دبئی: قرآن پاک ميں بیان کئے گئے درختوں پر مشتمل پارک کی تکمیل آخری مراحل میں

صرف علی

محفلین
دبئی: اگر آپ قرآن کریم میں بیان کئے گئے تمام درختوں اور پودوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے لئے دبئی کا رخ کریں جہاں مقامی انتظامیہ ایک ایسا وسیع پارک تعمیر کر رہی ہے جس میں قرآن کریم ميں بیان کئے گئے 54 میں سے 51 درختوں اور پودوں کو لگایا جائے گا۔

پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق دبئی کے پروجیکٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرجنرل محمد نور مشروم کا کہنا تھا کہ قرآن میں 54 درختوں اور پودوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں انار، زیتون، تربوز، کیلے، گندم ، پیاز ، املی، انگور، نیاز بو ،کددو اور دیگر شامل ہیں، 158 ایکٹر وسیع رقبے پر مشتمل پارک میں اب تک 31 درختوں اور پودوں کو لگایا جا چکا ہے جب کہ بقیہ 20 کو تیسرے مرحلے ميں لگایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن پاک میں بیان کئے گئے 3 پودے اس وقت دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ۔

محمد نور مشروم نے کہا کہ پارک میں ایک ایئرکنڈیشنڈ سرنگ بھی تعمیر کی جا رہی ہے جس میں قرآن پاک کے کرشمے اور دیگر بیان کئے گئے واقعات سے متعلق بھی آگاہی دی جائے گی جب کہ پارک کے درمیان میں ایک جھیل بھی بنائی جا رہی ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
اور سدرۃ المنتہٰی کو بھی پودا ہی بیان کیا گیا ہے، خزائن العرفان میں علامہ نعیم رقم طراز ہیں:
سدرۃ المنتہٰی ایک درخت ہے جس کی اصل (جڑ) چھٹے آسمان میں ہے اور اس کی شاخیں ساتویں آسمان میں پھیلی ہیں اور بلند ی میں وہ ساتویں آسمان سے بھی گزر گیا ملائکہ اور ارواحِ شہداء و اتقیاء اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اور سدرۃ المنتہٰی کو بھی پودا ہی بیان کیا گیا ہے، خزائن العرفان میں علامہ نعیم رقم طراز ہیں:
سدرۃ المنتہٰی ایک درخت ہے جس کی اصل (جڑ) چھٹے آسمان میں ہے اور اس کی شاخیں ساتویں آسمان میں پھیلی ہیں اور بلند ی میں وہ ساتویں آسمان سے بھی گزر گیا ملائکہ اور ارواحِ شہداء و اتقیاء اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں ۔
میرا خیال تھا کہ چھٹے آسمان تک یا تو فرشتے پہنچے ہیں یا پھر انبیاء۔ یہ علامہ تو چھپے رستم نکلے :)
 

S. H. Naqvi

محفلین
ایک اور جگہ سدرۃ المنتہٰی کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہے:
سدرہ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں، اور منتہیٰ کے معنی ہیں آخری سرا۔’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ کے لغوی معنی ہیں‘‘ وہ بیری کا درخت جو آخری یا انتہائی سرے پر واقع ہے ‘‘۔ علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں اس کی تشریح یہ کی ہے کہ: الیھا ینتہی علم کل عالم وما وراء حا لا یعلمہٗ الا اللہ۔ ’’ اس پر ہر عالم کا علم ختم ہو جاتا ہے ، آ گئے جو کچھ ہے اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔ قریب قریب یہی تشریح ابن جریر نے اپنی تفسیر میں، اور ابن اَثیر نے النِّہا یہ فی غریب الحدیث والاثر میں کی ہے ۔ ہمارے لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ اس عالم مأویٰ کی آخری سرحد پر وہ بیری کا درخت کیسا ہے اور اس کی حقیقی نوعیت و کیفیت کیا ہے ۔ یہ کائنات خداوندی کے وہ اسرار ہیں جن تک ہمارے فہم کی رسائی نہیں ہے ۔ بہر حال وہ کوئی ایسی ہی چیز ہے جس کے لیے انسانی زبان کے الفاظ میں ’’سدرہ‘‘ سے زیادہ موزوں لفظ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور کوئی نہ تھا۔
 
اور سدرۃ المنتہٰی کو بھی پودا ہی بیان کیا گیا ہے، خزائن العرفان میں علامہ نعیم رقم طراز ہیں:
سدرۃ المنتہٰی ایک درخت ہے جس کی اصل (جڑ) چھٹے آسمان میں ہے اور اس کی شاخیں ساتویں آسمان میں پھیلی ہیں اور بلند ی میں وہ ساتویں آسمان سے بھی گزر گیا ملائکہ اور ارواحِ شہداء و اتقیاء اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں ۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ اس طرح کا درخت نہیں جس طرح کے درخت اس خاکداں میں نظر آتے ہیں۔۔۔شائد عالمِ مثال کی بات کی گئی ہے۔۔۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
اور اگر یہی ہے دوسرا درخت، سدرہ کا تو پھر یہ انھیں ملا کیوں نہیں، بیری کا درخت ہی لگا دیتے۔ ظاہر ہے لا محدود بیری کا درخت تو نہیں ہو سکتا مگر دنیاوی بیری کو لگا دیتے۔:)
شجرۃ الزقوم بھی ممکن نہیں،
اور آخری رہ گیا، تیسرا اب وہ پتہ نہیں کونسا ہے:cool:
 

نایاب

لائبریرین
سدرہ یا بیری ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی کی قرآنی تحقیق کا ایک شاہکار
قرآنی نام
سِدر، سِدرة ۔
دیگر نام
CEDAR (انگریزی)۔ CEDRE (فرانسیسی)۔ CEDRUS (لا طینی)۔ CEDRO (اطالوی، ہسپانوی)۔ KEDROS CEDROS (یونانی)۔ EREZ (عبرانی)۔ ZEDER (جرمن)۔ شجرة الرب، سدر، الارز، شجرة اللہ، ارز البنان (عربی)۔ کاج، سرو آزاد (فارسی)۔
نباتاتی نام
Cedrus libani Loud.
Family: (Pinaceae)
PDF Download Link 5 Sidra Ya Berry pdf
قرآنی آیات بسلسلہ سدر
(1) سورة سباء : آیت 15-16 :
( لَقَدْ کَانَ لِسَبَ فِیْ مَسْکَنِھمْ آیَة جَنَّتَانِ عَن یَمِیْنٍ وَ شِمَالٍ کُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَ اشْکُرُوا لَھ بَلْدَة طَیِّبَة وَ رَبّ غَفُور ۔ فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَیْھمْ سَیْلَ الْعَرِمِ وَ بَدَّلْنَاھم بِجَنَّتَیْھمْ جَنَّتَیْنِ ذَوَاتَی أُکُلٍ خَمْطٍ وَ أَثْلٍ وَ شَیْ مِّن سِدْرٍ قَلِیْلٍ )
(تر جمہ ) سبا کے لیے ان کے مسکن ہی میں نشانی موجود تھی دو باغ دائیں اور بائیں ۔ کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اس کا ۔ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پر وردگار ہے بخشش فر مانے والا۔ مگر وہ منہ موڑ گئے ۔آخر ہم نے ان پر بند توڑ کر سیلاب بھیج دیا اور ان کے پچھلے دو باغوں کی جگہ انہیں دئیے جن میں کڑوے کیلے پھل (خمط) اور جھاؤ (اٹل) کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں (سدر) ۔
(2) سورة النجم : آیت 7 تا 18:
( وَ ھوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَی۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی۔فَأَوْحَی اِلَی عَبْدِھ مَا أَوْحَی۔ مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی۔ أَفَتُمَارُونَھ عَلَی مَا یَرَی ۔ وَ لَقَدْ رَآھ نَزْلَةً أُخْرَی ۔ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَھَی۔ عِندَھا جَنَّةُ الْمَأْوَی ۔ ِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشَی ۔ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغَی ۔ لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّھ الْکُبْرَی )
(تر جمہ) وہ سامنے آکھڑا ہوا جبکہ وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہو گیا ۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر آیا یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا تب اس نے اللہ تعالیٰ کے بندہ کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی، نظر نے جو کچھ دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا ۔ اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ایک مر تبہ اس نے سدرة المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے اس وقت سدر ہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا، نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہو ئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔
(3) سورة الواقعة : آیت 27 تا 34:
( وَ أَصْحَابُ الْیَمِیْنِ مَا أَصْحَابُ الْیَمِیْنِ ۔ فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُودٍ ۔ وَ طَلْحٍ مَّنضُودٍ ۔ وَ ظِلٍّ مَّمْدُودٍ ۔ وَ مَاء مَّسْکُوبٍ ۔ وَ فَاکِھةٍ کَثِیْرَةٍ ۔ لَّا مَقْطُوعَةٍ وَ لَا مَمْنُوعَةٍ )
(تر جمہ) اور دائیں بازو والے، دائیں بازو والوں کی (خوش نصیبی) کا کیا کہنا وہ بے خار بیریوں (سدر) اور تہہ بہ تہہ چڑھے ہو ئے کیلوں اور دور تک پھیلی ہو ئی چھاؤں اور ہر دم رواں دواں پانی اور کبھی نہ ختم ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھلوں اور اونچی نشست گا ہوں میں ہوں گے ۔
سدر کا نام قرآن پاک میں چار مرتبہ لیا گیا ہے ۔ ایک بار سورہ سبا میں دو مر تبہ سورة النجم میں اور ایک مرتبہ سورة الوقعة میں ۔ ان چاروں حوالوں میں سے صرف ایک حوالہ (سورة سبا ) کا تعلق اس سر زمین سے ہے ۔ دو کا حوالہ آسمانوں کی سرحد سے متعلق ہے ، جبکہ ایک کاذکر جنت کے نباتات کے بیان میں آیا ہے ۔
اردو اور انگریزی کے مفسرین قرآن نے سدرہ کو زیادہ تر بیری کا درخت بتا یا ہے ۔ مو لانا شبیر احمد عثمانی (1) نے سورة النجم کی تفسیر بیان کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ ” سدرة المنتہیٰ کے بیری کے درخت کو دنیا کی بیریوں پر قیاس نہ کیا جائے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کس طرح کی بیری ہو گی۔” وہ مزید فر ماتے ہیں کہ ” جو اعمال وغیرہ ادھر سے چڑھتے ہیں اور جو احکام وغیرہ ادھر سے اترتے ہیں سب کا منتہیٰ وہی ہے ۔ مجموعہ روایات سے یوں سمجھ میں آتا ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان میں اور پھیلاؤ ساتویں آسمان میں ہو گا ۔ واللہ اعلم” (2)
مو لا نا عبد الماجد دریا آبادی (3) نے تحریر فر ما یا ہے کہ “سدرة المنتہیٰ اس عالم اور اس عالم کے در میان ایک نقطہ اتصال ہے جہاں سے ملائکہ عالم بالا کے احکام زمین پر لاتے ہیں اور یہاں کے اعمال مسعود وہاں تک پہنچاتے ہیں ۔” مو لانا موصوف کے خیال میں آسمانوں کے اوپر درخت اور بیری کے درخت کو تسلیم کرنے میں کوئی دشواری نہ ہونی چاہیے کیو نکہ دنیا کے نباتات سمیت نہ جانے کتنی چیزوں کا جنت میں ہو نا مسلم ہے البتہ جنت اور آسمان کی ہر نعمت دنیا کی نعمتوں سے مشابہ تو ہو گی لیکن پھر بھی بہت کچھ مختلف ہو گی ۔ سورة الواقعة کی تفسیر بیان فرماتے ہو ئے مو لانا لکھتے ہیں کہ “بعض مفسرین کی رائے میں سدر سے مراد بیری نہیں ہے بلکہ ایک اور عمدہ درخت ہے۔”
تفسیر حقا نی (4) میں سدر کی بابت تحریر کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺنے اللہ کو بار دیگر سدر ة المنتہیٰ کے پاس دیکھا اور سدرہ جو جنت الماویٰ میں ہے وہ کوئی دنیا کا درخت نہیں ہے بلکہ صوفیاء کرام کے نزدیک سدر سے عبارت ہے روح اعظم سے کہ جس کے اوپر کوئی تعین اور مرتبہ نہیں ہے ۔مو لانا حقانی کے نظریہ میں جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ایک درخت پر تجلی ہو ئی تھی اسی طرح آنحضرت ﷺکو جنت الماویٰ میں اس درخت (سدر) کی صورت میں تجلی ہو ئی جو تمام ارواح کی جڑ ہے ۔
لغات القرآن (5) میں سدرة المنتہیٰ کو انسانی فہم و ادراک کی آخری سرحد پر ایک درخت کہا گیا ہے ۔ “جہاں آنحضرت ﷺکو فیوض ربانی اور نعمائے صمدانی سے مخصوص فر ما یا گیا ۔” جناب غلام احمد نے سدرة المنتہیٰ کو وہ مقام بتا یا ہے جہاں تحیر اپنی انتہا تک پہنچ جائے اسی لیے اس کی تشریح یوں کی گئی ہے کہ “جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا” یعنی نبی کریم ﷺکے علاوہ کسی کی لیے ممکن نہیں کہ جان سکے کہ وہ کیا کیفیت تھی ۔ گو یا کہ نظر کے لیے تحیر کی فراوانی تھی ، جس نے ساری فضاء کو ڈھانپ رکھا تھا ۔
مو لا نا مودودی (6) سورة النجم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ
“سدرة المنتہیٰ وہ مقام ہے جہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی آنحضرت ﷺسے دوسری ملاقات ہو ئی ۔ ہمارے لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ اس عالم مادی کی آخری سرحد پر وہ بیری کا درخت کیسا ہے اور اس کی حقیقی نوعیت و کیفیت کیا ہے ۔ بہر حال وہ کوئی ایسی ہی چیز ہے جس کے لیے انسانی زبان میں سدرہ سے زیادہ موزوں لفظ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور کوئی نہ تھا۔ “
علامہ عبد اللہ یوسف (7) نے سدرہ کے انگریزی معنی Lote-tree کے دئیے ہیں اور لکھا ہے کہ نباتاتی اعتبار سے یہ Ziziphus کی جنس کا پو دہ ہے اور عرب میں عام طور سے جنگلی اور غیر جنگلی ملتا ہے ۔ جناب پکٹہال نے سدرة المنتہیٰ کا تر جمہ یوں کیا ہے:
Lote-tree of the utmost boundry.
یہاں یہ امر قابل تو جہ ہے کہ مفسرین کی اکثریت نے سدرہ کو بیری ضرور بیان کیا ہے لیکن عام طور سے سورة النجم کا تر جمہ کرتے ہو ئے سدرة المنتہیٰ کو سدرة المنتہیٰ ہی لکھا ہے ۔ مثلاً جناب داود نے اپنے انگریزی ترجمہ میں سدرة المنتہیٰ کو Sidra-tree لکھا ہے اور سدر مخضود کے معنی Thornless Sidrahs کے دئیے ہیں ۔
سدر کا تذکرہ متعدد احادیث میں بھی ملتا ہے (8) ۔ ابو داود کے کتاب الادب کے تحت “باب فی قطع السدر” میں ایک حدیث بیان کی گئی ہے (9) جس میں تحریر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا ہے کہ جو شخص سدر کا درخت کاٹے گا اللہ اس کے سر کو جہنم میں اوندھا گرا دے گا ۔ ایک دوسری حدیث میں سدر کی لکڑی کے دروازے سے اور چوکھٹوں کو بنانا ایک ایسی بدعت کہا گیا ہے جس کو لوگ عراق سے لائے تھے اور اس بدعت کے ضمن میں جناب ہشام بن عروہ نے فر مایا کہ “میں نے سنا کہ مکہ میں کوئی کہتا تھا کہ لعنت کی رسو ل اللہ ﷺنے سدر کے درخت کاٹنے والوں پر ۔”
قرآنی آیات کی روشنی میں سدر کی حقیقت اور کیفیت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ارشادات کے مقاصد اور مفہوم کو ذہن میں رکھا جائے ۔مثلاً یہ بات بہت واضح ہے کہ چاروں حوالے سدر کے درخت کے ہیں ان میں ایک بھی اشارہ سدر کے پھل (نبق) کی جانب نہیں ہے ۔مزید برآں کسی بھی آیت میں سدر کا ذکر دوسرے پھلدار پودوں کے ساتھ نہیں ہو ا ہے ۔یعنی کجھور، انگور ، زیتون ، انار اور انجیر کا تذکرہ تو ایک دوسرے کے ساتھ کیا گیا ہے لیکن ان میں سے کسی کا ذکر سدر کے ساتھ نہیں ملتا گو یا کہ سدر کے درخت کی اہمیت اور اس کی شان و شوکت کا بیان ہو ا ہے لیکن اس کے ثمر کی خوبی یا نعمت کی بات نہیں کہی گئی ہے ۔ مثلاً سورة النجم اور سورة الواقعة میں سدر ہ کا ذکر کر کے حسین ، دلکش اور تحیر میں ڈالنے والے مناظر کا احساس دلا یا گیا ہے جب کہ سورة سباء میں سدر کو ان تین اقسام کے مضبوط درختوں (اثل ،خمط ، سدر ) میں سے ایک بتا یا گیا ہے جو سیلاب کی زد میں آکر بھی اپنی جڑوں پر کھڑے رہے حالانکہ باقی سارے دورویہ باغات تہس نہس ہو گئے ۔
عرب میں بیری کی تین ذاتیں Speciesعام طور پائی جاتی ہیں۔ ایک تو وہ بیری جو ہندوستان میں بھی پایا جا تا ہے اور جس کو نباتاتی اعتبار سے Ziziphus mauritiana Hamilt نام دیا گیا ہے اس کے پھل کو انگریزی میں jujube بھی کہتے ہیں ۔ دوسرا وہ بیری جو عرب کے ریگستانی علاقوں میں نسبتاً خوب صورت پو دا سمجھا جاتا ہے گو کہ یہ ایک چھوٹا درخت ہی ہو تا ہے اس کا نام Ziziphus lotus Lam ہے اور Lotus کی نسبت سے اسے Lote-tree کہا گیا ہے ۔ تیسری قسم وہ ہے جس کو Z. spina-christi Wild کہتے ہیں اور جس کی بابت روایت ہے کہ اس کے کانٹوں کا تاج حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سر پر رکھا گیا تھا ۔ بیری کی یہ تینوں ذاتیں خار دار ہو تی ہیں اور کھانے والے پھل کا ذریعہ ہیں گوکہ ان پھلوں کا مقابلہ، خصوصیات اور مزہ کے اعتبار سے ان پھلوں سے نہیں کیا جاسکتا جن کا ذکر قرآن کریم میں اللہ کی جانب سے دی گئی نعمتوں کے طور پر ہوا ہے ۔ یعنی کجھور، انار، انگور، زیتون اور انجیر ۔
عرب میں پائی جانے والی بیری یعنی Ziziphus کی تینوں ذاتیں خار دار جھاڑیاں ہو تی ہیں جن کو چھوٹے سے درخت بھی کہا جاتا ہے۔ Paxton (10) نے لکھا ہے کہ بیری کی جنس (Genus) کے نام Ziziphus کا منبع عربی زبان کا لفظ الزنیروفون ہے جس کے معنی جھاڑی دار درخت کے ہیں ۔
بیری کے درخت کی لکڑی ایندھن کے کام تو آتی ہے لیکن عمارت یا فر نیچر بنانے کے لیے موزوں نہیں سمجھی جاتی ہے ۔ تینوں اقسام کی بیری کے پھل خوش ذائقہ تو ہوتے ہیں لیکن ان کا شمار بہترین پھلوں میں نہیں کیا جاتا ہے لہٰذا تجارتی طور پر بیری کے باغات خال خال ہی ملتے ہیں ۔ان درختوں کا کانٹوں کی بناء پر باڑھ کے طور پر تو لگا یا جاسکتا ہے لیکن کسی علاقہ کو خوش منظر بنانے کے لیے اس کا لگانا مناسب نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ یہ درخت اپنے تنوں اور جڑوں کی بناء پر بہت مضبوط درخت بھی نہیں سمجھے جاسکتے ہیں ۔ ان کی شاخیں اور پتیاں سایہ دار بھی نہیں کہلائی جاسکتیں ۔
اب اگر بیری کی ساری خصوصیات اور کیفیات کو مد نظر رکھا جائے تو اس بات کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں کہ جس درخت کا حوالہ قرآن کریم میں سدرة المنتہیٰ اور جنت کی منظر کشی کرتے ہو ئے دیا گیا ہے نیز سورة سباء میں سیلاب سے بچ جانے والا کہا گیا ہے وہ بیر ہو سکتا ہے ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کی سدر کی بابت بہت واضح احادیث بھی موجود ہیں جن کے بموجب سدر کو ایک شان دار اور پُر وقار درخت بتا یا گیا ہے ۔ اس کے کاٹنے کو منع کیا گیا ہے ۔ مزید برآں اس کی لکڑی کو عمارت کے لیے استعمال کر نے کو بدعت بتا یا گیا ہے ۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ سدرہ یقینا کوئی اہم اور نایاب درخت تھا اسی لیے قرآن اور حدیث دونوں میں اس کے تذکرے معنی خیز اور بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان حقائق کی روشنی میں ان مفسرین قرآن کی رائے اور نظریہ پر غور کر نا ہو گا جنہوں نے فر مایا ہے کہ سدرہ بیری کے بجائے کو ئی دوسرا شان دار اور عمدہ درخت ہو سکتا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ سدر کا مفہوم اور مطلب اگر بیری نہیں تو پھر وہ کون سا درخت ہے ۔راقم سطور کی رائے میں سدر کا اشارہ شام و لبنان کے اس درخت سے ہے جس کو عربی زبان میں ارزالرب ، ارز البنان یا شجرة اللہ کہتے ہیں اور جو زمانہ قدیم میں سدر کے ہم وزن ناموں سے روم اور یونان میں جانا جاتا تھا یعنی سدراس ، سدرس ، کدراس وغیرہ ۔ لبنان کا یہ درخت اپنے جاہ جلال ، قد و قامت اور خوبصورتی نیز خوشبودار لکڑی کی بناء پر عرب ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا حسین ترین درخت سمجھا تھا ۔ اس کا ذکر حضرت سلیمان، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور دوسرے پیغمبر و ں نے اپنے ارشادات میں بڑے ادب کے ساتھ کیا ہے اور اس کی عظمت بیان فر مائی ہے ۔
“مقدس بائبل میں اس کا تذکرہ Erezکے نام سے بارہا ہو ا ہے ۔ ایک آیت میں ارشاد ہو تا ہے :
The trees of the Lord, the Cedrus of Lebanon which He hath planted . ( Psalm 104:16)
سر ولیم اسمتھ کی تحقیق کے مطابق بائبل کے Erez کا تر جمہ یورپ کی قدیم زبانوں میں سدر کے نام سے کیا گیا ہے(11)۔ جو غالباً کسی سامی کے لفظ سے اختراع کیا گیا تھا ۔یورپ کی ان قدیم زبانوں (یو نانی اور رُومی) کا اثر اسلام سے قبل لبنان ، شام اور فلسطین کے زیادہ تر علاقوں میں پا یا جاتا تھا اسی لیے وہاں کی ایک پرانی آبادی جہاں سدر کے درخت بہت پائے جاتے تھے ، کانام سدران پڑ گیا ۔
سدر ( انگریزی Cedar : ) کا نباتاتی نام Cedrus libani ہے یہ عام طور سے ایک سو پچاس فٹ تک بلند ہو تا ہے ۔ اس کے تنے کا قطر آٹھ فٹ ہو تا ہے چنانچہ اس کی گو لائی چالیس فٹ تک ہو تی ہے ۔ اس کی گہری سبز پتیوں کی شاخیں نیچے سے اوپر تک ایک ہی انداز سے لٹکی ہو ئی Pyramid کی شکل پیش کرتی ہیں اور دھوپ میں ایک خاص چمک پیدا کرتی ہیں ۔ مولڈنکے نے لکھا ہے کہ اس درخت یا اس کے جنگلات کے قریب کھڑے ہو کر انسان محو حیرت ہو جاتا ہے (12) اور اس کے جاہ جلال کا رعب بھلا پانا دشوار ہو جاتا ہے ۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان نے اپنی عبادت گاہیں اور محلات اسی درخت کی لکڑی سے بنوائے تھے ۔ ایک روایت ہے کہ ان عظیم الشان درختوں (سدر) کی لکڑی کاٹ کر حضرت سلیمان کے دارالسلطنت تک پہنچانے کے لیے ایک لاکھ تراسی ہزار تین سو مزدوروں کو متعین کیا گیا تھا ۔
سدر کی لکڑی میں اتنی خوشبو اور چمک ہو تی ہے کہ اس سے بنی عبادت گاہیں نہایت معطر اور صاف ستھری رہتی تھیں اور تقریباً چار سو سال تک ان پر موسم کا کوئی اثر نہ ہو تا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ فرعونی دور میں لبنان اور شام کے سدر (عربی ۔ ارز ۔عبرانی Erez) کے جنگلات سے اتنی زیادہ لکڑی کاٹ کر مصر لے جائی گئی کہ حضرت عیسیٰ کے دور سے قبل ہی اس کی کمیابی محسوس کی جانے لگی ، لہٰذا سدر کے درختوں کا کاٹنا ایک نا مناسب عمل تصور کیا جانے لگا ۔
شام و لبنان کے سدر (Cedar)کی کل چار ذاتیں دنیا کے مختلف خطوں میں پائی جاتی ہیں جس میں ایک ہندوستان کا دیودار ہے جو ہمالیہ کا ایک خوبصورت اور اہم در خت ہے، اس کا نباتاتی نام Cedrus deodaraہے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ Cedrus deodara کو ہندوستان میں دیوتا کا شجر یعنی دیودار و کہا گیا جبکہ عرب کے ارز یعنی سدر کو شجرة اللہ کہا جا تا تھا۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہندوستان کا دیودار عرب کے Cedrus libani سے ہی پیدا (evolve) ہوا ہے گو یا کہ دیودار کا اصل وطن شام و لبنان ہو سکتا ہے ۔
جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ اسلام سے قبل یونان اور روم کے تہذیبی اثرات شام و فلسطین میں اس قدر عام ہو چکے تھے کہ الارز (عبرانی) کا ان علاقوں میں سدر یا سدرس کے نام سے موسوم ہو جانا تعجب کا امر نہ تھا ۔ لیکن جب سدر کے جنگلات لبنان و شام میں تیزی کے ساتھ کاٹے جانے لگے اور اس کی لکڑی کمیاب ہو گئی تو کچھ دوسرے اقسام کے درختوں کو بھی سدر کانام دیا جانے لگا خاص طور سے Juniperusنامی جنس کا در خت جو عربی میں العر عر کہلاتا تھا اس کو بھی سدر کہا جانے لگا ۔ یہ درخت حجاز اور یمن میں بہت ملتا تھا ۔پھر ایک وقت وہ آیا جب عرعر کا بھی صفایا ہو نے لگا تو بیری کی ایک ذات کو جو عرب میں کافی عا م تھی، سدر کانام دے دیا گیا ۔ مو جودہ نباتاتی سائنس کے اعتبار سے یہ قسم یا تو Z. lotus تھی یا پھر Z. spina-christi مشہور پودوں کے ناموں کا دوسرے درختوں سے منسوب ہو جانا نباتاتی دنیا میں ایک عام بات ہے مثلاً Teakکے پودے کئی اقسام کے بتائے جاتے ہیں ۔کو ئی ہندوستانی Teak ہے تو کوئی برمی Teak اسی طرح نہ جانے کتنے اقسام اور جنس کے درختوں کو کہا جانے لگا ۔ Copal tree بھی مختلف درختوں کے نام بتائے جاتے ہیں بہر حال اس امر کے مان لینے میں کوئی پس و پیش نہ ہو نا چاہیے کہ الارز کو قدیم زمانہ میں سدر کے ہم وزن نام دیے گئے ، جو یونان اور یورپ کی زبانوں میں آج بھی مستعمل ہیں لیکن عربی زبان میں کچھ دوسری اقسام کے درختوں کو بھی سدر کہا جانے لگا جس میں ایک بیری تھا ، اس طرح یہ بات کسی حد تک یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ قرآن پاک میں جس سدر کا ذکر آیا ہے اس کا اشارہ الارز یعنی Cedrus libani سے ہے نہ کہ بیری سے ۔

سدر بنام Cedar کی دو تصاویر پیش نظر مضمون کے ساتھ دی جارہی ہیں ۔ ان تصاویر سے سدر کی شان و شوکت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ اسٹائن گاز کی مشہور فارسی لغت میں سدر کی بلندی کو مد نظر رکھتے ہو ئے ایک لفظ “سدرت قامت” دیا گیا ہے جس کے معنی دراز قد کے بتائے گئے ہیں ۔ سدر کا درخت جنگل کا باد شاہ کہلاتا تھا ۔
پلانی (79ء) نے اپنی کتاب میں اس درخت کا ذکر سدرس کے نام سے کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ Ephesus کی مشہور عبادت گاہ Temple of Diana بنانے میں سدر (سدرس) کی لکڑی استعمال ہوئی تھی ۔ یہ عبادت گاہ چار سو سال تک اپنی اصل آب و تاب کے ساتھ باقی رہی ۔ غرض کہ حضرت عیسیٰ سے کچھ قبل کے دور سے لے کر اسلام کے ظہور میں آنے تک کے دور میں جتنے حوالے یو نانی یا رومی ادب میں الارز کے درخت کے ملتے ہیں وہ سب کے سب سدر کے ہم وزن ناموں سے ہیں چنانچہ یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ قرآنی لفظ سدر یا سدرہ غیر عربی لفظ ہے اور اس امر کو حافظ سیوطی اور متعدد علماء نے تسلیم کیا ہے کہ غیر عربی زبان کے الفاظ قرآن مجید میں مو جود ہیں جو اپنی پہلی صورت بدل کر عربی زبان کے الفاظ بن گئے ۔
اب اگر سدر کو ارز البنان تسلیم کر لیا جائے تو قرآنی ارشا دات بسلسلہ سدرہ کا مفہوم اور مطلب واضح ہو جاتا ہے ۔چھٹے اور ساتویں آسمان پر سدر ة المنتہیٰ سے مراد آخری حد پر ایسے درخت کی ہو جاتی ہے جو عرب کے علاقے کا سب سے بلند ، عالی شان جاہ و جلال والا مضبوط، خوشنما، خوشبو دار اور حیرت میں ڈالنے والا درخت تھا اور جو آنحضرت ﷺسے قبل مبعوث پیغمبر وں کے ارشادات کا بھی ایک موضوع تھا اسی درخت کو قرآن کریم میں جنت کی منظر کشی کرتے ہوئے سورة الواقعة (آیت 28) میں بیان فر مایا جا تا ہے اور سدر مخضود(بغیر کانٹے والا سدر ) اس لیے کہا جا تا ہے کیونکہ اس کے بعد کی آیت میں جس در خت کا ذکر ہو تا ہے وہ طلح ہے جو ہوببول کی قسم کا خوبصورت در خت ہے لیکن خاردار ہو تا ہے ۔
سورہ سباء میں سدر بمعنی الارز کا مفہوم بھی بالکل صاف ہو جاتا ہے یمن کا شہر مآرب جہاں کے سیلاب ارم کا ذکر ہو ا ہے (آیت :16) وہ سطح سمندر سے تقریباً چار ہزار فٹ کی بلندی پر ہے اور سرد علاقہ مانا جاتا ہے (13) ۔ الارز بھی سرد اور پہاڑی علاقوں کی پیدا وار ہے ۔جبکہ بیری گرم اور ریگستانی علاقوں میں پایا جاتا ہے ۔عین ممکن ہے کہ یمن کے انتہائی ترقی یافتہ اور متمول مملکت میں سدر کے کچھ درخت شام و لبنان سے لاکر باغات کو حسن بخشنے کے لیے لگائے گئے ہوں ۔ نباتاتی سائنس کے اعتبار سے یہ ایک حقیقت ہے کہ اثل اور پرانے خمط اپنی جڑوں اور تنوں کے اعتبار سے مضبوط پودے ہیں اور سدر (الارز) کی مضبوطی تو صرف ضرب المثل ہے ہی ۔
عرب کی مختلف نباتاتی کتابوں (14) کے مطالعہ سے یہ بات علم میں آتی ہے کہ بیری کی تینوں ذاتوں کو سدر اور شجر النبق کے علاوہ ارز بھی کہتے ہیں (15) اسی طرح Junipersusکے درختوں کو عرعر کے سوا ارز اور سدر کا نام بھی دیا گیا ہے ۔بعض Temarixکے پودوں کو بھی سدر کہا گیا ہے گو یا کہ سدر کا نام یوں تو بہت سے اقسام کے درختوں سے منسوب کیا گیا ، لیکن اصل سدر Cedrus libani ہی تھا جو یونان و روم وغیرہ کی زبانوں میں سدرہ ۔ سدرس یا سدرو جیسے ناموں سے آج تک موسوم ہے غر ضیکہ امکانات اسی بات کے ہیں کہ قرآنی سدر وہی ہے جو یونانی یا رومی سدرس ہے یعنی الارز ۔
یہاں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حجاز اور نجد کے علاقوں میں اسلام سے قبل ہی عر عر اور بیری کے درختوں کو سدر کہا جانے لگا ہو گا کیونکہ اس وقت تک اصلی سدر یعنی الارز بہت کامیاب ہو گیا تھا ۔
سدر کا الارز (ارزالرب ۔ شجرة اللہ ۔ارز البنان ) ہو نا احادیث سے بھی ثابت ہے ۔ جن کا حوالہ دیا جا چکا ہے ۔ مثلاً ابوداود کی حدیث میں جس سدر کو کاٹنے سے منع فر مایا گیا اور کاٹنے والے کو جہنم سے ڈرایا گیا ہے وہ یقینا بیری نہیں ہو سکتا ۔ وہ سدر بہ معنی الارزہی تھا اور اگر رسول کریم ﷺاتنی سختی سے ارز کو کاٹنے سے منع نہ فرماتے تو یقینا عرب سے یہ حسین درخت ختم ہو جا تا اور آج اس سر زمین پر اس درخت کا وجود ہی نہ ہوتا ۔
بخاری شریف کی ایک حدیث میں سدر المنتہیٰ کے ضمن میں فرمایا گیا ہے کہ آسمان پر جو سدر آنحضرت ﷺنے دیکھا تھا وہ ایک نہایت بلند و بالا درخت تھا جس کے پتے یا شاخیں ہاتھی کے کانوں کے مانند تھیں اور پھل (نبق) حجر کے پانی کے مٹکوںکی طرح ۔حجرقوم ثمود کی مملکت کا دارالسلطنت تھا جہاں کے پتھر وں اور پکی ہو ئی مٹی کی مصنوعات بہت مشہور تھیں (16) جس شخص نے بھی سدر کا درخت اور اس پھل ، جس کو نباتاتی اصطلاح میں cone کہتے ہیں ، دیکھا ہو یااس کی تصاویر نظر سے گزری ہوں وہ مذکورہ حدیث میں دی گئی تشبیہ کی خوبی سے انکار نہیں کر سکتا کیو نکہ سدر کی پتیوں سے گھنی اور لمبی شاخیں نیچے کی جانب لٹکتی ہو ئی واقعی ہاتھی کے کان کا تصور پیش کرتی ہیں اور اس کے پھل cone کی وضع قطع ہو بہو پانی کے مٹکوں کی سی ہوتی ہے زیر نظر مضمون کے ساتھ دی گئی سدر کی تصاویر اس بیان کی صداقت کا ثبوت ہیں ۔
واضح رہے کہ سدر سے متعلق احادیث کی روشنی میں بیری کا کوئی تصور ذہن میں نہیں لا یا جا سکتا ہے ۔ بیری کے کاٹنے کی ممانعت کا بھی سوال نہیں پیدا ہو تا ہے بیری کی لکڑی چوکھٹ اور دروازہ بنانے کے کام میں عام طور سے نہیں لائی جاتی ہے اور نہ بیری کا درخت بلند کہلایا جا سکتا ہے ۔ جبکہ ساری باتیں الارز پر ہی صادق آتی ہیں ۔
یہاں شائد ان احادیث کا بھی ذکر ضروری ہے جن کا تعلق صحیح بخاری، جامع ترمذی اور صحیح مسلم کے باب الجنائز اور باب الطہارت سے ہے ۔ ان میں جنازہ کو غسل دینے کے لیے گرم پانی میں سدر کی پتیاں ملانے کی بات کہی گئی ہے ۔سدر کی تاریخی اور سائنسی جائزہ کی روشنی میں یہ امر بالکل واضح ہو جا تا ہے کہ حضور اکرم ﷺکے زمانہ میں الارز کے علاوہ عر عر اور بیری کو بھی سدر کے نام سے جانا جاتا تھا، اور ان تینوں اقسام کے درختوں کی پتیوں کو گرم پانی یں ملانے کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیو نکہ الارز اور عرعر کی پتیوں میں ایک خاص قسم کا تیل Resin ہو تا ہے جو Cedar oil بھی کہلاتا ہے اس کی اہمیت خوشبو کے اعتبار سے بھی ہے اور disinfectant خصوصیات کے ناطے سے بھی ہے ۔ بیری کی پتیوں میں خوشبو تو نہیں ہوتی لیکن اس کی پتیاں بالعموم اور Z. spina-christi کی پتیاں بالخصوص طبی اہمیت رکھتی ہیں اور جلد کو صاف کرنے میں مدد گار ہو تی ہیں۔لہٰذا مندرجہ بالا باب الجنائز اور باب الطہارت کی احادیث میں سدر کا اشارہ ان تینوں میں سے کسی کی بھی جانب موزوں ہے ۔
مندجہ بالا دی گئی نباتاتی تاریخ پو دوں کی کیمیاوی خصوصیات، قرآنی ارشادات کا پیغام اور احادیث کی روشنی میں راقم سطور یہ نظریہ پیش کرنے کی جرات کر تا ہے کہ سدرة المنتہیٰ کا سدرہ۔ جنت الماویٰ کا سدرہ (سورة النجم)، دائیں بازو والوں کی جنت کا سدر (سورة الواقعة) اور مآر ب کے زیر دست سیلاب سے بچ جانے والا سدر (سورة سباء) وہ درخت تھا جو دنیا کا حسین ترین درخت ۔ جس کو آج کل عربی میں الارز کہتے ہیں ۔

حواشی
(1-2) عثمانی ، شبیر احمد ، تفسیر قرآن ، مدینہ پریس بجنور
(3) دریا آبادی ، عبد الماجد ، تفسیر قرآن ، تاج کمپنی ، لاہور
(4) حقانی ، عبد الحق ، تفسیر حقانی ، دار الاشاعت ، دہلی ، 1364ھ
(5) نعمانی، عبد الرشید و سی’د عبد الدائم جیلانی ، لغات القرآن ، ندوة المصنفین ، دہلی
(6) مودودی ، ابو الاعلیٰ ، تفہیم القرآن ، غازی آباد 1986ء
(7) علی ، علامہ عبد اللہ یوسف ، The Meaning of Glorious Quran Vol. I or II, دار الکتاب ، قاہرہ مصر
(8) Wensinck, A.J. and J.P Mensing, Concordance et indices de la Tradition Musulmane, Leiden, 1987.
(9) داود، ابو ، السنن ، کتاب الادب ، باب فی قطع السدر۔
(10) Hereman, Smuel, Paxton Botanical Dictionary, Enaus & Co., London 1953
(11)Smith, William and J.M. Fuller, The Dictionary of Bible, John Murray Co., London 1893
(12) Moldenke, H.N. and A.L. Moldenke, Plants of the Bible, Chronica Botanica Co. , Mass., U.S., 1952.
(13) Hiitti, Phillips,K. , The History of Arabs , Macmillon & Co. ,London 1953.ندوی ، سیّد سلیمان ، عرب و ہند کے تعلقات ، الہ آباد 1930ء۔
(14) Blatter, E., Flora of Aden, Government Printing Press, Calcutta, 1914.
(15) Blatter, E., Flora Arabica, Government Printing Press, Calcutta, 1919.

(16) ندوی ، سیّد سلیمان ، عرب
خصوصی نوٹ: ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی ( مولود 1936ء ) ہندوستان کے مشہور صاحبِ علم و ماہرِ نباتات ہیں ۔ ان کی تحریر کردہ کتاب “نباتات قرآنی” اپنے موضوع پر علم و تحقیق کا شاہکار ہے ۔ قرآنی اصطلاح “سدرہ” پر ان کی قابلِ قدر تحقیق قارئینِ الواقعة کے لیے پیشِ خدمت ہے ۔ (ادارہ الواقعۃ )
 
Top