داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے - باقی صدّیقی

ابوشامل

محفلین
مغل صاحب بہت خوب۔ پیش کرنے کا شکریہ۔
ساتھ میں اگر یہ بھی لکھ دیتے کہ یہ تعارف اردو وکیپیڈیا پر ہے تو شاید چند لوگوں کو یہ اندازہ ہو جاتا کہ وہاں ایسا مواد بھی موجود ہے۔
والسلام
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ مگر دوست میں نے یہ معلومات شاید کسی وقت وکی پیڈیا سے ہی لی ہو ۔
مگر مجھے یاد نہ رہا کہ کوئی دو تین سال قبل ایک دوسرے فورم پر میں نے یہ مراسلہ بھیجا
تھا۔۔ کل یونہی یاد آگیا تو وہاں سے یہاں منتقل کردیا۔
مجھے علم نہیں یا یوں‌کہہ لیں کہ مجھے یاد نہیں رہا ۔۔
سومیری معذرت قبول کیجئے ۔
والسلام
 

ابوشامل

محفلین
بہت شکریہ مگر دوست میں نے یہ معلومات شاید کسی وقت وکی پیڈیا سے ہی لی ہو ۔
مگر مجھے یاد نہ رہا کہ کوئی دو تین سال قبل ایک دوسرے فورم پر میں نے یہ مراسلہ بھیجا
تھا۔۔ کل یونہی یاد آگیا تو وہاں سے یہاں منتقل کردیا۔
مجھے علم نہیں یا یوں‌کہہ لیں کہ مجھے یاد نہیں رہا ۔۔
سومیری معذرت قبول کیجئے ۔
والسلام
مجھ ناچیز سے معذرت مت کیا کریں، مجھے بہت شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
 

مغزل

محفلین
اور معذرت نہ کروں تو اپنی شرمندگی کہاں لے جاؤں یہ بھی تو کہیئے پیارے صاحب، ؟؟
بہر کیف ۔۔ سدا خوش رہیں جناب !
 
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
وفا کرینگے ،نباہینگے، بات مانینگے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بیدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
نہ پوچھ تاچھ تھی کسی کی وہاں نہ آو بھگت
تمہاری بزم میں کل ایہتمام کس کا تھا

انھیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور
جو لطف آپ ہی کرتے تو نام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو، وہ تذکرا نا تمام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ کہیں تو کس سے کہیں
خیال میرے دل کو صبح وشام کس کا تھا
اگرچہ دیکھنے والے تیرے ہزاروں تھے
تباہ حال بہت زیرے بام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا ‘داغ’ بےوفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا
 
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دِیے جلانے لگے

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

خُود فریبی سی خُود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سُہانے لگے

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گُماں
ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے

اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے

رُخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اُٹھ کے جانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنی قِسمت سے ہے مفر کس کو
تِیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے

ہم تک آئے نہ موسمِ گُل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے

شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے شرار آنے لگے

باقی صدیقی
 
آخری تدوین:
جی یہ غزل پہلے بھی محفل پر موجود ہے ۔
محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی پسندیدہ کلام میں پوسٹ کرنے سے پہلے چیک کرلیا کریں کہ وہاں پہلے سے موجود تو نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اردو محفل پسندیدہ کلام کا ذخیرہ اب اتنا ہوچکا ہے کہ مشہور غزلیں سو فیصد یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ محفل کے ذخیرے میں موجود ہی ہوں گی۔
 
محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی پسندیدہ کلام میں پوسٹ کرنے سے پہلے چیک کرلیا کریں کہ وہاں پہلے سے موجود تو نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اردو محفل پسندیدہ کلام کا ذخیرہ اب اتنا ہوچکا ہے کہ مشہور غزلیں سو فیصد یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ محفل کے ذخیرے میں موجود ہی ہوں گی۔
محترم ہم نے محفل کے سرچ انجن پر سرچ کر کے دیکھا تھا مگر ہمیں کوئی جواب نہیں ملا ۔بس اس لیے پوسٹ کردی ۔
ورنہ ہم ہمیشہ احتیاط کے طور پر پوسٹ سے پہلے محفل پر تصدیق کرتے ہیں کہ آیا ہمارا مطلوبہ مواد محفل پر موجود ہے یا نہیں ۔
 

فلسفی

محفلین
محترم ہم نے محفل کے سرچ انجن پر سرچ کر کے دیکھا تھا مگر ہمیں کوئی جواب نہیں ملا ۔بس اس لیے پوسٹ کردی ۔
ورنہ ہم ہمیشہ احتیاط کے طور پر پوسٹ سے پہلے محفل پر تصدیق کرتے ہیں کہ آیا ہمارا مطلوبہ مواد محفل پر موجود ہے یا نہیں ۔
عدنان بھائی اصل میں سید عمران صاحب کے چھکوں اور چوکوں کی وجہ سے گڑبڑا گئے ورنہ ایسا کرتے نہیں۔
 

سید عمران

محفلین
محترم ہم نے محفل کے سرچ انجن پر سرچ کر کے دیکھا تھا مگر ہمیں کوئی جواب نہیں ملا ۔بس اس لیے پوسٹ کردی ۔
ورنہ ہم ہمیشہ احتیاط کے طور پر پوسٹ سے پہلے محفل پر تصدیق کرتے ہیں کہ آیا ہمارا مطلوبہ مواد محفل پر موجود ہے یا نہیں ۔
احتیاط یہ ہے تو بداحتیاطی میں لُٹیا ہی ڈبو دیں گے!!!
 
Top