دانش گاہوں میں محبت نہیں حیوانیت جاگ رہی ہے۔

دانش گاہوں میں محبت نہیں حیوانیت جاگ رہی ہے۔
محمد علم اللہ اصلاحی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایک طالب علم کی طرف سے کلاس روم میں اپنے ساتھی پر کیا گیا حملہ ہمارے سامنے کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ کیا اکیسویں صدی میں محبت کا جذبہ اس قدر خطرناک ہو گیا ہے؟ کیا یہ سماج میں بڑھتے ہوئے تشدد کی طرف اشارہ ہے؟ یا پھر صدیوں سے ہندوستانی سماج کی سوچ میں شامل آمرانہ عقائد اب بھی اتنے مضبوط ہیں کہ مطالعے اور لبرل خیالات کا گڑھ سمجھی جانے والی دانش گاہ کے طلباء بھی اس سے آزاد نہیں ہو پائے ہیں؟ ہندوستان کی تاریخ میں محبت اور محبت کی تاریخ میں ہندوستان ایک دوسرے سے گھلے ملے ہیں ، مگر کیا اب یہاں محبت کی تعریف اور اس کے عملی تصورمیں کوئی تبدیلی آ گئی ہے؟ ہمارے معاشرے کی آمرانہ ذہنیت کہیں محبت کرنے والوں کو ان کے محبت کی وجہ سے متشدد تو نہیں بنا رہی ہے؟ آج ایسا کیا ہو جاتا ہے کہ کوئی جس سے محبت کرنے کا دعوی کرتا ہے اسے کلہاڑی، پستول اور چاقو جیسے ہتھیاروں سے بے دردی سے مار ڈالنا چاہتا ہے۔؟ سوال ہے کہ محبت جینے کا سہارا بنتی ہے یا زندگی کے اختتام کا سبب؟ جو محبت جینا نہ سکھا سکے کیا وہ محبت کی تعریف میں کہیں سما سکتی ہے؟ یہ اور اس طرح کے بہتیرے سوالات جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں گزشتہ دنوں ہوئے واقعہ کے بعدمسلسل گردش میں ہیں، جس میں ایک نوجوان نے دن دہاڑے نہ صرف اپنی زندگی کے دیئے کو گل کر دیا بلکہ اس لڑکی کو بھی زندگی اور موت کے درمیان جھولنے پر مجبور کر دیا، جس سے وہ محبت کرتا تھا۔
جس ملک میں محبت کا مطلب قربانی، عبادت اور عقیدہ رہا ہو وہاں کے نوجوانوں کو ایسی پر تشدد محبت کرتے دیکھ کر تشویش ہوتی ہے۔ محبت سے انکار کر دینے پر کوئی کسی کا قتل کرنے پر کیوں آمادہ ہو جاتا ہے؟ جسے وہ جان سے زیادہ چاہنے کا دم بھرتا ہو اس کا دم کیوں گھونٹ دینا چاہتا ہے؟ کیا معاشرے میں محبت کا جذبہ دلوں سے ہوکر گزرنے کی بجائے اب کسی کو صرف جسمانی طور پر حاصل کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے ؟ محبت صرف جسمانی ہوس کی بھینٹ تو نہیں چڑھ رہی ہے؟ کیا محبت کرنے والا اتنا مطلب پرست ہو سکتا ہے؟ اتنا خود غرض کہ جس سے محبت کرتا ہو اسے ہی مار دے یا اسے زمانے کی ٹھوکریں کھانے کو چھوڑ دے۔ اگر تشدد کسی رشتے کے بگڑنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے تو اس رشتے میں سچائی اور پاکیزگی کے ساتھ ساتھ عزت کی بھی سخت کمی ہوتی ہے۔ محبت درد نہیں، خوشی دیتا ہے۔ اگر محبت ذرا سا بھی آپ کی زندگی کو چھو گئی ہو تو یہ آپ کو خوشی سے لبریز کر دیتی ہے۔ محبت، خلوت ہو یا جلوت، کبھی بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی، محبت کا جذبہ و احساس ہمیشہ ایک اندرونی طاقت بن کر آپ کے ساتھ رہتا ہے۔
جے این یو میں ہوا واقعہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یک طرفہ محبت میں لڑکیوں کے قتل اور ان پر تیزاب پھینکنے کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہے۔ جے این یو کے لڑکے کے بارے میں بھی جو خبریں آ رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ لڑکا اپنی ساتھی سے محبت کا دعویدار ہے۔ لیکن یہ ایسی محبت تو نہیں لگتی ہوتی جو قربانی سکھاتے ہوئے روح کو تقویت دیتی ہے۔ جو اونچائی پر لے جاتی ہے کبھی نیچے نہیں گراتی، محبت تو نرم خو بناتی ہے تشدد کرنا کبھی نہیں سکھاتی۔ اگر واقعی طالب علم کو اس طالبہ سے محبت ہوتی تو یہ خون خرابہ کبھی نہیں ہوتا۔ یہ یک طرفہ محبت کا معاملہ تھا، اور جسم حاصل کرنے کا جنون۔محبت تو ہمیشہ دو لوگوں کے درمیان ہوتی ہے۔ اس میں دو لوگوں کے جذبات کا ایک دوسرے سے تبادلہ ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ آج کی نسل محبت کی اس اصل روح کو نہیں سمجھ پا رہی۔ محب و محبوب تو ایسے ساتھی ہوتے ہیں۔ جو ہم سفر اور ہم نوا بن کر ایک دوسرے کے جذبات کا احساس کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو جینا سکھاتے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں کئی بار ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ لڑکے محبت کو اور گرل فرینڈ کو ایک مصنوعاتی شئے سمجھنے لگے ہیں۔ وہ اپنی گرل فرینڈ پر شوہر کی طرح حق جتانے لگتے ہیں۔جہاں محبت دوطرفہ ہوتی ہے، وہاں بھی اور جہاں یک طرفہ ہوتی ہے وہاں بھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل محبت میں تشدد کی وجہ مردوں کا غرور ہے اور یہ تربیت اور پرورش پر منحصر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت اب روح سے ہٹ کر جسم سے وابستہ ہو چکی ہے۔ جب جسم اپنے حیوانی جذبوں میں الجھ جائیں تو محبت اپنا روپ بدل کر ہوس میں ڈھل جاتی ہے۔ اور ہوس کبھی بھی سچی محبت نہیں ہو سکتی۔
وقت کے ساتھ ساتھ معاشرہ بدلتاہے۔ جدیدیت کوئی بری بات نہیں ہے۔ یہ ایک خیال ہے، جو آزاد فضا میں سانس لینے کا تصور پیش کرتا ہے۔ لیکن جدیدیت صرف اوڑھ لینے کی چیز نہیں ہے۔ جاگیردارانہ سوچ برقرار رکھتے ہوئے سماج جدید نہیں ہو سکتا ، کیونکہ جاگیردارانہ سوچ کی کھڑکیاں بند ہوتی ہیں، یہاں مرد کی طاقت کے سامنے عورت محض اک کھلونا ہوتی ہے۔ یہ ایک بڑی ستم ظریفی ہے کہ آج بہت سے لڑکے ساتھی اور دوست نہیں بلکہ جاگیردار کی طرح پیش آتے ہیں۔ وہ محبت کی شروعات تو اچھے طریقے سے کرتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ ایک دوسرے پر اپنی پسند مسلط کرنے لگتے ہیں۔ محبت کے تعلقات میں لڑکا اتنا حاوی ہو جاتا ہے کہ اس کی کوئی بات ان سنی ہونے پر وہ تشدد پر اتر آتا ہے۔
اسی سوچ کی وجہ سے تشدد بڑھ رہا ہے۔ " ہوس پر مبنی اظہار کو " مردانگی " کا نام دیا جانے لگا ہے۔عورت کے خلاف محبت کے نام پر بڑھتی ہوئی تشدد کی دوسری بڑی وجہ ہے ٹیکنالوجی کا استعمال۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے لڑکیوں کے ایم ایم ایس بنا لیے جاتے ہیں، پھر ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے بھی معاشرے میں تشددکے رجحان کو جنم دیا ہے۔ آج کیمرے والے موبائل فون بچوں کے پاس بھی ہوتے ہیں۔انٹرنیٹ، موبائل فون پر لوگ گندی سائٹس دیکھتے ہیں۔اس سے جذبہ محبت پر منفی اثر پڑتا ہے اور شخصیت تشدد پسند ہوتی جاتی ہے۔ یہی تشدد معاشرے میں مختلف شکلوں میں دکھائی دیتا ہے، خاص طور پر عورتوں کے خلاف۔یہ درست ہے کہ پہلے کے مقابلے میں ہم زیادہ آزاد ہوئے ہیں۔ خواتین اور مردوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا ہے۔ عورت و مرد کا فرق مٹ رہا ہے۔ لیکن اس آزادی کو ہم سنبھال نہیں پا رہے ہیں۔ آزادی اک ناسور بن گئی ہے۔رشتہ ایک شیشے کی طرح ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی ضرب سے یہ کرچی ہو جاتا ہے۔ اس لئے ہمیں جو آزادی ملی ہے، بات چیت کرنے کی، گھومنے پھرنے کی، اسے اچھی طرح محفوظ رکھنا ہوگا۔ ہمیں اس کو تجارت نہیں بنانا چاہیئے۔ محبت کا مطلب صرف جسمانی تعلقات نہیں ہوتا ہے۔ لیکن آج یہی جسمانی تعلق محبت کا مرکزی نقطہ بن گیا ہے۔ یہ معاشرے کے لئے خطرناک ہے۔آج کی محبت جسم کی کشش بن گئی ہے۔ پہلے بھی لوگ محبت کرتے تھے، لیکن اگر کسی وجہ سے دو لوگوں کی شادی نہیں ہو پائی تو وہ اچھی سی یاد لے کر چلے جاتے تھے۔ اس کے بعد بھی بات چیت ہوتی تھی، تشدد کے جذبات پیدا نہیں ہوتے تھے۔
محبت میں عاشق اور محبوب کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ وہ اس کے قابل ہے یا نہیں۔ لیکن آج محبت کو فاسٹ فوڈ بنا دیا گیا ہے۔ ایسے میں ان تعلقات کا نتیجہ بھی ویسا ہی ہوگا۔ جب یک طرفہ محبت کے بدلے میں محبت نہیں ملتی۔اپنے روح، خواہش اور انا کے مطابق سب کچھ نہیں ہوتا تو بدلے کی آگ بھڑکنے لگتی ہے۔ یہ خطرناک نفسیاتی مرض کی طرح ہے۔ محبت کو فاسٹ ٹریک پر چلانے کا نتیجہ ہے یہ تشدد۔یہ فاسٹ ٹریک پر چلنا آج کے سماج نے سکھایا ہے۔ یہاں سب کچھ جلدی چاہئے۔ کامیابی، دولت، شہرت اور محبت بھی۔ محبت میں تعلیم یافتہ طبقہ بھی. ہر چیز کی طرح اس کو بھی صرف ایک کامیابی سمجھنے لگ گیا ہے۔یعنی محبت بھی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ ہو گیا ہے۔ ہمارا سماج کامیابیوں سے اتنا پیار کرتا ہے، کامیابی کو اتنی تعریف ملتی ہے اور ناکامی کو اتنی حقارت سے دیکھا جاتا ہے، کہ محبت میں ناکامی کو بھی کچھ لوگ آسانی سے ہضم نہیں کر پاتے۔ یہی تصور ہمارے اندر محبت کے غلط پیغام کے طور پر داخل ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس نفرت کو اپنے اندر سے نکال پھینکنا ہوگا۔ تبھی اس محبت کی جیت یقینی کر پائیں گے جو ہمارے تنگ مفاد سے کہیں زیادہ بلند اور امر ہے۔
اگر محبت کو صرف محبت ہی رہنے دیں تو کوئی تشدد پسند نہیں ہوگا۔لیکن ایسا ہوتا کہاں ہے اس انقلابی صدی میں تو یہ اور بھی نا ممکن سا ہو کر رہ گیا ہے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اسی انقلابی صدی کے بعد سماج میں خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات بڑھنے لگے اور محبت کاتصور مسخ ہوتا گیا ہے اسی کے بعد خاندان بھی آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگے۔ مشترکہ خاندان کی جگہ الگ الگ خاندان کا چلن بڑھنے لگا۔ہمیں لڑکوں میں خواتین کے تئیں بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحان کو روکنے کے لئے بچوں کی پرورش اور اسکول کی تعلیم میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ جو بچوں کو اخلاقی خصوصیات نہیں بتاتی اور ان کو صرف پیسہ کمانے والا بنا رہی ہے۔ہر ماں کو بچوں کو پہلے انسان بنانا چاہئے۔ خاندان، سماج اور اساتذہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ بچوں کو پہلے اچھا انسان بنائیں۔
عورتوں کیساتھ تشدد کے واقعات کی ایک اور وجہ ہے فلم اور ٹیلی ویڑن کا گھر گھر میں پہنچنا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں عورتوں کو سامان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اشتہارات میں فحاشی بڑھ رہی ہے۔ اس سے بچوں کے نرم دل پر منفی اثر پڑتا ہے۔ وہ بھی خواتین کو اسی نظریہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔اس پر کنٹرول کی سخت ضرورت ہے۔ حکومت کو اس پر لگام لگانا چاہئے۔فحش سائٹس پر روک لگانی چاہئے۔ لیکن کنٹرول ہاتھ سے پھسلتا جا رہا ہے۔ سماج اور حکومت دونوں کو مل کر اس سمت میں قدم اٹھانا ہوگا، نہیں تو حالات اس سے بھی سخت ترین ہو جائیں گے اور محبت کا عظیم تصور ہی گہن آلود نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہی تباہی کی دہلیز تک پہنچ جائے گا۔دہلی کایہ واقعہ مختلف نہیں ہے، لیکن ایسے محبت میں ناکام ہونے کے بعد لڑکی کو منانے کی بات ہمارے بالی وڈ کے ہیرو بھی کرتے آئے ہیں۔ آخر میں لڑکی کو ہیرو کی محبت کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ شاید ہم نے اپنے ارد گرد محبت کی تعریف جیت اور ہار سے کچھ زیادہ ہی کر لی ہے، اسی لئے اگر آپ کسی وقت اپنی محبت کو نہیں پاتے تو اسے اب ترک یا تپسیا نہیں بلکہ بے وقوفی اور شکست کی علامت سمجھ لیا جاتا ہے۔
آج مکتب سے لے کر کالج اور یونیورسٹیوں تک میں طلباءکو سب سے آگے رہنے کا متن پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن ترقی حاصل کرنے کی دوڑ میں ہم نے اپنی اگلی نسل کو اخلاقیات، اقدار اور درد مندی سے بہت دور کر دیا ہے۔ اگر اس سماجی نظام کا صحیح تجزیہ کیا جائے تو ہم پائیں گے کہ ہم ایک مایوسی بھرے معاشرے میں جینے پر مجبور ہیں۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہمارے اندر سب کچھ چھن جانے کا ڈر بیٹھ گیا ہے۔ ہم تعلیم کو انصرام اور جوڑ توڑ کے ریاضیاتی تصور سے ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم بچوں کے والدین کی جگہ خزانہ مینیجر بنتے جا رہے ہیں۔ بھاگ دوڑ میں ہمارا اپنے بچوں سے بات چیت کا رشتہ ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جس عمر میں بچے میں تبدیلی آتی ہے اور اسے ماں باپ کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت ماں باپ اس کے پاس نہیں ہوتے۔ ایسے میں وہ ایک اندھی اور مشکل غار سے گزرنے لگتے ہیں۔ ان کی زندگی کی کامیابیاں سکڑنے لگتی ہیں اور وہ ہر تنکے کو سہارا سمجھ کر اس کی جانب لپکنے لگتے ہیں۔ ناکام ہو جانے کا خوف انہیں اپنوں سے دور کرتا جاتا ہے۔ جب ان سے وہ تنکا بھی چھوٹنے لگتا ہے تب گھبراہٹ میں وہ کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں۔
خلیل جبران نے کہا تھا"جب محبت تمہیں آواز دے تو اس کی طرف دوڑ پڑو "لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے پتہ چلے کہ یہ محبت ہی ہے؟ مارکیٹ کے دلکش اشتہا آمیز اشتہارات کو دیکھتے اور برتتے ہوئے بڑی ہوئی نئی نسل کیا محبت کا صحیح مطلب سمجھ پائے گی؟ ایک چینل پر محبت میں دھوکہ کو ظاہر کرتا پروگرام” اموشنل اتیا چار“ آتا ہے۔ اس میں نوجوانوں اور لڑکیوں کی محبت کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف موج مستی، گھومنے پھرنے اور عیش پرستی کی خاطر ہی محبت کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو انہیں عشق کا ضم کبھی چھو کر بھی نہیں گزرا ہوتا سیکس اور دھوکا جیسی فلموں اور گانے، نغمے آج کی محبت کی اس سچائی کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں محبت کے نام پر ایک دوسرے کا جسم حاصل کرنے کے لئے ڈرامہ اورشوشہ بازی ہی پروان چڑھتی ہے۔کہیں نہ کہیں دولت بھی ایسی سوچ کو فروغ دے رہی ہے۔مارکیٹ کو یہ سب راس آتا ہے اس لیے اس کے خلاف آپ جب بھی کچھ بھی بولیں گے تو بازاری طاقتیں متحد ہو کر آپ کے خلاف ہلہ بول دیں گی۔ جہاں نوجوانوں کی ذہنی ترقی ایسی سوچ کے ساتھ ہو رہی ہو، وہاں اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے کو قربت کی تجویز ٹھکرا دے تو یہ اسے ایک عذاب لگنے لگتی ہے۔
جب کوئی لڑکی اپنی مرضی سے رشتہ بناتی یا توڑتی ہے تو اسے طعنہ اور موت کیوں ملتے ہیں،؟جبکہ لڑکا اگر اپنی مرضی سے رشتے بناتا اور توڑتا ہے تو اسے مردانگی کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔قصور لڑکا یا لڑکی ہونے میں نہیں، ان کے عمل اور سماجی تربیت میں ہے۔ لڑکوں کو بچپن سے اپنی بات منوانے کا حق دیا جاتا ہے۔ انہیں نہ سننے کی عادت نہیں ہوتی۔ عورت کو اپنی جاگیر سمجھنے والی ذہنیت بھی اس کی اپنی رائے رکھنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اگر لڑکیاں اپنی رائے رکھتی ہیں تو ان کو آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ذہنیت عام طور پر ہمارے معاشرے میں خواتین کے فیصلہ لینے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔لڑکیوں کا یک طرفہ محبت کے معاملے میں تشدد کا شکار ہونا عام بات ہے۔ اگر پولس کی مانیں تو دہلی میں پندرہ فیصد قتل وہ لوگ کرتے ہیں جو جذباتی طور پر نڈر اور بے قابو ہوتے ہیں۔آج کے نوجوانوں کو چاہیے کہ محبت کے ساتھ ساتھ ایثار اور قربانی کے جذبے کو بھی پروان چڑھائیں۔
 

نایاب

لائبریرین
معاشرتی سچائی پر اک اچھی تجزیاتی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں محترم اصلاحی بھائی
 
معاشرتی سچائی پر اک اچھی تجزیاتی تحریر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بہت دعائیں محترم اصلاحی بھائی
بہت اچھی تحریر ہے جناب۔
بہت شکریہ
آپ سبھی کے لئے دل سے دعائیں
ہمت افزائی اور پسند آوری کے لئے ۔
اگر اللہ نے چاہااور آپ تمام کا تعاون ایسے ہی رہا تو انشاء اللہ مزید بہتر لکھ سکوں گا دعا کی درخواست ہے۔
 

فلک شیر

محفلین
تحریر دردِ دل کی گواہ ہے........
رات آپ کے بلاگ پہ پڑھی تھی......... :)
اللہ تعالیٰ آپ کے علم وقلم و عمل میں برکت دے...........
 

نایاب

لائبریرین

حاتم راجپوت

لائبریرین
معاشرے کی ایک منفی اور بھیانک سوچ کا شاندار تجزیہ۔۔۔ بہت ہی عمدہ۔۔
تجزئیے کا انداز بہت اچھا ہے۔۔ ماشااللہ۔۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔۔ آمین۔
 
Top