داعش کا حقيقی چہرہ

Fawad -

محفلین

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

7_yr_old_isis_child.jpg


سات سالہ بچے کا روح فرسا انکشاف:

”داعش کے شدت پسند مجھے اور دیگر بچوں کو لڑائی کی تربیت دیتے اورسکھاتے تھے کہ خنجر سے لوگوں کے سرکیسے قلم کرتے ہیں ۔“

Yazidi boy reveals horrors of being held captive by ISIS | Daily Mail Online

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

Better_future.jpg


يہ بچے ايک بہتر زندگی اور شاندار مستقبل کے مستحق ہيں
داعش کے ٹريننگ کیمپ سے بازياب ہونے والے بچوں کی المناک داستانيں


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


World_Heritage_destroyed_by_ISIS.jpg


انسانيت کی قاتل داعش شام اور عراق کی عوام کو اپنے قيمتی ثقافتی ورثے سے محروم کرنے کے درپے


Here Are the Ancient Sites ISIS Has Damaged and Destroyed

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 

squarened

معطل
اس لیے امریکہ اور روس نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے بچوں کو ہی ختم کر دیا جائے تاکہ وہ جنت میں بہتر زندگی گزار سکیں

301132_details.png



انسانیت کا ہمدرد امریکہ
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

Paris_attack.jpg


پيرس حملہ – داعش کی جانب سے دہشت گرد کاروائيوں کی ذمہ داری قبول کرنا اور ان حملوں کو "کاميابی" گردانا، انکی اصل حقيقت کو عياں کرتا ہے۔​



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 

Fawad -

محفلین


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس حوالے سے کوئ ابہام يا غلط فہمی نہيں رہنی چاہيے۔ امريکی فضائ حملے اور عالمی اتحاد کی جاری کاروائ داعش کے جنگجوؤں اور ان کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف ہے۔ نہتے شہری اور مساجد سميت عوامی مقامات کسی بھی طور ہمار ے اہداف نہيں ہيں۔ امريکی حکومت اور ہمارے اتحادی دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوئے اپنے وسائل ان عام شہريوں کے خلاف استعمال کر کے کچھ حاصل نہيں کريں گے جن کی حفاظت کی ہم کوشش کر رہے ہيں۔

جس واقعے کا تذکرہ کيا گيا ہے، اس حوالے سے امريکی سنٹرل کمانڈ کے ترجمان کرنل جان تھامس نے پہلے ہی يہ واضح کر ديا ہے کہ گزشتہ جمعرات کو مطلوبہ ہدف کو ہی نشانہ بنايا گيا تھا ليکن اس علاقے ميں موجود مسجد کو نشانہ نہيں بنايا گيا۔

"ہم نے کسی مسجد کو نشانہ نہيں بنايا۔ ہم نے جس ہدف کو نشانہ بنايا، اسے تباہ کر ديا گيا ہے۔ اس عمارت سے پچاس فٹ کے فاصلے پر ايک مسجد موجود تھی جو اب بھی قائم ہے"۔

U.S. denies bombing Syrian mosque where dozens died

ايک عوامی عمارت پر حملے کے حوالے سے متضاد خبريں يقینی طور پر سامنے آئ ہيں۔ تاہم چند گمراہ کن شہ سرخيوں کے برخلاف "سيرين آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس" نامی انسانی حقوق کی جس تنظيم نے حملے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کيا تھا، اسی تنظيم نے اپنی ويب سائٹ پر يہ بات بھی واضح کی ہے کہ جن جہازوں نے مسجد کو نشانہ بنايا تھا ان کی شناخت نہيں کی جا سکی ہے۔

اس حوالے سے تفصيل ان کی ويب سائٹ پر موجود ہے

http://www.syriahr.com/en/?p=62992

امريکی فوج کی قيادت نے پہلے ہی اعلان کر ديا ہے کہ اس بات کی مکمل تفتيش کی جائے گی کہ آيا حملے ميں بے گناہ شہری ہلاک يا زخمی ہوئے ہيں کہ نہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 

squarened

معطل
نہتے شہری اور مساجد سميت عوامی مقامات کسی بھی طور ہمار ے اہداف نہيں ہيں۔ امريکی حکومت اور ہمارے اتحادی دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوئے اپنے وسائل ان عام شہريوں کے خلاف استعمال کر کے کچھ حاصل نہيں کريں گے جن کی حفاظت کی ہم کوشش کر رہے ہيں۔


اہداف نہ ہوتے ہوئے بھی بیشمار واقعات کولیٹرل ڈیمجز کے پیش آ چکے ہیں فواد صاحب، کس کس کی وضاحت کریں گے. امریکہ نے تو پاکستان میں ہی بہت سے ڈرون اٹیک معصوم لوگوں پر کیے ہیں، افغانستان میں شادی کی تقریبوں تک پر بم برسائے ہیں، کیا خوب عام شہریوں کی حفاظت کی کوششیں ہیں جس میں ہزاروں شامی،افغان، پاکستانی اپنی جانوں سے جا چکے ہیں

اپنے وسائل آپ بچا کر اپنے ملک میں لگا لیں اور ہر جگہ مداخلت سے گریز کریں تو شاید دنیا میں کچھ سکون آ جائے

جن جہازوں نے مسجد کو نشانہ بنايا تھا ان کی شناخت نہيں کی جا سکی ہے۔

شاباش ہے. شامی عوام پر کیمیکل حملے کرنے والوں کی شناخت ہو گئی تھی؟ بقول امریکہ اس نے اسی اڈے کو نشانہ بنایا جہاں سے حملہ ہوا تو امریکہ کو پہلے سے معلوم تھا کہ یہاں سے حملہ ہو رہا ہے؟ اگر ہاں تو روکا کیوں نہیں؟ ،اگر نہیں تو بعد میں کس نے بتا دیا؟
بشار معلون بھی انکاری ہے اور نقصان بھی ایسے میں اسی کا زیادہ ہونا تھا، شامی اپوزیشن اور داعش کے پاس فضائی قوت نہیں ،رہ گیا۔۔۔۔۔۔

امريکی فوج کی قيادت نے پہلے ہی اعلان کر ديا ہے کہ اس بات کی مکمل تفتيش کی جائے گی کہ آيا حملے ميں بے گناہ شہری ہلاک يا زخمی ہوئے ہيں کہ نہيں۔

یہ اعلانات ہم پچھلی تمام سویلین ہلاکتوں میں بھی سن چکے ہیں، بلکہ تحقیقات تو عراق میں ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن کی بھی ہو چکی ہیں، آپ کریں یا آپ کے اتحادی. نتائج سے سب واقف ہیں
 

Fawad -

محفلین
اہداف نہ ہوتے ہوئے بھی بیشمار واقعات کولیٹرل ڈیمجز کے پیش آ چکے ہیں فواد صاحب، کس کس کی وضاحت کریں گے. امریکہ نے تو پاکستان میں ہی بہت سے ڈرون اٹیک معصوم لوگوں پر کیے ہیں، افغانستان میں شادی کی تقریبوں تک پر بم برسائے ہیں، کیا خوب عام شہریوں کی حفاظت کی کوششیں ہیں جس میں ہزاروں شامی،افغان، پاکستانی اپنی جانوں سے جا چکے ہیں


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت نے کبھی بھی يہ دعوی نہيں کيا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے ليے جاری عالمی کوششوں کے ضمن میں کبھی بھی کوئ بے گناہ شہری ہلاک نہيں ہوا ہے۔ کسی بھی مسلح تنازعے کے ضمن ميں جانی نقصان ايک تلخ حقيقت ہے اور اس تلخ حقيقت کا اطلاق تاريخ کی ہر جنگ پر ہوتا ہے۔ امريکی قيادت ميں دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی کوششيں بھی اس اصول سے مبرا نہيں ہيں۔

تاہم آپ کی رائے سے يہ تاثر ابھرتا ہے کہ جيسے امريکی حکومت دانستہ اس طرح کے واقعات کے ليے ذمہ دار ہے۔

معاملے کو درست تناظر ميں سمجھنے کے لیے گزشتہ دو دہائيوں کے دوران عراق اور افغانستان کی جنگوں کے دوران ان امريکی اور اتحادی فوجيوں کی ہلاکت کے حوالے سے ايک سرسری جائزہ پيش ہے جو مختلف "فرينڈلی فائر" واقعات ميں اپنی جان سے ہاتھ دھو بيٹھے۔

List of friendly fire incidents - Wikipedia

https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_friendly_fire_incidents#Iraq_War_from_2003

يقینی طور پر کوئ بھی يہ دعوی نہيں کر سکتا کہ امريکہ اپنے سب سے قيمتی اثاثوں يعنی کہ اپنے فوجيوں کو دانستہ نشانہ بنا کر انھيں ہلاک کرے گا۔

وہ بے رحم قاتل اور دہشت گرد جو دانستہ ايک پاليسی کے تحت نہ صرف يہ کہ معصوم لوگوں کو اپنا نشانہ بناتے ہيں بلکہ انھيں ڈھال کے طور پر بھی استعمال کرتے ہيں، وہ آپ کی مذمت کے اصل حقدار ہيں۔ کسی بھی تنازے ميں بے گناہ افراد کی ہلاکت يقینی طور پر ايک سانحہ ہے اور اس پر اظہار افسوس بھی لازمی ہے۔ امريکی فوج بے گناہ افراد کی جانوں کے تحفظ کے لیے تحت شدہ قواعد و ضوابط کو بھی ملحوظ رکھتی ہے اور اس ضمن ميں ہر ممکن احتياط بھی برتی جاتی ہے۔ جيسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ بے گناہ افراد کی ہلاکت کی صورت ميں امريکی، نيٹو اور پاکستانی افواج کو کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ اس کے برعکس دہشت گردوں کی حکمت عملی کا بنيادی نقطہ ہی يہ ہے کہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کو ہلاک کيا جائے۔

چاہے وہ سلالہ کا واقعہ ہو يا کوئ بھی سانحہ جس ميں امريکی اقدامات کی وجہ سے انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہو، ہم نے ہميشہ اپنی ذمہ داری قبول بھی کی ہے، اظہار افسوس بھی کيا ہے اور ايسے اقدامات بھی اٹھائے ہيں جن سے مستقبل ميں ايسے سانحوں سے بچا جا سکے۔

اس کے برعکس کيا آپ نے ان دہشت گرد تنظيموں کے کسی ترجمان کی جانب سے کبھی کوئ ايسا بيان بھی سنا ہے جس ميں اپنی مبينہ مذہبی جنگ کی پاداش ميں بے گناہ افراد کی ہلاکت پر اظہار افسوس يا پيشمانی کا اظہار کيا گيا ہو۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 

squarened

معطل
کوئ بھی سانحہ جس ميں امريکی اقدامات کی وجہ سے انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہو، ہم نے ہميشہ اپنی ذمہ داری قبول بھی کی ہے، اظہار افسوس بھی کيا ہے اور ايسے اقدامات بھی اٹھائے ہيں جن سے مستقبل ميں ايسے سانحوں سے بچا جا سکے۔

عراق پر چڑھائی کی ذمہ داری قبول کر لی؟، لیبیا کے حالات پر افسوس کا اظہار؟مستقبل کے سانحات کی بھی خوب کہی، شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں
تاہم آپ کی رائے سے يہ تاثر ابھرتا ہے کہ جيسے امريکی حکومت دانستہ اس طرح کے واقعات کے ليے ذمہ دار ہے۔

اس کے جواب میں وسعت اللہ خان صاحب کے کچھ دن پہلے کے کالم کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے جو آپ کے شعبہ سے ہی متعلق ہے
آپ کو شاید یاد ہو کہ بش جونئیر نے اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آخری زمانے میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک شعبہ قائم کیا تھا۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ آخر باقی دنیا امریکا سے اتنی بدظن کیوں ہے؟ اس شعبے کا ابتدائی بجٹ دو ملین ڈالر رکھا گیا تھا۔ حالانکہ تیسری دنیا کا کوئی بھی راہ چلتا کنگلہ اس سوال کا جواب صرف دو ڈالر میں بتا سکتا تھا۔

اس کے برعکس کيا آپ نے ان دہشت گرد تنظيموں کے کسی ترجمان کی جانب سے کبھی کوئ ايسا بيان بھی سنا ہے جس ميں اپنی مبينہ مذہبی جنگ کی پاداش ميں بے گناہ افراد کی ہلاکت پر اظہار افسوس يا پيشمانی کا اظہار کيا گيا ہو۔

ان سے ایسے بیانات کی کون توقع کر سکتا ہے، البتہ یہ ہے کہ یہ دہشتگرد پیدا کیوں ہو رہے ہیں؟داعش کے پاس اتنا جدید اسلحہ اور وسائل کہاں سے آ رہے ہیں؟
 

Fawad -

محفلین
داعش کے پاس اتنا جدید اسلحہ اور وسائل کہاں سے آ رہے ہیں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جب آپ داعش کے وسائل اور ان ذرائع کا ذکر کرتے ہيں جن کے توسط يہ دہشت گرد تنطيم علاقے ميں فعال ہے اور بدستور دہشت گرد کاروائياں کرنے ميں کامياب ہے، تو پھر آپ اس حقيقت کا اداراک بھی کريں کہ بے شمار ديگر دہشت گرد تنظيموں کے برعکس داعش عراق اور شام ميں مختلف علاقوں اور زمينوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔

اگرچہ اب بيشتر علاقہ ان کے قبضے سے نکلتا جا رہا ہے، تاہم اس تناظر ميں يہ کوئ حيران کن امر نہيں ہے کہ آئ ايس آئ ايس نے دنيا کی امير ترين دہشت گرد تنطيم کا "اعزاز" حاصل کر ليا ہے اور اس کی بڑی وجہ اس تنظيم کے زير تسلط علاقوں ميں منظم لوٹ مار اور وسائل پر بے دريخ قبضہ ہے جو ان کی حکمت عملی کا اہم حصہ رہا ہے۔

اکتوبر 2015 ميں امريکی محکمہ خزانہ کے دہشت گردی اور مالی اينٹيلی جينس سے متعلق انڈر سيکرٹری نے بھی اسی بات کو اجاگر کيا تھا اور يہ واضح کيا تھا کہ "مالی وسائل کے اعتبار سے داعش شايد اب تک کی سب سے زيادہ فعال دہشت گرد تنظيم کے طور پر سامنے آئ ہے"۔ ان کی مکمل رپورٹ اس لنک پر موجود ہے

Remarks of Under Secretary for Terrorism and Financial Intelligence David S. Cohen at The Carnegie Endowment For International Peace, “Attacking ISIL’s Financial Foundation”

اسی طرح اکتوبر 2014 ميں اقوام متحدہ کی ايک رپورٹ ميں اعداد وشمار کے ساتھ واضح کيا گيا کہ صرف اغوا اور تاوان جيسی کاروائيوں سے داعش نے ايک سال ميں 35 سے 45 ملين ڈالرز شہريوں سے وصول کيے۔

United Nations Official Document

آئ ايس آئ ايس کے جنگجو جو ايک وقت گلف کے بعض مخير حلقوں سے حاصل شدہ چندے کی رقم پر انحصار کرتے تھے، اب خود وسائل سے مالا مال اور مالی خودانحصاری کے اس مقام پر پہنچ چکے ہيں جہاں تيل کی سمگلنگ، چوری چکاری، بھتہ خوری اور انسانی سمگلنگ کی بدولت اس تنظيم کی يوميہ آمدن 3 ملين ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس وقت عراق اور شام ميں تيل کے قريب 11 ذخائر اس تنظيم کے زير اثر ہيں اور يہ قديم تہذيبوں سے حاصل شدہ مالی وسائل کے ذريعے بھی اپنی بربريت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

آئ ايس آئ ايس نے نا صرف يہ کہ عراق سے قيمتی نواردات ترکی ميں فروخت کر کے کئ ملين ڈالرز تک رسائ حاصل کی ہے بلکہ عورتوں اور بچوں سميت اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور انسانی اسمگلنگ جيسے جرائم نے بھی اس تنظيم کی مالی حيثيت کو مستحکم کرنے ميں اہم کردار ادا کيا ہے۔

علاوہ ازيں دکان داروں، کاروباری طبقات اور عام شہريوں کا بھی آئ ايس آئ ايس کے ہاتھوں بھتہ خوری کا شکار ہونا روز کا معمول ہے۔

ذيل ميں ايک رپورٹ کا لنک موجود ہے جس ميں آئ ايس آئ ايس کے جنگجوؤں کے ہاتھوں عام شہريوں سے زبردستی بھتے وصول کرنے کے کئ واقعات کی تفصيل موجود ہے۔

اسلامک اسٹیٹ: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ | حالات حاضرہ | DW.COM | 11.09.2014

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 

Fawad -

محفلین
عراق پر چڑھائی کی ذمہ داری قبول کر لی؟،


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سال 2003 ميں عالمی اتحاد کی جانب سے صدام حکومت کے خلاف کاروائ کا فيصلہ ايک بالکل مختلف موضوع ہے جس پر اردو محفل ميں بارہا تفصيل سے بحث کی جا چکی ہے، ليکن زير بحث موجودہ موضوع کے حوالے سے وہ ايک غير متعلقہ بات ہے۔

واقعات کا تسلسل، عالمی خدشات اور مختلف عالمی فورمز پر کی جانے والی بحث جو سال 2003 ميں فوجی کاروائ کے فيصلے پر منتہج ہوئ ان مظالم کی وجہ نہيں ہے جو آج آئ ايس آئ ايس عراقی عوام پر ڈھا رہی ہے اور زبردستی اپنی سوچ اور مرضی عام عوام پر مسلط کرنے پر بضد ہے۔ آپ کی رائے کی روشنی ميں اگر آئ ايس آئ ايس کوئ ايسی تنظيم ہوتی جو خطے ميں امريکی موجودگی کے نتيجے ميں ردعمل کے طور پر وجود ميں آئ ہوتی تو پھر اس منطق کے تحت تو اس تنظيم کا وجود سال 2011 ميں اس وقت ختم ہو جانا چاہیے تھا جب امريکی افواج نے سيکورٹی کے معاملات عراقی عوام کے منتخب جمہوری نمايندوں کے حوالے کر کے علاقے سے مکمل طور پر انخلاء کر ليا تھا۔

مگر ہم جانتے ہيں کہ صورت حال يہ نہيں ہے۔ اس گروہ کو تو تقويت ہی اس وقت ملی تھی جب امريکی افواج خطے سے نکل چکی تھيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
USUrduDigitalOutreach
 

Fawad -

محفلین
لیبیا کے حالات پر افسوس کا اظہار؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں آپ کو ياد دلا دوں کہ امريکی حکومت نے قريب 20 برسوں تک ليبيا کے ساتھ سفارتی تعلقات ان کے ماضی کے اقدامات سے شدید مخالفت کی بنياد پر منقطع رکھے تھے۔ يہ روابط اسی وقت بحال ہوئے تھے جب ليبيا کی حکومت نے اپنی متشدد پاليسياں ترک کی تھيں۔

امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔

جہاں امريکہ کے ايسے ممالک سے روابط رہے ہيں جہاں آمريت ہے، وہاں ايسے بھی بہت سے ممالک ہيں جہاں جمہوريت يا اور کوئ اور نظام حکومت ہے۔

ہر تنازعہ اپنی پيچيدگی کے حوالے سے مختلف اور ايک جامع تجزيے اور مخصوص اقدامات کا متقاضی ہوتا ہے۔

امريکہ اپنے عالمی اتحاديوں بشمول علاقائ تنظيموں، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں سے مشاورت کرنے کے بعد کسی بھی تنازعے کے حوالے سے ردعمل کا فيصلہ کرتا ہے۔ اس تناظر ميں يہ کوئ انہونی بات نہيں ہے مختلف عالمی تنازعات کے حوالے سے امريکہ کا کردار متنوع ہو سکتا ہے۔

بدقسمتی سے جو افراد امريکہ کی جانب سے کی گئ ہر عالمی کوشش کو مسلمانوں کے وسائل کے قبضے کی سازش سے تعبير کرتے ہيں اور اس ضمن ميں جذباتی نعروں اور دلائل کا سہارہ ليتے ہيں وہ حقائق اور سچ کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ميں چاہوں گا کہ آپ ان امريکی وسائل پر بھی نظر ڈاليں جو ايسے کئ عالمی تنازعوں ميں انسانی جانوں کو محفوظ کرنے کے ليے خرچ کيے جا رہے ہيں جنھيں نہ تو امريکی حکومت نے شروع کيا تھا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائ کی تھی۔

جہاں تک ليبيا ميں امريکی کردار کا تعلق ہے تو اس ضمن ميں امريکی مداخلت کا مقصد اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد 1973 کی شقوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے عالمی اتحاد کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے ضمن ميں معاونت فراہم کرنا تھا۔ امريکہ کی جانب سے ان محدود اقدامات کے نتيجے ميں دیگر اتحادی شراکت داروں کے ليے کاروائ کی راہ ہموار ہوئ، تاہم اس ميں براہراست امريکی حکومت يا افواج کا عمل دخل نہيں تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​

 

Fawad -

محفلین

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

18157046_1404405616286259_7901456869501638275_n.jpg


داعشی درندوں کا شہریوں سے دردناک دھوکہ: لبریشن فورسز کے بھیس میں شہر داخل ہوئے اور خوش آمدید کہنے والوں کو گولیوں سے بھون دیا

http://urdu.timesofislamabad.com/عراق-میں-داعش-نے-15-شہری-ہلاک-کردئیے/


https://www.facebook.com/USDOTUrdu/...365134490320/1404405616286259/?type=3&theater
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 
حضور! یہ بات پوری دنیا جان چکی ہے کہ آپ اپنے ملک کے مفادات کے لیے کسی بھی انسانیت کی نچلی سطح تک جا سکتے ہیں۔ اتنی لمبی چوڑی کہانیاں جو آپ یہاں سنا رہے ہیں کہیں اور جا سنائیے جہاں ان پڑھ، جاہل اور آپ کی حقیقت سے ناواقف لوگ بستے ہوں۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ جس ملک سے آپ کے مفاد جڑے ہوں پہلے آپ وہاں فساد پھیلاتے ہیں اور پھر پوری دنیا میں انسانی حقوق کا واویلا مچاتے ہوئے اس ملک کو بچانے کی آڑ میں وہاں داخل ہو کر اپنے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ یعنی فسادی بھی خود اور مسیحا بھی خود بن کر دونوں ہاتھوں سے ملک کا خون چوس کر وہاں سے نکلتے ہیں۔ آپ اتنے بھی خیر خواہ نہیں ہیں کہ اپنے وسائل اپنے لوگوں پر لگانے کی بجائے دوسروں کی سیکیورٹی پہ لگا دیں۔ داعش اور امریکہ اس بات کی منہ بولتی تصویر ہے۔
لمبی چوڑی کہانیاں سنانے سے شاید آپ کی نوکری تو پوری ہو رہی ہو، دیہاڑی بھی لگ رہی ہو لیکن ہر کوئی آپ اور آپ کے ملک جتنا بے ضمیر نہیں ہوتا۔
 

Fawad -

محفلین
پوری دنیا جانتی ہے کہ جس ملک سے آپ کے مفاد جڑے ہوں پہلے آپ وہاں فساد پھیلاتے ہیں اور پھر پوری دنیا میں انسانی حقوق کا واویلا مچاتے ہوئے اس ملک کو بچانے کی آڑ میں وہاں داخل ہو کر اپنے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ یعنی فسادی بھی خود اور مسیحا بھی خود بن کر دونوں ہاتھوں سے ملک کا خون چوس کر وہاں سے نکلتے ہیں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک فوج کشی کو قابل عمل حمکت عملی يا اپنی خارجہ پاليسی کو آگے بڑھانے کے ليے ذريعہ نہيں بنا سکتا۔ ہمارے ليے يہ قابل عمل نہيں ہے کہ دنيا ميں جہاں کہيں بھی ہمارے مفادات کو خطرات لاحق ہوں وہاں پر اپنے فوجی بھيج ديں۔ جنگ ہميشہ آخری حربہ ہوتا ہے جس سے بچنے کے ليے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کيونکہ اس کی ہميشہ بڑی بھاری قيمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے جس ميں ہمارے اپنے فوجيوں کی قربانی بھی شامل ہے۔

يہ سوچ يا تاثر درست نہيں ہے کہ امريکہ ہميشہ جنگيں شروع کرنے کے ليے بے تاب رہتا ہے۔ يہاں تک کہ ستمبر11 2001 کے حادثے کے بعد بھی امريکہ نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو امريکی حکومت کے حوالے کر دے تا کہ اسے انصاف کے کٹہرے ميں لايا جا سکے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دو ماہ ميں 5 وفود بيجھے گئے۔ ليکن تمام تر سفارتی کوششوں کے باوجود طالبان حکومت نے يہ واضح کر ديا کہ وہ دہشت گردوں کی حمايت سے پيچھے نہيں ہٹيں گے۔

گزشتہ ايک دہائ کے دوران بے گناہ شہريوں کی ہلاکتيں يقينی طور پر ايک تلخ حقيقت ہے۔ تاہم اس ضمن ميں ذمہ دار دہشت گرد تنظيميں اور ان کی پرتشدد انتہا پسندی ہے، نا کہ امريکہ سميت عالمی برادری جو کہ دنيا بھر ميں عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ کرنے کے ليے کاوشيں کر رہے ہيں۔​

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach

 

Fawad -

محفلین
آپ اتنے بھی خیر خواہ نہیں ہیں کہ اپنے وسائل اپنے لوگوں پر لگانے کی بجائے دوسروں کی سیکیورٹی پہ لگا دیں۔ داعش اور امریکہ اس بات کی منہ بولتی تصویر ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ درست ہے کہ افغانستان، عراق اور دیگر ممالک ميں خود کش حملوں کے اکثر شکار امريکی نہيں بلکہ مقامی شہری ہيں۔ تاہم، اس حقيقت کے باوجود اسی خطے سے فعال دہشت گردوں نے امريکی شہريوں کے خلاف سب سے پيچيدہ، خونی اور تباہ کن حملہ کاميابی کے ساتھ کيا اور اس کی تمام تر منصوبہ بندی اور متعلقہ تياری بھی يہيں سے کی گئ تھی۔ اس سے بھی پہلے کينيا اور تنزانيہ ميں امريکی سفارت خانوں پر دہشت گرد حملے اور ان کے نتيجے ميں سينکڑوں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعے کی تمام تر منصوبہ بندی کرنے والے بھی افغانستان ميں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو استعمال کر رہے تھے۔

ميں يہ واضح کر دوں کہ نو گيارہ کے واقعے کے بعد امريکہ، نيٹو اتحادی اور پاکستان سميت علاقائ اسٹريجک اتحاديوں نے جب دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کا فيصلہ کيا تھا تو مقصد ملا عمر، بن لادن سميت کسی ايک فرد کو گرفتار يا ہلاک کرنا نہيں تھا۔ يقينی طور پر آپ يہ توقع نہيں کر سکتے کہ ان تمام ممالک کی افواج صرف ايک فرد کو گرفتار کرنے کے ليے اپنے فوجی وسائل اکٹھے کر ليں گی۔

افغانستان ميں ہماری مشترکہ کاروائ کا مقصد ہميشہ يہی رہا ہے کہ دہشت گردی کے ان محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کيا جائے جو اس حد تک فعال ہو چکے تھے کہ دہشت گردی کی اس نوعيت کے عالمی کاروائیاں بھی کاميابی سے کی جانے لگيں جس کی مثال ہم نے نو گيارہ کو ديکھی۔

يہ منطق کہ چونکہ افغانستان اور عراق ميں خود کش حملہ آور صرف مقامی لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہيں چنانچہ ہميں اس کی کوئ پرواہ نہيں کرنی چاہيے نا صرف يہ کہ ايک ناپختہ اور غير دانش مندانہ سوچ ہے بلکہ ان مقامی شہريوں کی بے مثال قربانيوں کو بھی نظرانداز کرنے کے مترداف ہے جو اپنی حفاظت اور بچاؤ کے ليے عالمی برادری کی جانب ديکھ رہے ہيں۔

اسی طرح اعداد شمار کی روشنی ميں بھی يہ دليل غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ دہشت گردی کا عفريت اور اس کے اثرات محض مخصوص مقام يہ سرحدی حدود کے اندر ہی رہتے ہيں۔

مثال کے طور پر اگر آپ داعش کی دہشت گرد کاروائيوں پر نگاہ ڈالیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی خونی کاروائياں محض کسی ايک ملک يا خطے تک محدود نہيں ہيں۔ اکيس سے زائد ممالک ميں نوے سے زائد حملوں کے دوران داعش کی کاروائيوں ميں چودہ سو سے زائد بے گناہ شہری ہلاک ہو چکے ہيں۔

ISIS goes global: Mapping ISIS attacks around the world - CNN.com

امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک نا تو دہشت گردی کے معاملے سے لاتعلق رہ سکتا ہے اور نہ ہی اس ضمن ميں لاپروائ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ القائدہ، ٹی ٹی پی، داعش اور ديگر دہشت گرد گروہ خود اپنے الفاظ کے مطابق ايک ايسی فکری سوچ پر مبنی جنگ کا آغاز کر چکے ہيں جو بدقسمتی سے نا تو کسی سرحد کو جانتی ہے اور نا ہی کسی اختلاف کرنے والے عنصر کو محفوظ راستہ دينے پر يقين رکھتی ہے۔

اس بات کی ايک منطقی، قابل قبول اور عقل پر مبنی توجيہہ موجود ہے کہ عالمی برادری نے کيونکر مشترکہ طور پر افغانستان ميں ان قوتوں کے خلاف فوجی کاروائ کا آغاز کيا جو نا تو سرحدوں کی حرمت کو مانتے ہيں، نا ہی متنوع ثقافتی اقدار کا پاس رکھتے ہيں اور ديگر مذہب کے ضمن ميں عدم رواداری کے ساتھ عمومی طورپر ہر اس عنصر کے خلاف نفرت کے جذبات رکھتے ہيں جو ان کی وحشيانہ طرز زندگی اور مخصوص مذہبی سوچ سے ميل نا کھاتا ہو اور اس ضمن ميں وہ دنيا بھر ميں مسلمانوں کی اکثريت کو بھی اسی پيرائے ميں ديکھتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

USUrduDigitalOutreach
 
Top