیں رہا تھا کہ شَیخ مَلہُو خُوش حالی کی زِندگی گُزار سَکتا ۔ تھوڑی سی زَمِین تھی جِس پر مِحنَت و زَراعَت کر کے گُزَر اَوقات کر رہا تھا ۔ رَفتَہ رَفتَہ اِتنا سَرمایَہ جَمع کرلیا کہ کُچھ جانَور پال سکے ۔ اُس کی شادی اُس کی چَچازاد بہن بی بی حَمِیقَہ سے ہُوئی ۔ 1151ء میں اُس کے یَہاں بیٹا پَیدا ہُوا ۔ دائی نے بَچے کو دیکھا اور دیکھتے ہی اعلان کر دیا کہ اِس بَچے کے تو گُھٹنے ہی نَہِیں ہیں ۔ شَیخ مَلہُو کو بھی خَبر ہُوئی ۔ دیکھا تو بَچے کی ٹانگیں آسمان کی طَرف اُٹھی ہوئی ہیں ۔
" دیکھ لو ۔ گُھٹنے ہوتے تو ٹانگیں مُڑ نہ جاتیں " دائی نے کَہا ۔
" بُوا ، یہ دیکھو گُھٹنے ہیں تو " شَیخ مَلہُو نے کَہا ۔
" گُھٹنے ہوں گے مَگَر ہَڈیوں کے جوڑ صَحِیح نَہِیں بَیٹھے ہونگے ۔"
شَیخ مَلہُو نے ہَڈیوں کو ٹَٹول ٹَٹال کر دیکھا ۔ اُنہیں تو ہَڈیاں ٹِھیک ہی مَعلُوم ہُوئیں ۔ بَڑی کوشِش کے بَعد بَچے نے اَپنی ٹانگیں موڑِیں تو سَب کی جان میں جان آئی ۔ جِتنے چِہرے فِکَر مَند تھے، سَب پر ہَنسی دَوڑ گَئی ۔
" بَچّہ بَڑا بھاگوان ہے ۔ آتے ہی قَہقَہے بَرسا دِیے ۔" دائی نے کَہا " بَڑا ہو کے اِسی طرح سب کو ہَنساتا رَہے ۔"
سب نے آمِین کَہا ۔ آخِر تِیسرے دِن اُس کے ماں باپ نے اُس کا نام " چِلّہ " کی رِعایَت سے * شَیخ چِلّی * رکھ دِیا ۔ جب ذَرا بڑا ہوا تو ایک اور لَطِیفَہ سامنے آیا ۔ دُنیا بھر کے بَچّوں کا قاعِدہ ہے کہ کِتنا ہی رو رہے ہوں ، اِدَھر ماں نے دُودھ مُنہ میں دیا اُدَھر اُن کا رونا بَند ہُوا لَیکِن شَیخ چِلّی کا تو ہر کام ہی اُلٹا تھا ۔ دُودھ مُنہ میں لیتے ہی رونے لگتا ۔ چھاتی سے اَلَگ ہوتے ہیں ہَنسنے لَگتا ۔ دُودھ پِینے میں حَرِیص بَہُت تھا لَیکِن روتا بھی بَہُت تھا ۔ اُسے زِندَہ رَکھنا مَقصُود تھا اِسی لیے اُس کے رونے کی پَرواہ کِیے بَغَیر اُس کی ماں کو اُسے دُودھ پِلانا پَڑتا ۔
شُرُوع میں تو اُس کی ماں نے اِس تَماشے کو مِحض اِتِّفاق سَمجھا لَیکِن جَب ہَمیشَہ یَہی ہُوا تو گَھر والوں کے ہاتھ کھیل گَیا ۔ جَہاں چار عَورَتیں جَمع ہوتیں ، بی بی حَمِیقَہ کو گھیر لیتیں ۔
" بہن ، اَپنے نَنّھے کا مَذاق نَہِیں دِکھاؤ گی ؟"
" بہن تُم نے تو کھیل ہی بَنا لِیا ۔"
" بَچّے تو ہوتے ہی کھیلنے کے لِیے ہَیں ۔ "
" بی بی حَمِیقَہ ہَنستے ہُوئے شَیخ چِلّی کو گود میں اُٹھاتی اور سِینے سے لگا لیتی ۔ وہ بَڑے شوق سے دُودھ پر مُنہ مارتا لَیکِن ساتھ ساتھ روتا بھی جاتا ۔ جَیسے ہی بی بی حَمِیقَہ اُسے دُودھ سے اَلَگ کَرتی ، وہ پِھر کِلکارِیاں مار کر ہَنسنے لَگتا ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔