یہ کھیل تو چلیں خیر صحت مندانہ سرگرمی ہے ہی۔۔۔مگر آپ لوگوں نے جو کھیل شروع کر رکھا ہے دنیا میں ۔۔اس پر بھی روشنی ڈالیں نا۔۔؟ پہلے اسامہ اسامہ پھر طالبان طالبان اب داعش داعش۔۔۔۔پھر کچھ اور۔۔۔چین سے رہو اور رہنے دو دنیا کو۔۔۔۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
آپ کی رائے کو قابل فہم يا منطقی دليل نہيں قرار ديا جا سکتا۔ يہ تو "ميں نا مانوں" والی صورت حال لگتی ہے۔
ميں واضح کر دوں کہ يہ امريکی حکومت نہيں بلکہ انتہا پسند دہشت گرد ہيں جنھيں اپنی مخصوص سوچ اور ايجنڈے کے ليے نت نئے نعروں، ناموں اور تنظيموں کی تشہير کی ضرورت پڑتی ہے۔
جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو ہمارا موقف ہميشہ يہی رہا ہے کہ عالمی دہشت گردی ايک مشترکہ خطرہ اور تمام انسانيت کے خلاف جرم ہے اور اس کے سدباب اور دنيا کے عام شہريوں کے ليے تمام فريقين کو مل کر کوششيں کرنا ہوں گی۔
اگر آپ امريکی حکومت کی جانب سے جاری کردہ عالمی دہشت گرد تنظيموں کی لسٹ پر ايک نظر ڈاليں تو آپ پر واضح ہو گا کہ ہم نے سياسی مقاصد، مذہبی سوچ اور نظريات سے قطع نظر ان افراد اور گروہوں کو اس لسٹ ميں شامل کيا ہے جو دہشت گردی کے واقعات کے ذمہ دار ہيں۔
Foreign Terrorist Organizations
آپ اپنی رائے کا خود تنقيدی جائزہ ليں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں اسلامی ممالک ميں قريب تمام حکومتيں اور دنيا بھر ميں سينکڑوں کی تعداد ميں عالمی قائدين جو داعش اور ديگر دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے عمومی طور پر دنيا بھر کے ليے اور خصوصی طور پر مسلم دنيا کو لاحق دہشت گردی کے حوالے سے امريکی خدشات اور تحفظات کو سمجھتے بھی ہيں اور اس کی تائيد بھی کرتے ہيں، محض ہماری کٹھ پتلياں ہيں؟
کيا آپ دنيا بھر ميں موجود حکومتوں اور مسلم قائدين کے ليے اتنا کم احترام رکھتے ہيں؟
کيا داعش کی جانب سے عراق اور شام ميں جاری حقيقی تباہ کاريوں اور انسانی جانوں کے ضياع کو محض "امريکی ہوا" قرار دے کر نظرانداز کر دينا عقلمندی ہے؟
امريکی حکومت کو اس بات کی کوئ خواہش نہيں ہے کہ وہ خطے ميں جاری تنازعات ميں مداخلت کرے يا شام اور عراق ميں بے گناہ شہريوں کو قتل کرے۔
منطق اور ناقابل ترديد حقائق کی روشنی ميں يہ دعوی بالکل غلط ہے کہ دہشت گردی اور داعش جيسی تنظيموں کا وجود محض امريکی اختراع ہے اور اس کا حقيقت سے کوئ تعلق ہی نہيں ہے۔
پوری دنيا ميں دہشت گردی سے ہلاک ہونے والے افراد کے کوائف پر ايک تفصيلی نظر ڈاليں تو يہ حقيقت واضح ہو جاتی ہے کہ کسی بھی سياسی يا مذہبی وابستگی سے قطع نظر دہشت گردی تمام انسانيت کے لیے مشترکہ ايشو اور خطرہ ہے۔ يہ محض اتفاق نہيں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب سميت دنيا کے بےشمار مسلم ممالک کی حکومتوں نے داعش، القائدہ اور اس سے منسلک تنظيموں کے خلاف امريکہ اور اس کے اتحاديوں کی کاوشوں کو نہ صرف تسليم کيا ہے بلکہ اس ضمن ميں ہر ممکن مدد اور حمايت بھی فراہم کی ہے۔
يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ داعش کے قائدين اور حمايتيوں نے متعدد بار کئ حملوں کے حوالے سے نہ صرف يہ کہ اپنی ذمہ داری قبول کی ہے بلکہ ہر اس شخص کے خلاف دہشت گردی کی مہم جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کيا جو ان کے نظريے اور طرز زندگی سے انکاری ہے۔ اس ميں انھوں نے مسلم اور غير مسلم کی کوئ تفريق نہيں رکھی۔
ان ناقابل ترديد حقائق کی موجودگی ميں آپ کی پيش کردہ دليل ميں منطق کا کوئ بھی پہلو ہے جسے تسليم کيا جا سکے؟ کيا يہ بہتر نہيں ہے کہ دہشت گردی کی ناقابل ترديد حقيقت کو تسليم کيا جائے بجائے اس کے کہ ايسی متضاد اور بے بنياد کہانياں تخليق کی جائيں جو منطق اور دليل کی کسوٹی پر کسی بھی بنيادی اصول اور پيمانے پر پورا نہيں اترتيں۔ اوکم ريزر کے اصول کے مطابق سب سے آسان اور واضح تشريح اکثر پيچيدہ يا مبہم وضاحتوں سے بہتر ہوتی ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ