فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
يہ درست ہے کہ افغانستان، عراق اور دیگر ممالک ميں خود کش حملوں کے اکثر شکار امريکی نہيں بلکہ مقامی شہری ہيں۔ تاہم، اس حقيقت کے باوجود اسی خطے سے فعال دہشت گردوں نے امريکی شہريوں کے خلاف سب سے پيچيدہ، خونی اور تباہ کن حملہ کاميابی کے ساتھ کيا اور اس کی تمام تر منصوبہ بندی اور متعلقہ تياری بھی يہيں سے کی گئ تھی۔ اس سے بھی پہلے کينيا اور تنزانيہ ميں امريکی سفارت خانوں پر دہشت گرد حملے اور ان کے نتيجے ميں سينکڑوں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعے کی تمام تر منصوبہ بندی کرنے والے بھی افغانستان ميں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو استعمال کر رہے تھے۔
ميں يہ واضح کر دوں کہ نو گيارہ کے واقعے کے بعد امريکہ، نيٹو اتحادی اور پاکستان سميت علاقائ اسٹريجک اتحاديوں نے جب دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کا فيصلہ کيا تھا تو مقصد ملا عمر، بن لادن سميت کسی ايک فرد کو گرفتار يا ہلاک کرنا نہيں تھا۔ يقينی طور پر آپ يہ توقع نہيں کر سکتے کہ ان تمام ممالک کی افواج صرف ايک فرد کو گرفتار کرنے کے ليے اپنے فوجی وسائل اکٹھے کر ليں گی۔
افغانستان ميں ہماری مشترکہ کاروائ کا مقصد ہميشہ يہی رہا ہے کہ دہشت گردی کے ان محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کيا جائے جو اس حد تک فعال ہو چکے تھے کہ دہشت گردی کی اس نوعيت کے عالمی کاروائیاں بھی کاميابی سے کی جانے لگيں جس کی مثال ہم نے نو گيارہ کو ديکھی۔
يہ منطق کہ چونکہ افغانستان اور عراق ميں خود کش حملہ آور صرف مقامی لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہيں چنانچہ ہميں اس کی کوئ پرواہ نہيں کرنی چاہيے نا صرف يہ کہ ايک ناپختہ اور غير دانش مندانہ سوچ ہے بلکہ ان مقامی شہريوں کی بے مثال قربانيوں کو بھی نظرانداز کرنے کے مترداف ہے جو اپنی حفاظت اور بچاؤ کے ليے عالمی برادری کی جانب ديکھ رہے ہيں۔
اسی طرح اعداد شمار کی روشنی ميں بھی يہ دليل غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ دہشت گردی کا عفريت اور اس کے اثرات محض مخصوص مقام يہ سرحدی حدود کے اندر ہی رہتے ہيں۔
مثال کے طور پر اگر آپ داعش کی دہشت گرد کاروائيوں پر نگاہ ڈالیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی خونی کاروائياں محض کسی ايک ملک يا خطے تک محدود نہيں ہيں۔ اکيس سے زائد ممالک ميں نوے سے زائد حملوں کے دوران داعش کی کاروائيوں ميں چودہ سو سے زائد بے گناہ شہری ہلاک ہو چکے ہيں۔
ISIS goes global: Mapping ISIS attacks around the world - CNN.com
امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک نا تو دہشت گردی کے معاملے سے لاتعلق رہ سکتا ہے اور نہ ہی اس ضمن ميں لاپروائ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ القائدہ، ٹی ٹی پی، داعش اور ديگر دہشت گرد گروہ خود اپنے الفاظ کے مطابق ايک ايسی فکری سوچ پر مبنی جنگ کا آغاز کر چکے ہيں جو بدقسمتی سے نا تو کسی سرحد کو جانتی ہے اور نا ہی کسی اختلاف کرنے والے عنصر کو محفوظ راستہ دينے پر يقين رکھتی ہے۔
اس بات کی ايک منطقی، قابل قبول اور عقل پر مبنی توجيہہ موجود ہے کہ عالمی برادری نے کيونکر مشترکہ طور پر افغانستان ميں ان قوتوں کے خلاف فوجی کاروائ کا آغاز کيا جو نا تو سرحدوں کی حرمت کو مانتے ہيں، نا ہی متنوع ثقافتی اقدار کا پاس رکھتے ہيں اور ديگر مذہب کے ضمن ميں عدم رواداری کے ساتھ عمومی طورپر ہر اس عنصر کے خلاف نفرت کے جذبات رکھتے ہيں جو ان کی وحشيانہ طرز زندگی اور مخصوص مذہبی سوچ سے ميل نا کھاتا ہو اور اس ضمن ميں وہ دنيا بھر ميں مسلمانوں کی اکثريت کو بھی اسی پيرائے ميں ديکھتے ہيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
USUrduDigitalOutreach