نمرہ
محفلین
دربدر ناصیہ فرسائی سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے
اک نظر دیکھے سے سر تن سے جدا ہوتا ہے
بے جگہ آنکھ لڑی ، دیکھیے کیا ہوتا ہے
شوق کم ملنے سے اندوہ فزا ہوتا ہے
ہائے پرہیز سے یہ درد سوا ہوتا ہے
چشمِ خوں بار مری آپ نے تلووں سے ملی
ورنہ ایسا بھی کہیں رنگِ حنا ہوتا ہے
جاں بلب ہوں خبرِ وصل سنا دے قاصد
لب ہلانے میں ترے کام مرا ہوتا ہے
ہو کے آزردہ پشیماں ہوں کہ میں جس سے کہوں
وہی کہوے، کوئی ایسے سے خفا ہوتا ہے
دل دیا جس نے وہ ناکام رہا تا دمِ زیست
فی الحقیقت کہ برا کام برا ہوتا ہے
وا رہیں حشر تلک بہرِ دعا گو لبِ زخم
پر ترا حقِ نمک کوئی ادا ہوتا ہے
زہر نوشِ غمِ شیریں نے کہا خسرو سے
تلخئ مرگ میں شکر کا مزہ ہوتا ہے
واقعی سجدہء در ایسی ہی تقصیر ہے اب
جور جو بندے پہ ہوتا ہے بجا ہوتا ہے
اے دل آ جانے دے اس زلفِ مسلسل کا خیال
جان کر کوئی گرفتارِ بلا ہوتا ہے
دل میں اتنا تو سمایا ہے کہ جل جاتا ہوں
سروِ نوخیز جو انگشت نما ہوتا ہے
ناتوانی مری مت پوچھ کہوں کیا ہمدم
بات کہنے میں مرا دم ہی ہوا ہوتا ہے
چاک پیراہنِ گل پر تو نہ پھول اے بلبل
جامہ یاران لباسی کا قبا ہوتا ہے
ہو نہ بےتاب غمِ ہجرِ بتاں میں مومن
دیکھ دو دن میں بس اب فضلِ خدا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے
اک نظر دیکھے سے سر تن سے جدا ہوتا ہے
بے جگہ آنکھ لڑی ، دیکھیے کیا ہوتا ہے
شوق کم ملنے سے اندوہ فزا ہوتا ہے
ہائے پرہیز سے یہ درد سوا ہوتا ہے
چشمِ خوں بار مری آپ نے تلووں سے ملی
ورنہ ایسا بھی کہیں رنگِ حنا ہوتا ہے
جاں بلب ہوں خبرِ وصل سنا دے قاصد
لب ہلانے میں ترے کام مرا ہوتا ہے
ہو کے آزردہ پشیماں ہوں کہ میں جس سے کہوں
وہی کہوے، کوئی ایسے سے خفا ہوتا ہے
دل دیا جس نے وہ ناکام رہا تا دمِ زیست
فی الحقیقت کہ برا کام برا ہوتا ہے
وا رہیں حشر تلک بہرِ دعا گو لبِ زخم
پر ترا حقِ نمک کوئی ادا ہوتا ہے
زہر نوشِ غمِ شیریں نے کہا خسرو سے
تلخئ مرگ میں شکر کا مزہ ہوتا ہے
واقعی سجدہء در ایسی ہی تقصیر ہے اب
جور جو بندے پہ ہوتا ہے بجا ہوتا ہے
اے دل آ جانے دے اس زلفِ مسلسل کا خیال
جان کر کوئی گرفتارِ بلا ہوتا ہے
دل میں اتنا تو سمایا ہے کہ جل جاتا ہوں
سروِ نوخیز جو انگشت نما ہوتا ہے
ناتوانی مری مت پوچھ کہوں کیا ہمدم
بات کہنے میں مرا دم ہی ہوا ہوتا ہے
چاک پیراہنِ گل پر تو نہ پھول اے بلبل
جامہ یاران لباسی کا قبا ہوتا ہے
ہو نہ بےتاب غمِ ہجرِ بتاں میں مومن
دیکھ دو دن میں بس اب فضلِ خدا ہوتا ہے